0
Sunday 30 Jun 2024 22:27

صیہونیوں کی شمالی محاذ پر جنگ کی آرزو

صیہونیوں کی شمالی محاذ پر جنگ کی آرزو
تحریر: حمید مہدوی راد
 
اگرچہ صیہونی فوج اب تک جنوبی محاذ پر مصروف ہے اور غزہ جنگ کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکی، لیکن کچھ صیہونی حکمران دعوی کر رہے ہیں کہ حماس سے جنگ عنقریب ختم ہو جائے گی اور وہ شمالی محاذ پر مزید فوج اور فوجی سامان بھیج سکیں گے۔ غاصب صیہونی رژیم کا دعوی ہے کہ اس نے غزہ میں حماس کے ملٹری ونگ عزالدین قسام کی 20 بٹالینز مکمل طور پر نابود کر ڈالی ہیں اور اس وقت رفح شہر میں حماس کی باقیماندہ 4 بٹالینز سے جنگ جاری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نو ماہ گزر جانے کے باوجود غاصب صیہونی رژیم اب تک حماس کو مکمل طور پر ختم نہیں کر پائی اور یہ جنگی ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ دوسری طرف اس مدت میں غاصب صیہونی فوج نے غزہ میں عام شہریوں پر دسیوں ٹن بم اور میزائل گرا دیے اور غزہ کے اکثر حصوں کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ بنجمن نیتن یاہو اپنے اعلان کردہ اہداف حاصل کرنے میں امیدوار تھا اور صیہونی رژیم نے اس بات سے امید لگا رکھی تھی کہ وہ فوجی دباو، نسل کشی، محاصرے، جنگ اور قحطی کے ذریعے غزہ کی عوام کو حماس کے مقابل لا کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور اہل غزہ کو سول نافرمانی پر اکسا دے گی۔ لیکن وہ اس حقیقت سے غافل تھی کہ یہ کھوکھلی پالیسیاں کافی عرصہ پہلے سے شکست کھا چکی ہیں اور نیتن یاہو بڑی تعداد میں بے دفاع اور نہتے فلسطینیوں کی لاشوں سے مطلوبہ اہداف حاصل نہ کر سکا۔ دوسری طرف طوفان الاقصی معرکے کو نو ماہ گزر جانے کے بعد اور بنی گانتز اور آئزنکوٹ کا جنگی کابینہ چھوڑ کر چلے جانے کے بعد صیہونی رژیم کی جنگی کابینہ کی حیثیت ختم ہو کر رہ گئی اور نیتن یاہو نے بھی اسے تحلیل کر دیا۔ اس کی وجہ سے صیہونی رژیم کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔
 
اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے شام میں اپنے قونصلیٹ پر غاصب صیہونی رژیم کے میزائل حملے کے جواب میں "وعدہ صادق" آپریشن انجام پایا جس نے صیہونی حکمرانوں کے حوصلے پست کر دیے اور انہوں نے جنون آمیز انداز میں رفح پر زمینی حملے کا اعلان کر دیا۔ نسل پرست صیہونی رژیم نے مسلسل ناکامیوں اور شکست کے بعد رفح میں فوجی جارحیت کا دائرہ بڑھا دیا۔ صیہونی حکمران جنوبی محاذ پر عبرتناک شکس سے دوچار ہونے کے بعد اب اپنی خفت مٹانے اور خود کو فاتح ظاہر کرنے کیلئے نئے محاذ پر فوجی مہم جوئی شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ صیہونی رژیم کے وزیر جنگ یوآو گالانت نے اپنے حالیہ امریکہ دورے میں واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ اب ہمارا ہدف صرف غزہ میں حماس کی نابودی ہی نہیں بلکہ ہمارا دشمن کسی دوسری جگہ ہے۔
 
صیہونی وزیر جنگ جو امریکی حکام سے بات چیت کیلئے واشنگٹن گیا ہوا تھا نے 26 جون کے دن صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "حزب اللہ بخوبی آگاہ ہے کہ اگر جنگ شروع ہوتی ہے تو ہم لبنان کو شدید نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔" بعض امریکی ذرائع ابلاغ نے اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد غزہ پر صیہونی جارحیت کے آغاز سے اب تک امریکہ صیہونی رژیم کو 6.5 ارب ڈالر فوجی امداد فراہم کر چکی ہے۔ امریکی اخبار وانشگٹن پوسٹ نے اس بارے میں اعلان کیا ہے کہ صیہونی رژیم کو فراہم کی جانے والی اس فوجی امداد کا 50 فیصد حصہ گذشتہ ماہ دیا گیا ہے۔ اس اخبار نے مزید بتایا کہ ابھی ان اعداد و شمار کا سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا گیا۔ امریکہ کے ایک اعلی سطحی عہدیدار نے کہا ہے کہ یہ ایک عظیم مشن تھا جو اسرائیل کی مدد کیلئے انجام پایا ہے۔
 
اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی بھرپور مدد کے باوجود خطے کے حالات ایسی سمت آگے بڑھ رہے ہیں جو علاقائی اور حتی عالمی سطح پر بڑی تبدیلیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ اسی بارے میں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے یونان سمیت تمام ایسے ممالک جو اپنی سرزمین غاصب صیہونی رژیم کے اختیار میں دے رہے ہیں، کو خبردار کرتے ہوئے کہا: "دشمن جانتا ہے کہ اسے زمین، سمندر اور ہوا سے ہمارا منتظر رہنا چاہئے۔ اگر لبنان پر جنگ تھونپی گئی تو اسلامی مزاحمت کسی اصول، قانون اور محدودیت کے بغیر جنگ کرے گی۔ دشمن اور اس کا سرپرست امریکہ جانتے ہیں کہ لبنان پر حملے کے نتائج علاقائی سطح پر ظاہر ہوں گے۔" سید حسن نصراللہ نے مزید کہا: "میں یونان حکومت کی توجہ چاہتا ہوں۔ ہمارے پاس ایسی معلومات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی دشمن کی فوج لبنان پر حملہ کرنے کیلئے یونان میں مشقیں کر رہی ہے۔ یونان ہوشیار ہو جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یونان بھی جنگ کا حصہ ہے۔"
 
چونکہ غاصب صیہونی رژیم کی حماس کے مکمل خاتمے اور اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی کی آرزو پوری نہیں ہو سکی لہذا اب وہ لبنان کو دھمکیاں دینا شروع ہو گئے ہیں اور اسے پتھر کے زمانے میں واپس بھیجنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ یوں وہ ایک اور ایسی آرزو کے پیچھے ہیں جو پوری ہونے والی نہیں ہے۔ صیہونی حکمرانوں کی دھمکیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اوہام کی دنیا میں رہتے ہیں اور اسلامی مزاحمتی قوتوں سے شدید ہراساں ہیں۔ امریکی اور یورپی حکمران بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسی عظیم اسٹریٹجک غلطی انجام پانے کی صورت میں علاقائی اور حتی علاقے سے باہر کی قوتیں بھی جنگ میں شامل ہو جائیں گی اور اس کے پورے خطے پر وسیع اقتصادی، سیاسی اور حتی معاشرتی اثرات ظاہر ہوں گے۔ دنیا پہلے سے ہی یوکرین جنگ کے باعث انرجی کے بحران کا شکار ہے لہذا وہ کسی بھی نئی جنگ کے تباہ کن نتائج سے بخوبی آگاہ ہے۔ امریکہ بھی ایسی جنگ نہیں چاہتا اور اسے اپنے مفادات کیلئے نقصان دہ تصور کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1144819
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش