0
Saturday 29 Jun 2024 11:29

مجبور امریکی عوام

مجبور امریکی عوام
تحریر: سید رضا میر طاہر

امریکی عوام منگل 5 نومبر 2024ء کے دن اپنے ملک کے اگلے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ اس الیکشن کا فاتح جنوری 2025ء سے اپنے چار سالہ صدارتی مدت کا آغاز کرے گا۔ ٹیلی ویژن پر ہونے والے مباحثے طویل عرصے سے امریکی صدارتی مہم کا ایک اہم حصہ رہے ہیں اور یہ مباحثے اور مناظرے امیدواروں کے لیے تاریخی لمحات بھی شمار ہوتے ہیں۔ آنے والے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان پہلا مباحثہ سی این این نیٹ ورک کے دو معروف اینکرز جیک ٹیپر اور ڈانا باش کی موجودگی میں ایک اسٹوڈیو میں ہوا، البتہ اس میں عوام شریک نہیں تھے۔

100 منٹ تک جاری رہنے والی اس بحث کے آغاز میں بائیڈن اور ٹرمپ نے مصافحہ نہیں کیا اور اس کے انعقاد کے دوران دونوں امیدواروں کی انتخابی ٹیمیں بھی ایک دوسرے سے بات چیت نہیں کر رہی تھیں۔ بائیڈن نے ٹرمپ کے ساتھ پہلی بحث میں کمزور اور متزلزل کارکردگی کے حامل دکھائی دیئے، جب کہ ٹرمپ نے ان پر کئی بیانات کے ساتھ کھل کر حملہ کیا۔ بحث میں بائیڈن کی اس ناقص کارکردگی کی وجہ سے ڈیموکریٹس کے درمیان خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے اور ان کے رائے دہندگان میں یہ خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ وہ مزید چار سال کی مدت کے لیے بہت بوڑھے ہیں۔

بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان پہلے انتخابی مباحثے میں مختلف ملکی اور غیر ملکی مسائل اٹھائے گئے۔ دیگر چیزوں کے علاوہ، ذاتی اور خاندانی جہت میں، "ہنٹر بائیڈن" (جو بائیڈن کے بیٹے) کے کیسز اور ٹرمپ کی اخلاقی بدعنوانی کا معاملہ خصوصی طور پر زیر بحث آیا۔ بائیڈن، ٹرمپ کی اخلاقی بدعنوانی کو سامنے لائے اور ٹرمپ نے بائیڈن کے بیٹے کو باقاعدہ مجرم قرار دیا۔ بائیڈن اور ٹرمپ کے درمیان امریکہ کے معاشی صورتحال پر باقاعدہ جھگڑے کی صورت حال پیدا ہوگئی۔ بائیڈن نے دعویٰ کیا کہ امریکی معیشت ترقی کے راستے پر ہے، لیکن ٹرمپ نے اصرار کیا کہ امریکی معیشت تباہ ہو رہی ہے۔

بائیڈن نے مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں اپنی خارجہ پالیسی کے ریکارڈ کا دفاع کرتے ہوئے یوکرین جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "پیوٹن ایک جنگی مجرم ہے، کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ رکنے والا ہے؟" ٹرمپ نے بائیڈن کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اگر ہمارے پاس اچھا اور فعال صدر ہوتا تو یوکرین پر حملہ ہی نہ ہوتا۔ ایران اور اس کی علاقائی طاقت کے بارے میں، بائیڈن اور ٹرمپ کی پہلی انتخابی بحث میں ایک دوسرے کے ساتھ باقاعدہ زبانی لڑائی ہوئی۔ بائیڈن نے کہا: "ٹرمپ کے دور میں، ایران نے ہمارے اڈے پر حملہ کیا اور اس نے کچھ نہیں کیا۔ ادھر ٹرمپ نے جو بائیڈن پر ایران کے بارے میں حالیہ صورت حال کے تناظر میں میں بے عملی کا الزام لگایا۔

اس بحث کے انعقاد کے بعد اہم مسئلہ امریکی عوام کی رائے ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس بارے میں لکھا: ’’امریکی ووٹرز، جو امریکہ میں نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں دو اہم حریفوں جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان انتخابی مباحثے سے قبل دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے، انہوں نے آخرکار اپنے فیصلے کا اعلان کر دیا۔ امرکی عوام ٹرمپ کو ضرور ووٹ دیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی ووٹر دو آپشنز کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں، دونوں ہی ریاستہائے متحدہ کی صدارت کے لیے بدترین آپشن ہیں، دونوں جماعتوں کی عملی اجارہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی آزاد امیدوار کی جیت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے یا دوسرے لفظوں  میں کوئی تیسرا آپشن ہے ہی نہیں۔ امریکی عوام کے پاس دو صدارتی امیدواروں کے درمیان ایک کا انتخاب کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن بوڑھے ہیں، دماغی عارضے اور ڈیمنشیا میں مبتلا ہیں اور وہ اکثر غیر معمولی حرکات کرتے ہیں، جو ان کے ذہنی عدم توازن کی علامت ہے۔ نیویارک ٹائمز اور سینائی کالج کے سروے کے مطابق، تقریباً 70 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ 81 سالہ جو بائیڈن صدر بننے کے لیے بہت بوڑھے ہیں۔ پول میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اگر انتخابات جلد کرائے گئے تو 48 فیصد ووٹرز 78 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ کو منتخب کریں گے جبکہ صرف 42 فیصد 81 سالہ بائیڈن کو ووٹ دیں گے۔ دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک مجرم تصور کیا جاتا ہے، جن کے خلاف مختلف ریاستوں میں چار امریکی عدالتوں میں مقدمات درج ہیں اور انہیں نیویارک کی مین ہٹن عدالت میں ایک فحش فلموں کی اداکارہ کو  خاموشی اختیار کرنے پر بھاری رقم دینے کے جرم میں باقاعدہ مجرم قرار دیا گیا، جس پر کئی سال کی قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

دریں اثناء، ان کے دیگر الزامات میں ٹیکس چوری، جارجیا کے ریاستی انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش، صدارتی مدت ختم ہونے کے بعد اپنی فلوریڈا مینشن میں خفیہ دستاویزات لے کر جانا اور چھپانا شامل ہیں۔ ان عدالتوں میں مجموعی طور پر ٹرمپ کے خلاف مختلف شعبوں میں تقریباً ایک سو الزامات لگائے گئے ہیں۔ مختصر یہ کہ ٹرمپ کو ایک دھوکے باز اور اخلاقی اور مالی طور پر کرپٹ شخص کے طور پر جانا جاتا ہے، جس نے 2020ء کے صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد اس الیکشن کے عمل پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے اور نتائج پر شک کرتے ہوئے اپنے حامیوں کو ہنگامہ آرائی کی ترغیب دی، جس کے نتیجے میں 6 جنوری 2021ء کو امریکی کانگریس پر حملہ ہوا۔

اہم بات یہ ہے کہ بہت سے امریکی لوگ، جن کے پاس بائیڈن اور ٹرمپ کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے، اب تذبذب کا شکار ہیں۔ تقریباً 20 فیصد ووٹروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے  ابھی تک اس سال کی صدارتی دوڑ میں کسی امیدوار کا انتخاب نہیں کیا، ان کا کہنا ہے کہ وہ تیسرے فریق کے امیدوار کو ترجیح دیتے ہیں، یا وہ بالکل ووٹ ہی نہیں ڈالیں گے۔ بہرحال خود کو دنیا میں جمہوریت کا چیمپئین سمجھنے والے ملک امریکہ کے صدارتی انتخابات میں اس ملک کے عوام  کے پاس صرف دو آپشنز ہیں، وہ مجبور ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو ووٹ دیں، اس کے باوجود کے یہ دونوں ہی امریکی عوام کے لئے ناپسندیدہ اور مسترد شدہ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1144663
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش