0
Thursday 27 Jun 2024 18:49

یحییٰ سنوار کا عرب مذاکرات کاروں کو پیغام

یحییٰ سنوار کا عرب مذاکرات کاروں کو پیغام
تحریر: ڈاکٹر صابر ابومریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

غزہ پر امریکی و اسرائیلی جارحیت جاری ہے۔ نو ماہ میں پچاس ہزار سے زائد معصوم فلسطینیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ پورے غزہ کو ملبہ کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے۔ نسل کشی میں اس قدر شدت ہے کہ انسانیت کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں۔ دوسری جانب غزہ میں جنگ بندی کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ کئی ایک مذاکرات کے دور گزر چکے ہیں، جو امریکی و اسرائیلی ہٹ دھرمیوں کے باعث ناکام ہوچکے ہیں۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی قرارداد منظور ہونے کے باوجود غاصب صیہونی حکومت اسرائیل فلسطینوں پر ظلم کا سلسلہ بند کرنے پر رضامند نہیں ہے۔امریکی آشیرباد کی انتہاء یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اربوں ڈالر کا اسلحہ مسلسل غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو پہنچایا جا رہا ہے، تاکہ فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رہے۔

غزہ جنگ بندی کے معاہدے میں حماس اور فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں بشمول جہاد اسلامی اور پاپولر فرنٹ کی جانب سے مشترکہ طور پر یہ نقاط اٹھائے گئے ہیں کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کی جائے اور فلسطینی قیدیوں کو صیہونی قیدیوں کے بدلے میں رہا کیا جائے۔ غزہ کی از سر نو تعمیر اور غزہ میں امدادی سرگرمیوں کی شرائط بھی اس معاہدے کا حصہ ہیں۔ امریکہ اور غاصب صیہونی حکومت مسلسل ان شرائط کو مسترد کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ غزہ سے نکال دیئے جانے والے فلسطینیوں کو واپس غزہ نہ آنے دیا جائے۔ یعنی جس طرح سنہ 1948ء میں یوم نکبہ پر پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے جبری جلا وطن کیا گیا تھا، ایک مرتبہ پھر اتنی ہی بڑی تعداد کو اپنے وطن سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

امریکی حکومت جو ایک طرف غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل کی مددگار ہے، وہاں دوسری جانب دنیا کے سامنے ڈھونگ رچانے کے لئے امریکی صدر بائیڈن نے جنگ بندی کا معاہدہ پیش کیا ہے۔ اس معاہدے میں مصر اور قطر کی حکومتیں امریکی معاہدے کی معاون اور مددگار ہیں۔ حال ہی میں غزہ میں موجود حماس کی قیادت یحییٰ سنوار جن کو سات اکتوبر کے طوفان اقصیٰ آپریشن کا ایک ماسٹر مائنڈ بھی قرار دیا جاتا ہے، انہوں نے امریکی صدر کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی کے معاہدے کے حوالے سے عرب مذاکرات کاروں اور حماس کی سیاسی قیادت کو مختصر پیغام بھیجا ہے۔ ایک عربی ذرائع کے مطابق غزہ میں موجود حماس کی قیادت یحییٰ سنوار نے یہ پیغام مصر اور قطر سمیت عرب حکمرانوں کے نام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی ایسے معاہدے کو تسلیم نہ کیا جائے، جس کی بنیاد امریکی حکومت نے قائم کی ہو۔

انہوں نے عرب مذاکرات کاروں کو واضح کر دیا ہے کہ حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہ، جو اس وقت فلسطین کے اندر رہتے ہوئے فلسطین اور پوری مسلم امہ کا دفاع کر رہے ہیں، سب کا یہی پیغام ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی سے کم کسی معاہدے پر دستخط نہ کئے جائیں۔ قیدیوں کے بدلے میں قیدیوں کا تبادلہ یقینی بنایا جائے۔ یحییٰ سنوار کے اس پیغام پر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطین کے اندر موجود تمام ہی مزاحمتی گروہ بشمول حماس، جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ آف دی فلسطین اور دیگر سب کے سب اس نقطہ پر متفق ہوچکے ہیں کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کی جائے جبکہ دوسری جانب امریکی حکومت اور غاصب صیہونی حکومت اسرائیل غزہ میں مستقل جنگ بندی کے قائل نہیں ہیں۔ امریکی حکومت کے ارادوں میں واضح طور پر بدنیتی موجود ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل بھی فلسطین پر مکمل غاصبانہ تسلط کو یقینی بنانے کے لئے نہتے فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔

انہی حالات کے دوران ہی امریکی جنگ بندی کے فارمولہ پر عملدرآمد کے لئے امریکہ کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے چیف ولیم برنز نے گزشتہ دنوں دوحہ میں مصر اور قطر کے اعلیٰ سطحی عہدیداروں سے ملاقات کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ حماس کی سیاسی قیات کو امریکی صدر کے جنگ بندی کے فارمولے پر دستخط کرنے کے لئے رضامند کیا جائے۔ امریکن سی آئی اے کے چیف کے اس دورے کے بعد مصر میں قطر اور مصری حکام نے فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کے مذاکرات کاروں کا اجلاس طلب کیا تھا، جس میں حماس، جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ اور دیگر نے شرکت کی تھی اور اس اجلاس میں مصری اور قطری عہدیداروں نے امریکن سی آئی اے چیف ولیم برنز کا پیغام پہنچایا تھا، جس پر فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کے نمائندوں نے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ مستقل جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ کسی بھی معاہدے کا بنیادی جزو ہیں۔

اس تمام پیش رفت کے دوران ہی غزہ میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو مظلوم حماس کے اعلیٰ سطحی کمانڈر اور رہنماء یحیٰ سنوار نے ان تمام مذاکرات کاروں کو ایک مختصر پیغام ارسال کیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی حکومت مسائل کی جڑ ہے، امریکہ کی طرف سے پیش کردہ کوئی بھی منصوبہ قابل قبول نہیں ہوسکتا ہے، تاہم عرب مذاکرات کاروں کو چاہیئے کہ کسی بھی معاہدے میں مستقل جنگ بندی اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو فراموش نہ کریں۔ تمام تر صورتحال کے بعد عرب ذرائع ابلاغ پر یہ سوال بھی گردش کر رہا ہے کہ کیا حماس کی سیاسی قیادت یعنی اسماعیل ہنیہ کہ جو قطر میں مقیم ہیں، کیا وہ قطری حکومت کا دباؤ تسلیم کریں گے؟ کیونکہ پہلے بھی ایسی خبریں سامنے آچکی ہیں کہ جس میں قطری حکام حماس کی اعلیٰ قیادت یعنی اسماعیل ہنیہ کو معاہدہ تسلیم نہ کرنے کی صورت میں قطر سے نکالنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔

امریکی ذرائع ابلاغ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ حماس کی قطر میں موجود قیادت کو گرفتار کرکے امریکیوں کے حوالے بھی کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال اسماعیل ہنیہ پر جہاں امریکی و اسرائیلی دباؤ ہے، وہاں ساتھ مسلمان حکومتوں یعنی مصر اور قطر کا بھی دباؤ موجود ہے، کیونکہ یہ دونوں ہی مذاکرات میں شریک ہیں۔ البتہ اب تک اسماعیل ہنیہ نے بھی غزہ کے مجاہدین کے موقف کی ترجمانی کی ہے اور واضح الفاظ میں بیان دیا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کے علاوہ کوئی بھی دوسرا حل قابل قبول نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 1144223
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش