0
Friday 28 Jun 2024 23:43

نیتن یاہو کو درپیش نیا چیلنج

نیتن یاہو کو درپیش نیا چیلنج
تحریر: احسان پناہ بر
 
سی این این کے مطابق اسرائیل کی سپریم کورٹ نے منگل کے روز ایک حکم جاری کیا ہے جس کے تحت آرتھوڈوکس یہودیوں پر بھی فوج میں شمولیت لازمی قرار دی گئی ہے۔ یہ حکم صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر کاری ضرب ہے جو پہلے سے ہی متزلزل کابینہ ٹوٹ جانے کا باعث بن سکتا ہے۔ صیہونی رژیم کی سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں جنگی حالات کے مدنظر آرتھوڈوکس یہودیوں پر بھی فوج میں سروس لازمی قرار دے دی ہے۔ یاد رہے گذشتہ کئی عشروں سے آرتھوڈوکس یہودیوں کو فوج میں سروس سے استثنی حاصل رہا ہے۔ آرتھوڈوکس یہودیوں کی تعداد کل یہودیوں کا 13 فیصد ہے۔ آرتھوڈوکس یہودیوں کا دعوی ہے کہ ان کی دینی تعلیمات انہیں کسی قسم کی جنگ اور فوجی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتیں لہذا وہ اپنا تمام وقت دینی تعلیم کے حصول میں صرف کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے حالیہ حکم میں آرتھوڈوکس یہودیوں کے استثنی کو آئین کے خلاف قرار دیا ہے۔
 
بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں موجودہ حکومتی اتحاد میں دو آرتھوڈوکس سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ وہ اس بات کا مطالبہ کر رہی ہیں کہ آرتھوڈوکس یہودیوں کے استثنی کو برقرار رکھا جائے ورنہ وہ حکومتی اتحاد چھوڑ دیں گی۔ ایسی صورت میں حکومتی اتحاد ٹوٹ جائے گا اور بنجمن نیتن یاہو کا عہدہ بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئندہ کسی بھی الیکشن میں بنجمن نیتن یاہو کے جیتنے کا امکان بہت کم ہے۔ ابھی کچھ ہی ہفتے پہلے سابق وزیر جنگ اور نیتن یاہو کے اصلی حریف بنی گانتز نے استعفی دے دیا تھا جس کے بعد نیتن یاہو جنگی کابینہ توڑنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ بن گانتز نے بھی آرتھوڈوکس یہودیوں پر فوجی سروس لازمی قرار دینے کی حمایت کی تھی۔ بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں لیکوڈ پارٹی نے سپریم کورٹ کے اس حکم پر اعتراض کیا ہے اور پارلیمنٹ میں اس کے خلاف بل لانے کا اعلان کر دیا ہے۔
 
دوسری طرف نیتن یاہو کے مخالفین کا کہنا ہے کہ جنگ کی حالت میں ایسا بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں کرنا چاہئے۔ آرتھوڈوکس وزیر مائر پوروش نے بھی سپریم کورٹ کے حکم کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حکم اسرائیل میں پھوٹ پڑنے کا باعث بنے گا۔ دوسری طرف بیت المقدس میں سیاست ریسرچ فاونڈیشن کے محقق آہارون ایتان نے سپریم کورٹ کے حکم کی حمایت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ حکم اسرائیلیوں کے درمیان مساوات پر مبنی ہے۔ اس نے کہا کہ سپریم کورٹ اس کے علاوہ کوئی اور حکم جاری نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے کہا میرا عقیدہ ہے کہ تمام اسرائیلیوں کو جنگ میں شریک ہونا چاہئے۔ خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک طرف سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر مختلف قسم کے ردعمل سامنے آ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اسرائیل نے رفح پر حملے کا آغاز کر دیا ہے اور اس معرکے کیلئے 10 ہزار فوجیوں کو لائن حاضر کر دیا ہے۔
 
صیہونی فوج کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک کم از کم 666 اسرائیلی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 314 فوجی غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے بعد ہلاک ہوئے ہیں۔ صیہونی فوج کی ویب سائٹ پر جاری رپورٹ کے مطابق کم از کم 51 اسرائیلی فوجی مختلف حادثات میں مارے گئے ہیں۔ اسرائیل کے اندر بھی اور عالمی سطح پر بھی بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں غزہ جنگ کی نسبت شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ غزہ پر صیہونی جارحیت کے آغاز سے اب تک تقریباً 37 ہزار 600 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اب بھی حماس کے پاس اسرائیل کے 120 یرغمالی موجود ہیں اور اب تک جنگ بندی کیلئے انجام پانے والے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ حماس مستقل جنگ بندی کے ساتھ ساتھ غزہ سے صیہونی فوجیوں کا مکمل انخلاء اور محاصرے کا خاتمہ چاہتی ہے جبکہ نیتن یاہو کا دعوی ہے کہ مطلوبہ اہداف کے حصول تک جنگ جاری رکھے گا۔
 
حال ہی میں کچھ اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلخانہ نے نیتن یاہو سے فوری ملاقات کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ یرغمالیوں کے بارے میں واضح موقف اختیار کرے۔ نیتن یاہو نے اتوار کے دن کہا تھا کہ وہ کچھ یرغمالیوں کی آزادی کیلئے جزوی مفاہمت اختیار کرے گا اور غزہ میں حماس کے خاتمے کیلئے جنگ جاری رکھے گا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ عنقریب غزہ آپریشن ختم ہو جائے گا اور ہماری توجہ شمالی محاذ پر مرکوز ہو جائے گی۔ واشنگٹن نے نیتن یاہو کے اس بیان پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے فلسطینیوں پر اسرائیل کا فوجی کنٹرول جاری رہنے کی مخالفت کی ہے۔ میتھیو ملر نے پیر کے دن ایک پریس کانفرنس میں کہا: "ہمارے لئے یہ بیان اسرائیل کیلئے جنگ، عدم استحکام اور ناامنی جاری رہنے کا ایک ایجنڈہ ہے۔ واضح ہے کہ اسرائیلی کابینہ کا یہ لائحہ عمل غزہ کے فلسطینیوں کے نقصان میں ہے جو تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں۔"
 
امریکی وزیر دفاع نے بھی اسرائیلی وزیر جنگ یوآو گالانت سے ملاقات میں خطے میں عنقریب بڑی جنگ شروع ہونے کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ لوئڈ آسٹن نے یوآو کو خبردار کیا کہ یہ جنگ خطے کے دیگر کھلاڑیوں کی بھی معرکے میں شمولیت کا باعث بن سکتی ہے اور بہت آسانی سے علاقائی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ لوئڈ آسٹن نے اسرائیلی وزیر جنگ پر زور دیا کہ لبنان کی سرحد پر جاری جھڑپوں کے خاتمے کیلئے سفارتی راہ حل واشنگٹن کیلئے اہمیت رکھتا ہے۔ حال ہی میں مشرق وسطی میں امریکی صدر جو بائیڈن کے خصوصی ایلچی آموس ہاکسٹائن نے خطے کا دورہ کیا تھا لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ دورہ بھی ناکام ثابت ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1144458
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش