0
Wednesday 3 Jul 2024 01:12

ایک ناقابل فراموش ہولناک سانحہ

ایک ناقابل فراموش ہولناک سانحہ
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

آج تین جولائی ہے۔ تین جولائی انّیس سو اٹھّاسی کو ایک ایسا دلخراش سانحہ پیش آیا، جس کا ذکر کرتے ہوئے آج بھی آنکھیں نم اور دل افسردہ ہو جاتا ہے۔ تین جولائی انّیس سو اٹھّاسی کو خلیج فارس میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مسافر بردار طیارے کو امریکی بحری بیڑے ونسنس کی جانب سے میزائلوں کا نشانہ گیا۔ اس غیر انسانی اور وحشیانہ واقعے کو آج 36 سال کا عرصہ گذر چکا ہے۔ تین جولائی انیس سو اٹھاسی میں اسلامی جمہوریہ ایران کا مسافر بردار طیارہ جو دس بج کر پندرہ منٹ پر بندر عباس سے دبئی کے لئے روانہ ہوا تھا، دس بج کر چوبیس منٹ پر چار ہزار تین سو میٹر کی بلندی پر امریکہ کے یو ایس ایس ونسنس بحری بیڑے سے فائر کئے جانے والے دو میزائلوں کا نشانہ بنا اور جزیرہ ہنگام کے قریب گر کرتباہ ہوگیا۔ اس حادثے میں تمام  290 مسافر شہید ہوگئے، جن میں بارہ سال سے کم عمر کے چھیاسٹھ بچے اور باون خواتین بھی تھیں۔

اس ہولناک جرم کے فوراً بعد امریکی حکام نے اعلان کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایک ایف چودہ طیارے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکی حکام نے اپنے کھلے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایرانی ائیربس ائیرکوریڈور کے دائرے سے باہر پرواز کر رہا تھا اور امریکی بیڑے نے ایرانی طیارے کو سات بار انتباہ بھی دیا، لیکن کوئی جواب دریافت نہیں کیا۔ اس سلسلے میں سائیڈز بحری بیڑے کے سابق کمانڈر کیپیٹن کارلسن نے کہا تھا کہ ایرانی ائیربس غیر فوجی ہونے پر مبنی علامتیں بھیج رہا تھا اور کم رفتار سے اونچائی کی طرف پرواز کر رہا تھا اور اگر اس حالت میں اس کی شناخت ایف چودہ کی حیثیت سے کی بھی جاتی، تب بھی وہ ونسنس یا کسی بھی بحری بیڑے کے لئے معمولی خطرہ بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ طیارہ بردار بحری بیڑے کے ریڈار آپریٹر نے ایک تجارتی جہاز کی حیثیت سے اس کی شناخت کی تھی۔

اگرچہ اس مسافر بردار جہاز کو مار گرانے کے بعد امریکی حکام نے اپنے اس ناقابل معافی گناہ کی توجیہ کرتے ہوئے اس دشمنانہ اقدام کو ایک غلطی سے تعبیر کرنے کی کوشش کی، لیکن امریکی جنگی بیڑے وینسنس کے جدید ترین آلات اور ریڈار سسٹم سے لیس ہونے اور پرواز کے وقت طیارے کی نوعیت واضح ہونے سے یہ طے ہے کہ غلطی کا امکان موجود نہیں تھا اور یہ جارحیت پوری طرح سے جان بوجھ کر انجام دی گئی تھی۔ طیارے کے ٹوٹے ہوئے حصے اور مسافروں کی لاشیں جزیرہ ہنگام کے جنوبی ساحلوں پر ایرانی سمندری حدود کے اندر بکھرے پڑے تھے اور یہ جگہ بندر عباس دبئی ائیرکوریڈور کے مرکزی حصے کے نیچے واقع ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ طیارہ اپنے مقررہ راستے پر پرواز کررہا تھا، جیسا کہ اس واقعے کے چار سال بعد امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں لکھا کہ وینسنس بحری بیڑا ایرانی سمندری حدود میں تھا نہ کہ بین الاقوامی سمندری حدود میں اور اس وقت امریکی وزارت دفاع نے حقیقت کو چھپایا تھا۔

اسلامی انقلاب سے 4 دہائی گزرنے کے بعد بھی ایرانی عوام کے قتل و غارت اور قومی اثاثوں پر ڈاکے کے سوا ایران کو امریکہ سے کوئی فائدہ نہیں ملا۔ انہی سالوں میں امریکہ ایران میں مختلف شیطانی سازشوں جن میں فوجی بغاوت، نہتے عوام کے قتل میں ملوث رہا اور جیسا کہ بانی عظیم انقلاب حضرت امام خمینی (رح) نے فرمایا تھا کہ ایران اور امریکہ کے تعلقات بھیڑیئے اور بکرے جیسے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ ایران ہرگز امریکی سرزمین پر کسی امریکی شہری کے قتل میں ملوث نہیں تھا مگر امریکہ نے ایران سے ہزاروں کلومیٹر فاصلے پر ہونے کے باوجود اپنے مفادات کو بچانے کے لئے سینکڑوں ایرانی شہریوں کا خون کیا۔ اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ کو بھاری دھکچا، بالخصوص جب تہران میں اس کا جاسوسی کا اڈہ پکڑا گیا اور ایران میں اثر و رسوخ ڈالنے کے تمام ذرائع بند ہوگئے اور جب امریکہ نے یہ صورتحال دیکھی تو اس  نے صدام سے مل کر ایران پر 8 سالہ جنگ مسلط کر دی۔

جب امریکہ نے ایران کے سامنے صدام کی بے بسی کو دیکھا تو اس نے خود عراق میں صدام کا تختہ الٹ دیا، جس کے بعد خلیج فارس میں ایران کے خلاف بلواسطہ جنگ کا آغاز ہوا۔ بہرحال طیارے کو نشانہ بنانے کی اپنی ذمہ داری سے انکار کے لیے امریکی حکومت نے رائے عامہ کو گمراہ کیا اور اس واقعے کی ذمہ داری سے مکمل انکار کرنے کی کوشش کی۔ امریکہ کو اپنے دفاع کے حق کا سہارا لینے کے لیے مختلف منظرنامے تیار کیے گئے۔ مذکورہ بالا دعوے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے اعلیٰ فوجی کمانڈروں اور اعلیٰ سطحی سیاسی عہدیداروں کی طرف سے ایک کارروائی کی اصل نوعیت کو چھپانے کے لیے کیے گئے تھے، کیونکہ یہ بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کی واضح خلاف ورزی تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مذکورہ بالا دعوے باطل ثابت ہوگئے۔

درحقیقت ریگن حکومت نے ایران کو ڈرانے اور دانستہ کارروائی کرتے ہوئے ایرانی ایئربس طیارے کو مار گرایا اور اس طرح شہریوں کا قتل انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی تھی۔ بہرحال امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں میں سے ایک ہے، جو انسانی حقوق کے معاملات میں ایک تاریک ٹریک ریکارڈ کا حامل ہے۔ وہ اپنے ملک کے لوگوں اور عوام کی رائے کو جواب دینے سے بچنے کے لیے ہمیشہ دوسرے ممالک میں انسانی حقوق پر سوال اٹھاتا ہے۔ امریکی شہریوں کے حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی پر خاموش رہتا ہے، لیکن اس کی سالانہ رپورٹ ان ممالک کے انسانی حقوق کے لیے مخصوص ہوتی ہے، جن کے مفادات واشنگٹن کے ساتھ ٹکراتے ہیں۔

خود کو عالمی پولیس مین تصور کرنے والے امریکہ نے مختلف حیلوں بہانوں سے نہ صرف مختلف ممالک پر حملہ کرنے جیسے یکطرفہ اقدامات کیے ہیں بلکہ وہ خود کو دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لینے کا حقدار بھی سمجھتا ہے، جبکہ وہ خود انسانی حقوق کا کوئی خیال نہیں کرتا ہے۔ دوسرے ممالک کی انسانی حقوق کی پالیسیوں اور طریقہ کار کو جانچنا اور اس پر یکطرفہ الزامات عائد کرنا امریکہ کا وطیرہ ہے، لیکن یہ اقدام  آزاد ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور داخلی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ عالمی اقدار اور بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کی پرواہ کیے بغیر اپنے غیر ملکی مقاصد کے حصول کی کوشش کی ہے اور ان اہداف کے حصول کے لیے اس نے دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی وسیع اور صریح خلاف ورزیاں کی ہیں۔ امریکہ نے اپنی سرحدوں کے باہر بڑے پیمانے پر حملوں اور عام شہریوں کو قتل کرنے کے ساتھ انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں کی ہیں۔

ویتنام، عراق، افغانستان، شام اور یمن میں امریکی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو ظاہر کرتا ہے، ایک ایسا ملک جس کے پاس بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے دنیا کے آزاد ممالک کے خلاف خبریں بنانے کے زیادہ ہتھیار ہیں، اس نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے افغانستان اور عراق دونوں ممالک پر تجاوزات اور ابو غریب اور بگرام جیلوں میں انسانی حقوق  کی پامالی کی ہے۔ ان سانحات میں ہزاروں بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ ڈرون کے ذریعے نام نہاد انسداد دہشت گردی کے حملے شامل ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے باہر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دیگر واقعات میں گوانتانامو میں قیدیوں کو بغیر کسی الزام کے غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنا اور ان کے خلاف ہر قسم کے تشدد کا استعمال شامل ہے۔ اس بارے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سے احتجاج ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1145285
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش