0
Wednesday 3 Jul 2024 13:44

امریکہ ہوشیار باش

امریکہ ہوشیار باش
تحریر: سید رضا میر طاہر

غزہ جنگ کے خلاف احتجاجاً مستعفی ہونے والے امریکی حکومت کے 12 عہدیداروں نے ایک بیان میں تاکید کی ہے کہ غزہ کے بارے میں امریکی صدر جوبائیڈن کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے اور غزہ کے بارے میں واشنگٹن کی پالیسی کی ناکامی امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے شدید خطرہ ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کا اسرائیل کی حمایت اور اس کو ہتھیار بھیجنا غزہ کے عوام کے قتل میں امریکہ کا شریک ہونا ہے۔ احتجاجاً مستعفی ہونے والے امریکی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ کے بارے میں غلط اور غیر دانشمندانہ پالیسیاں امریکا کے لیے خطرہ ہیں اور اس سے امریکی فوجیوں اور سفارت کاروں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ اس بیان کے تسلسل میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بائیڈن حکومت کی غزہ کے حوالے سے پالیسی دنیا کے سامنے امریکہ کی پوزیشن اور ساکھ کو کمزور کرتی ہے۔

آخر میں، انہوں نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ غزہ میں ہماری موجودہ پالیسی فلسطینیوں، اسرائیلیوں اور امریکی قومی سلامتی کو نقصان پہنچائے گی۔ احتجاجاً مستعفی ہونے والے امریکی عہدیداروں کا بیان صیہونی حکومت اور فلسطینیوں کے درمیان تنازعات کے حوالے سے امریکہ کی متعصبانہ اور تحفظ پسندانہ نوعیت کو ظاہر کرتا ہے۔ واشنگٹن نے غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کی جارحیت میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہزاروں راکٹ اور بم بھیج کر غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں باقاعدہ شرکت کی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے بھیجے گئے گائیڈڈ اور اینٹی پرسنل بموں کی تردید ناممکن ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے غزہ کے ہزاروں عام شہری خصوصاً بچے اور خواتین شہید ہوئے ہیں۔

امریکہ کو غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اس کے بے مثال جرائم کی وجہ سے  اسرائیل کا براہ راست ساتھی سمجھا جانا چاہیئے۔ امریکہ نے تل ابیب کی جامع سیاسی، سفارتی، نیز فوجی اور سکیورٹی حمایت کی ہے، یہاں تک کہ امریکہ کے اندر بھی اس حمایت کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ امریکہ کی وسیع سیاسی اور فوجی حمایت کی وجہ سے اسرائیل عالمی برادری کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے بلکہ اب تو وہ امریکی مطالبے کو بھی نظر انداز کر رہا ہے، جس میں امریکہ کی طرف سے غزہ جنگ میں جنگ بندی قائم کرنے اور حملہ نہ کرنے کی درخواست بھی شامل ہے۔

البتہ بائیڈن انتظامیہ اور اعلیٰ امریکی حکام تل ابیب کو غیر موثر وارننگ دیتے ہیں اور اسرائیل کو غزہ جنگ روکنے پر مجبور کرنے کے لیے سیاسی اور مالی دباؤ کا سہارا نہیں لیتے، حالانکہ صیہونی حکومت کے جرائم بالخصوص غزہ کے عوام کی نسل کشی، نیز بھوک کے ہتھیار کا استعمال اور اس علاقے میں قحط پیدا کرنا ناقابل تردید جرائم ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ بائیڈن حکومت اس کی مذمت کرنے سے روکتی ہے۔ بین الاقوامی اداروں میں اس حکومت اور ان تک پہنچنے والے جرائم کے خلاف بین الاقوامی عدالتی اداروں جیسے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت نے جب اسرائیل کے خلاف مقدمہ چلایا تو سب سے زیادہ امریکہ نے اس کی مخالفت کی ہے۔

جنوبی افریقہ نے نسل کشی کے خلاف جنیوا کنونشن (1948ء) کی خلاف ورزی کرنے پر اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں جب مقدمہ دائر کیا تو وائٹ ہاؤس نے کھل کر اس کارروائی کی مخالفت کا اعلان کیا۔درحقیقت غزہ کی جنگ بائیڈن کی اخلاقی اور خارجہ پالیسی کی ناکامی کی باقاعدہ علامت بن چکی ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز سے بائیڈن نے صیہونی حکومت اور اس کے لیڈروں کی مکمل حمایت کا اظہار کیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے سینکڑوں اسلحے کی کھیپیں بھیجیں، جس نے صہیونی فوج کو غزہ میں وحشیانہ جنگ جاری رکھنے کے قابل بنایا۔

بائیڈن نے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی متعدد قراردادوں کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی ویٹو کا بھی استعمال کیا اور یہاں تک کہ بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی قانونی حیثیت کو بھی نقصان پہنچایا۔ انگریزی اخبار "گارڈین" نے صیہونی حکومت کو امریکی حکومت کی جانب سے ہتھیاروں کی حمایت جاری رکھنے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: "بائیڈن اسرائیل اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی انتہاء پسند کابینہ کے تحفظ کے لیے قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کے چہرے کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔" ریاستہائے متحدہ کے صدر، نیتن یاہو پر اپنا دباؤ کھو چکے ہیں، جبکہ نیتن یاہو انہیں کمزور کرتے چلے جا رہے ہیں۔

بائیڈن جیسے اتحادی کی تعریف کرنے کے بجائے، جس نے تقریباً 9 ماہ تک اس حکومت کی غیر مشروط حمایت کا مظاہرہ کیا اور اکثر اپنے مفادات اور امریکہ کے وسیع تر مفادات کے خلاف بھی کام کیا، نیتن یاہو نے مسلسل بائیڈن کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنے سب سے اہم اتحادی کو نظر انداز کیا۔ گارڈین کے مطابق بائیڈن ہتھیار بھیجنے کے معاملے کو اسرائیلی کابینہ پر دباؤ ڈالنے اور نیتن یاہو کو جنگ بندی قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے سب سے موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں ناکام رہے۔دوسری جانب بائیڈن نے اپنی کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیتن یاہو کے سامنے اپنا اثر و رسوخ کھو دیا اور اب صیہونی حکومت کے وزیراعظم کھلے عام بائیڈن اور ان کی حکومت کا مذاق اڑاتے ہیں۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے خلاف بائیڈن حکومت کے متعصبانہ رویئے کو امریکی حکومتی اداروں میں بھی بڑے پیمانے پر ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی حکومت بالخصوص اس ملک کی وزارت خارجہ کے متعدد ملازمین نے غزہ جنگ اور بائیڈن حکومت کی طرف سے صیہونی حکومت کی حمایت پر احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سو ملازمین نے ایک میمو میں اس ملک کے صدر پر غزہ جنگ کے بارے میں گمراہ کن معلومات پھیلانے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ صیہونی حکومت نے غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

اس کے علاوہ، امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے 130 سے ​​زائد ملازمین نے اس ملک کی حکومت سے غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے کارروائی کرنے کو کہا۔ نومبر 2023ء میں، 30 سے ​​زائد امریکی ایجنسیوں اور وزارتوں کے 700 سے زائد ملازمین نے ملک کے صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کرنے کو کہا۔ اس کے علاوہ، ایک آزاد ورکنگ گروپ، جو کہ امریکی محکمہ خارجہ کے سابق اہلکاروں اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین پر مشتمل ہے، اس نے اپریل 2024ء کے وسط میں اعلان کیا کہ غزہ کے لوگ امریکی گولہ بارود سے شہید ہوئے، جس کے امریکہ کے لئے اچھے نتائج برامد نہیں ہونگے۔
خبر کا کوڈ : 1145532
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش