1
4
Thursday 27 Jun 2024 15:24

کہاں سے آئے یہ اثاثے؟

کہاں سے آئے یہ اثاثے؟
تحریر: نذر حافی

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک تحریر نظروں سے گزری۔ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ چلیں کوئی تو ہے، جو ان مسائل پر بات کر رہا ہے۔ بصد افسوس تحریر پر محرّر کا نام درج نہیں تھا۔ یہ ہمارا اجتماعی مزاج بھی بن گیا ہے کہ ہم کسی بھی اچھی تحریر سے اُس کے مصنّف کا نام حذف کرنے کو علمی خیانت کے بجائے اپنا اوّلین فریضہ سمجھتے ہیں۔ تحریر کا پہلا پیراگراف ہی اس کی اہمیت کو واضح کر رہا تھا۔ آپ بھی ملا حظہ فرمائیے: "بانی انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمیٰ حضرت امام خمینی نے جمکران میں ایک تین مرلے کا گھر ورثے میں چھوڑا، 36 سال سے مقام معظم رہبری کے منصب پر فائز حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا چھوٹا سا ذاتی مکان ہے، جہاں سے وہ فرائض منصبی ادا کرنے کے ساتھ انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے ہیں، صدر، چیف جسٹس و ملٹی بلین ادارے آستان قدس رضوی کے سربراہ جیسی اہم ذمہ داریوں پر فائز رہنے اور 45 برس انقلاب اسلامی کی خدمت کرنے والے شہید صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی نے ورثے میں پانچ مرلے کا مکان چھوڑا، سابق ایرانی صدور پنشن اور مزید ملازمت کرکے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔"

اس پیراگراف کے بعد چند سوالات اٹھائے گئے تھے، وہ بھی پیشِ خدمت ہیں: ایسے میں سوال ہے کہ پاکستان میں ملت جعفریہ کے چند رہنماؤں، مدارس کے مدیران، ٹرسٹ و ادارہ مالکان و تنظیمی افراد نے کروڑوں، اربوں کے اثاثے کیسے بنا لیے۔؟؟جنھوں نے پیدل و سائیکل پر سفر شروع کیا تھا، آج ان کے پاس کروڑوں کے اثاثے کہاں سے آئے۔؟ کیا انھیں یہ اثاثے وراثت میں ملے؟ کیا ان کا کوئی ذاتی کاروبار ہے؟ ذاتی کاروبار کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا۔؟ ان افراد کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ کیا ان کے وسائل ذرائع آمدن سے مطابقت رکھتے ہیں؟ کیا یہ اپنے وسائل سے مہنگی گاڑیوں، عالیشان مکانات میں پر آسائش زندگی بسر کرسکتے ہیں؟ کیا یہ ملی وسائل کی آمدن و خرچ کا حساب رکھتے ہیں اور باقاعدہ سالانہ آڈٹ کرواتے ہیں؟ انھوں نے اپنی اولادوں کو جو اثاثے منتقل کئے ہیں، کیا وہ اثاثے ان کے اپنے ہیں۔؟

میں نے چند مرتبہ یہ سوالات پڑھے، آپ بھی چند مرتبہ پڑھیں۔ پہلا سوال ہی  یہ بتا رہا ہے کہ لکھاری کی نظر میں چند رہنماء، مدارس کے مدیران، ٹرسٹ و ادارہ مالکان و تنظیمی افراد ایسے ہیں، جن کی وجہ سے یہ تحریر لکھی گئی ہے۔ اگلی سطور میں ایسے افراد کی دو نشانیاں بتائی گئی ہیں، "جنھوں نے پیدل و سائیکل پر سفر شروع کیا اور آج ان کے پاس کروڑوں کے اثاثے ہیں، انھوں نے اپنی اولادوں کو اثاثے منتقل کئے ہیں۔" اس سے کسی کو انکار نہیں کہ مصنف کے خدشات ہر منصف مزاج انسان کے نزدیک درست ہیں۔ البتہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اگر پاکستان میں ملت جعفریہ کے چند رہنماؤں، مدارس کے مدیران، ٹرسٹ و ادارہ مالکان و تنظیمی افراد نے ایسا کیا ہے تو انہیں اُن کے نام سے مخاطب کیا جانا چاہیئے۔ یقیناً ایسی تحریریں لکھنے والے احباب سیکولر فکر کے حامل نہیں ہیں اور نہ ہی اُن کا مقصد ملت جعفریہ میں سے سارے علمائے کرام اور لباسِ روحانیت کو حذف کرکے سیکولر بنیادوں پر دینی مدارس، فلاحی و رفاہی اداروں اور قومی تنظیموں کو چلانا ہے۔

آج کے اِس پرآشوب دور میں کہ جب اسلامی معاشرے پر ہر طرف سے طاغوت کی ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور الحادی یلغار جاری ہے، ایسے میں بابصیرت  علمائے کرام سے استفادہ اور معاشرے میں انہیں ان کا جائز مقام دینا یہ عقلی و شرعی لحاظ سے ضروری ہے۔ جب ہم حضرت امام خمینی ؒ اور شہید ابراہیم رئیسی ؒ کی مثالیں دیتے ہیں تو ہمیں اپنے دلوں اور معاشرے میں علمائے کرام کو بھی وہی مقام دینا ہوگا، جو ایران کے معاشرے میں علماء کو دیا جاتا ہے۔ ایران کے برعکس ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں علمائے کرام کو جب کہیں درس کیلئے بلایا جاتا ہے تو ٹیکسی والے کی قدروقیمت کو پہچانتے ہوئے اُسے تو کرایہ دے دیا جاتا ہے، لیکن وہ عالم ِدین جو درس دیتا ہے، اُسے پھوٹی کوڑی دینے کو بھی اسراف سمجھا جاتا ہے۔

 کتنے ہی ایسے علمائے کرام ہیں، جنہیں مختلف ورکشاپس اور پروگراموں میں دروس کیلئے جب بلایا جاتا ہے تو انہیں کرایہ تک نہیں دیا جاتا۔ یہ باوا اور ملنگ طبقے کی بات نہیں کر رہا بلکہ بڑے بڑے انقلابی و تنظیمی حضرات کا نوحہ ہے۔ پھر جب کہیں معاشرے میں انحراف نظر آتا ہے تو یہی انقلابی و تنظیمی حضرات سینہ کوبی کرتے ہیں کہ علماء کچھ نہیں کر رہے، علماء سستی کر رہے ہیں، علماء اپنا فریضہ ادا نہیں کر رہے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ آپ خود مختلف مجالس، ورکشاپس اور دروس کا سروے کرکے دیکھ لیں، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم علماء کو ایسی حالت میں رکھنا چاہتے ہیں کہ وہ مانگ مانگ کر کھاتے رہیں۔جب تک وہ ہمیں اپنے اخراجات کے پورا کرنے کیلئے عرضیاں بھیجتے رہیں تو وہ ہمیں مومن، متقی، روحانی، پارسا اور اچھے لگتے ہیں، لیکن اگر اُن کے گھر سے کھانا پکنے کی خوشبو باہر آجائے تو ہمیں اُن کی روحانیت خطرے میں محسوس ہونے لگتی ہے۔

ہم پاکستان میں جس ایران کی مثالیں دیتے ہیں، وہاں حقیقی معنوں میں علمائے کرام کی زندگیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ آج وہاں ایک عالم دین کو ہمارے ہاں کے بیوروکریٹس کے برابر زمانے کے مطابق سہولیات حاصل ہیں۔ یہ سہولیات کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ نسل در نسل معاشرتی ارتقاء کا ماحصل ہے۔ اگر ایران کی روحانیت، لبنان، یمن، شام، عراق اور غزہ میں بصیرت اور شجاعت کی تاریخ رقم کر رہی ہے تو اُس کی پُشت پر معاشرتی حمایت موجود ہے۔ وہاں ایک طالب علم ہونے کے ناطے حجۃ الاسلام شہید رئیسی اور ایک عام سے طالب علم کے معیارِ زندگی میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کا سکالرشپ علمی سطح کے مطابق ایک جیسا ہے، دونوں کو بیمہ کی سہولت، صحت کی بہترین سہولیات مفت، بچوں کی تعلیم کی سہولیات مفت، فرہنگی و تفریحی دورہ جات مفت، زیارات عتبات عالیہ مفت، گھروں کے کرائے میں ایک جیسی سہولیات، کوئی حادثہ ہو جائے، بیماری لگ جائے، گھر کا کوئی کفیل نہ ہو تو کسی طالب علم کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں۔

دوسری طرف یہ ہمارا معاشرہ ہے۔ جی ہاں یہ ہمارا معاشرہ، جہاں ہم نے صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود ساری زندگی میں شاید کسی ایک دینی طالب علم  کی بھی سرپرستی کرکے اُسے ایک علمی مقام تک نہ پہنچایا ہو، لیکن ہم   تمام دینی مدارس اور علمائے کرام کو کرپٹ کہنے کو اپنا قومی و ملّی فریضہ سمجھتے ہیں۔ کرپٹ کو کرپٹ کہنے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن یہ کہنا  اُس وقت مفید اور جائز ہے، جب ہم حقیقی معنوں میں، مشخصات کے ساتھ کرپٹ عناصر کے نام لے کر ثبوتوں کے ساتھ اُن پر تنقید کریں، اُن کو خطوط لکھیں، اُن کے خلاف عدالتوں میں جائیں، مقدمات کریں اور شواہد کے ساتھ سوشل میڈیا پر لوگوں اور  مخیّر حضرات کو اُن کے بارے میں آگاہی دیں۔

سارے علمائے کرام کو ایک جیسا اور کرپٹ کہنا، نیز اچھے علمائے کرام کو علمائے سُو اور درباری ملاوں کے برابر ٹھہرانا یہ اچھائی، انصاف اور تعلیمات قرآن و  اہلِ بیت ؑ کا قتل ہے۔ کیا چند افراد کی وجہ سے ہمیں سارے علمائے کرام پر خط تنسیخ کھینچ دینا چاہیئے؟ یقیناً کرپٹ افراد کو مشخص کرکے اُن سے سوال پوچھنا، اُن کے خلاف مقدمات قائم کرنا۔۔۔ اصلاح احوال کیلئے ضروری ہے، لیکن کھرے اور کھوٹے کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے سے اصلاح کے بجائے خرابی اور بگاڑ کا شاخسانہ ہے۔ ہماری ملت میں اچھے، بابصیرت اور متقی، تنظیمی افراد و علمائے کرام کی کمی نہیں، ہمیں سب کو غلط کہنے کے بجائے اپنے قابل اعتماد علمائے کرام اور شفاف طریقے سے چلنے والے اداروں کا لوگوں کو  تعارف بھی کرانا چاہیئے اور ڈونرز کو یہ شعور دینا چاہیئے کہ وہ اچھی طرح چھان بین کرکے ذمہ دار افراد کے ہاتھوں تک اپنے عطیات پہنچائیں۔

سوءِ ظن کے نقصانات سے ہم سب آگاہ ہیں، اگر ہم ڈونرز اور مخیّر حضرات کو مدد کرنے کیلئے درست سمت دکھانے کے بجائے، علمائے کرام، اپنی تنظیموں، اپنے اداروں اور اپنی تنظیمی شخصیات سے ہی بدظن کر دیں گے تو اس سے الہیٰ منصوبوں کو جو دھچکا لگے گا، کیا ہم خدا و رسولؐ اور اہلبیت ؑ کو اُس کا جواب دے سکیں گے؟ کیا اس طرح قومی منصوبوں کو جو نقصان پہنچے گا، اُس کی تلافی ہوسکے گی؟ کیا ضروری ہے کہ ہم مخلص علمائے کرام، برجستہ تنظیمی شخصیات نیز فلاحی و رفاہی خدمات انجام دینے والوں کی وفات کے بعد ہی اُن کی خدمات کے اعتراف میں کچھ بولیں یا لکھیں۔؟

راقم الحروف کے مطابق ان مسائل کا ایک ہی حل ہے کہ ہم جہاں شعور و آگاہی کیلئے ثبوتوں اور شواہد کے ساتھ کرپٹ عناصر کو مشخص کریں، وہیں مخلص تنظیمی شخصیات اور علمائے کرام کے اداروں کا تعارف بھی کرائیں۔ کرپشن سے جنگ کا سفر لمبا، طولانی اور تاریخی ہے۔ اس جنگ میں آج بھی فوجیں مدمقابل صف آراء ہیں۔ لوگ کھانا ایک طرف کھاتے ہیں اور نمازیں دوسری طرف پڑھتے ہیں۔ یہ سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ سب کو ایک جیسا کہنا سچائی اور حقانیت کا انکار ہے۔ خبردار! یہیں بصیرت کی ضرورت ہے، کہیں کھرا اور کھوٹا ایک نہ ہو جائے۔ اصلاح کا نعرہ بہت دلکش ہے، لیکن کہیں "كلمة حق يراد بها باطل" کی تکرار نہ ہو جائے۔ کہیں ان مشکوک باتوں اور تحریروں سے خوارج  کی طرح کوئی تیسرا گروہ نہ نکل آئے۔۔۔ اور۔۔۔ اس تیسرے گروہ کے بانی شعوری یا لاشعوری طور پر کہیں ہم خود ہی نہ ہوں۔ خبردار! تعمیر اور تخریب کے درمیان بہت باریک سی لکیر ہے، اُس لکیر کو ہمیشہ محفوظ رہنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 1144241
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
حافی صاحب اس حمام میں اکثر ننگے ہیں۔ آقا زادوں اور مولویوں کے اخراجات ان کی آمدنی سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتے۔ بعض کے سفری اخراجات سن کر آپکے کان سرخ ہو جائیں۔ اسلام ٹائمز اگر اجازت دے تو ثبوتوں کے ساتھ آرٹیکل لکھا جا سکتا ہے۔ نام کے ساتھ کارنامے بھی سامنے آجائہں گے۔ البتہ نیب بھی ایکٹو ہوسکتی ہے۔
ہماری پیشکش