0
Monday 1 Jul 2024 16:16

عرب لیگ کا صحیح ٹرن

عرب لیگ کا صحیح ٹرن
تحریر: سید رضی عمادی

آٹھ سال بعد عرب لیگ نے حزب اللہ لبنان کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ حزب اللہ لبنان مغربی ایشیائی خطے میں ایک اہم اور بااثر طاقت ہے، ایک ایسا مزاحمتی گروہ جو اس خطے میں طاقت کے توازن میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ اگرچہ ایک عرب شناخت رکھتی ہے، لیکن خطے کے بعض عرب ممالک حزب اللہ کے خلاف اپنی پالیسیوں کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال 2016ء میں تھی، جب عرب لیگ نے حزب اللہ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ 11 مارچ 2016ء کو عرب لیگ نے حزب اللہ کو ایک "دہشت گرد تنظیم" کے طور پر متعارف کرتے ہوئے اس سے مطالبہ کیا کہ وہ "انتہاء پسندی اور فرقہ واریت کو فروغ دینا بند کرے، دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے اور دہشت گردی و دہشت گردوں کی حمایت میں ملوث ہونے سے باز رہے۔

یہ درجہ بندی خلیج فارس تعاون کونسل کے ممالک کی جانب سے 2 مارچ 2016ء کو لبنانی حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فوراً بعد کی گئی تھی۔ عرب لیگ کی یہ کارروائی دو عوامل کی وجہ سے ہوئی۔ پہلا عنصر خلیج فارس تعاون کونسل کی طرف سے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم کے طور پر متعارف کروانے کا عمل اور دوسرا عنصر اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں تناؤ۔ بہرحال آٹھ سال بعد عرب لیگ نے لبنان کی حزب اللہ کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا۔ عرب لیگ کے معاون سیکرٹری جنرل حسام ذکی نے 29 جون کو اعلان کیا کہ عرب لیگ حزب اللہ کو "دہشت گرد تنظیم" کے طور پر نہیں دیکھتی۔ حسام ذکی کا یہ اعلان ان کے دورہ بیروت کے اختتام کے ایک دن بعد سامنے آیا۔

انہوں نے مصر کے القاعدہ نیوز چینل پر ایک ٹیلی ویژن بیان میں کہا ہے کہ اس سے قبل عرب ریاستوں کی لیگ کے فیصلوں میں حزب اللہ کا نام دہشت گرد تنظیم کے طور پر لیا جاتا تھا اور رکن ممالک کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا، لیکن اب ان ممالک نے حزب اللہ کے لیے دہشت گرد کا خطاب استعمال نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے اور اس تحریک کے ساتھ رابطے کا امکان فراہم کر دیا ہے۔ جمعہ کو لبنانی اخبار "الاخبار" نے اپنی تجزئیے میں لکھا ہے کہ ذکی نے بیروت کا دورہ کیا اور حزب اللہ سے وابستہ مزاحمتی وفاداری بلاک کے سربراہ محمد رعد سے ملاقات کی۔ عرب لیگ اور حزب اللہ کے درمیان ایک دہائی سے زائد عرصے میں یہ پہلا رابطہ ہے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ عرب لیگ کی طرف سے لبنان کی حزب اللہ کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے کا فیصلہ کئی عوامل کی وجہ سے ہے۔ پہلا عنصر بعض عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات مارچ 2023ء میں بحال ہوئے اور دونوں اطراف نے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ ایک اور عنصر صیہونی حکومت کے خلاف طوفان الاقصیٰ  آپریشن ہے۔ حزب اللہ لبنان نے فلسطین کے دفاع میں نمایاں کردار ادا کیا اور 8 اکتوبر کو صیہونی حکومت کے خلاف حملے شروع کر دیئے۔ بہت سے مبصرین کے مطابق عرب لیگ کا نیا فیصلہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد خطے میں سیاسی مساوات میں سنگین تبدیلی اور عرب اقوام کی رائے عامہ میں حزب اللہ کی مقبولیت میں اضافے کی وجہ سے ہے۔

لبنانی تحریک حزب اللہ  کی طرف سے غزہ کے عوام کی بھرپور حمایت نے اس تنظیم کی مقبولیت کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ حزب اللہ لبنان کے حوالے سے عرب لیگ کا یہ  فیصلہ جہاں خطے میں بحرانوں پر قابو پانے، کشیدگی اور افراتفری کو کم کرنے، عرب دنیا کو متحد ہونے اور خطے کے مسلم ممالک کو فلسطین کی طرف متوجہ کرنے کا باعث بنے گا، وہاں مزاحمتی بلاک کی طاقت و مقبولیت مین اضاقہ کا سبب بنے گا۔ اس فیصلے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ عرب لیگ کے حکمرانوں کو حزب اللہ کی اہمیت کا احساس ہوگیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1145147
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش