0
Monday 1 Jul 2024 13:06

دوحہ اجلاس چند خبریں

دوحہ اجلاس چند خبریں
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان کے بارے میں تیسرا اجلاس جاری ہے۔افغانستان کے عنوان پر اقوام متحدہ کے اس تیسرے دو روزہ اجلاس میں 22 ممالک اور 8 بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندے شریک ہیں۔ افغانستان میں تین سال قبل دوبارہ اقتدار میں آںے والے طالبان گروپ کو اس اجلاس میں مدعو کیا گیا ہے۔ افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کے وفد کے سربراہ ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو کہا ہے کہ دوحہ میں جاری تیسرے اجلاس کے دوسرے روز کا آغاز کافی بہتر انداز میں ہوا ہے، جہاں ان کے مطابق زیادہ تر ممالک نے افغانستان کے نجی شعبے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پیر کو ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ دوحہ کانفرنس کے دوسرے روز افغانستان کے مالیاتی اور بینکنگ کے شعبہ جات پر عائد عالمی پابندیوں کو ہٹانے کی حمایت کی گئی۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ "او آئی سی، امریکہ، ترکمانستان، قرغزستان، قزاقستان، پاکستان، ایران، چین اور روس کا موقف قابل تحسین رہا ہے۔"

اقوام متحدہ کی زیر قیادت تقریباً دو درجن ممالک پر مشتمل دو روزہ کانفرنس اتوار کو قطر میں شروع ہوئی تھی۔ "دوحہ پراسس کے دوسرے اجلاس میں طالبان نے شرکت سے انکار کیا تھا، جس کے بعد ان کی چند شرائط کو ماننے کے بعد ان کا وفد حالیہ اجلاس میں شریک ہوا ہے۔ پیر کو ہی افغانستان کی وزارت خارجہ کے سینیئر عہدیدار ذاکر جلالی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ "طالبان حکومت کا وفد پیر کو ہونے والی ملاقاتوں کو مالیاتی اور بینکنگ سیکٹر پر پابندیوں اور ان سے افغانستان کی معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے استعمال کرے گا۔" اس سے قبل دوحہ کانفرنس سے اپنے خطاب میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ طالبان حکومت دوحہ کے حالیہ اجلاس کو مالیاتی اور بینکنگ سیکٹر پر عائد یک طرفہ اور عالمی پابندیوں کے حوالے سے تعمیری بات چیت میں شامل ہونے کا ایک اہم موقع سمجھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "دوحہ کے اس اجلاس میں ہماری شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے تحفظات کے باوجود امارت اسلامیہ افغانستان میں مثبت اقدامات کے لیے پرعزم ہے۔"

یاد رہے کہ کابل میں طالبان حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کسی ملک نے باضابطہ طور پر انہیں تسلیم نہیں کیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سربراہ ایگنس کیلامارڈ نے مذاکرات سے قبل ایک بیان میں کہا کہ "مذاکرات میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے طالبان کی شرائط پر غور کرنے سے ان کے صنفی بنیاد پر ادارہ جاتی جبر کے نظام کو قانونی حیثیت دینے کا خطرہ ہوگا۔" طالبان کو قائل کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے ان کی شرائط قبول کیں اور اقوام متحدہ نے دوحہ اجلاس میں خواتین اور طالبان کی اپوزیشن کے وفود کو شرکت کی دعوت نہیں دی۔ اقوام متحدہ کے اس رویئے کو خواتین کی کمیونٹی اور طالبان کے مخالفین کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں طالبان کو تسلیم کرنے کے لیے مناسب حالات پیدا کر رہا ہے۔

اگرچہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے نمائندے نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے طالبان کی دعوت کو افغانستان میں ان کی خودمختاری کو تسلیم کرنے کی علامت  قرار نہیں دیا اور اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ افغانستان میں طالبان کے طرز عمل اور حکومتی کارکردگی کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ افغان امور کے ماہر محسن روئی صفت کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’طالبان نے گورننس کے شعبے میں کئی اہم اصولوں کو نظر انداز کیا ہے، جن میں شہریت کے حقوق کی عدم پاسداری اور چھٹی جماعت سے اوپر کی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی بھی شامل ہے۔  طالبان وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل اور اس کے نتائج سے مکمل طور پر لاتعلق ہیں۔ اسی وجہ سے خواتین سمیت  اکثر افغان حلقوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر اقوام متحدہ طالبان کے رویئے کو تسلیم کرکے اسے سرکاری طور پر ایک حکومت کے طور پرتسلیم کرلیتی ہے تو افعانستان میں انسانی حقوق کا جنازہ نکل جائیگا۔

ادھر طالبان کا کہنا ہے کہ خواتین اور دیگر معاملات افغانستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور کسی کو ان کے اندرونی مسائل میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔ دوحہ اجلاس میں افغانستان کے پڑوسی ممالک اور کئی ایسے ممالک شامل ہیں، جو اس ملک کے معاملات اور پیشرفت میں اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس تناظر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر اور خصوصی نمائندے حسن کاظمی قمی نے کہا کہ دوحہ اجلاس میں ایرانی وفد کی شرکت کا مقصد ایرانی موقف کو واضح کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے شرکاء اجلاس کو افغانستان کے بارے میں تہران کی تشویش سے آگاہ کیا اور ایران اور خطے کے دیگر ممالک میں موجود افغان شہریوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کے حکام اور اجلاس میں شریک دیگر ممالک کو آگاہ کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں جن علاقائی چیلنجز کو جنم دیا گیا ہے، وہ صرف خواتین کا مسئلہ اور ایک جامع حکومت کی تشکیل ہی نہیں بلکہ افغانستان سے اندرونی نقل مکانی کی لہر کا تسلسل، سرحدی عدم تحفظ، اسمگلنگ کی اقسام جیسے اہم مسائل بھی ہیں۔ منشیات، ہتھیار اور دہشتگردی خطے کے تمام ممالک کے لیے بنیادی چیلنجز اور مسائل ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے نقطہ نظر سے اقوام متحدہ کو ان پر بنیادی توجہ دینی چاہیئے۔ کاظمی قمی کے نقطہ نظر سے، افغانستان اور خطے کے پیچیدہ اور خطرناک حالات تمام فریقوں کے ساتھ جامع مشاورت کے متقاضی ہیں، تاکہ اقوام متحدہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ایران کے نقطہ نظر سے تمام متعلقہ ممالک  کو ایسا فارمولہ سامنے لانا چاہیئے، جو  افغان عوام کے درد اور مصائب کو کم کرنے اور امن، استحکام، سلامتی، پائیدار ترقی اور غیر ملکی مداخلت اور تسلط کے بغیر عوام کی آزاد مرضی پر مبنی حکومت لانے میں مدد دے سکتا ہو۔

اس صورتحال کا احساس اس وقت ہوسکتا ہے، جب اقوام متحدہ ایک اہم اور موثر کردار ادا کرتے ہوئے دوحہ اجلاس کو افغانستان کی پیش رفت میں ایک موثر اور فیصلہ کن میٹنگ میں تبدیل کر دے اور اسے تقریروں اور تکراری تجاویز میں تبدیل ہونے اور بے نتیجہ سیاسی مشوروں کو اپنانے سے روکنے میں اپنا کردار کرے۔ افغانستان کے عوام بالخصوص اس ملک کی خواتین کی کمیونٹی اقوام متحدہ سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ طالبان پر افغانوں کے شہریت کے حقوق کا احترام کرنے کے لیے دباؤ ڈالے اور دوحہ اجلاس کو افغان عوام کے لئے فائدہ مند بنانے کی کوشش کرے۔ یاد رہے طالبان حکام کو گذشتہ سال دوحہ میں ہونے والے پہلے مذاکرات میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے دوسری کانفرنس میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بات چیت میں افغانستان کے واحد نمائندے ہوں گے۔ مذاکرات کے تیسرے راؤنڈ کے لیے ان کی یہ شرط پوری کر دی گئی۔

ذبیح اللہ مجاہد نے دوحہ اجلاس سے پہلے پریس کانفرنس میں اس عزم کا اعادہ کیا کہ طالبان حکومت تمام ممالک کے ساتھ مثبت تعلقات کی خواہاں ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ دوحہ میں "کوئی بنیادی یا اہم بات چیت نہیں ہوگی اور اس اجلاس میں مغربی ممالک کے ساتھ محض خیالات کا تبادلہ ہوگا۔ دراین اثناء، افغانستان کی طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پیج پر لکھا ہے کہ سعودی عرب افغانستان میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دوحہ اجلاس کے موقع پر تین نمائندوں نے سعودی عرب کے نمائندے سے ملاقات کی ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق سعودی عرب، کابل میں اپنا سفارت خانہ بحال کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان کی حکومت کے ساتھ خوشگوار تعاون کا خواہاں ہے اور کابل ریاض کو خاص نگاہ سے دیکھتا ہے۔واضح رہے کہ کابل میں سعودی عرب نے فروری دو ہزار تئیس میں اپنے سفارتکاروں کی سکیورٹی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سفارت خانہ بند کر دیا تھا۔ دوحہ مذاکرات کے ایجنڈے میں انسداد منشیات اور معاشی مسائل بھی شامل ہیں، جو تباہ حال افغان حکام کے لیے اہم موضوعات میں سے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1145146
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش