1
Wednesday 26 Jun 2024 18:12

حزب اللہ کے خلاف بھرپور جنگ سے اسرائیل خوفزدہ کیوں؟

حزب اللہ کے خلاف بھرپور جنگ سے اسرائیل خوفزدہ کیوں؟
تحریر: فاطمہ محمدی
 
گذشتہ کچھ عرصے سے اسرائیل لبنان کے خلاف بھرپور جنگ شروع کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ یہ دھکمیاں کس مقصد کیلئے انجام پا رہی ہیں اور اسرائیل کس حد تک سنجیدہ ہے، یہ ایک علیحدہ موضوع ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل حزب اللہ لبنان کے خلاف بھرپور جنگ شروع ہونے سے شدید خوفزدہ ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1)۔ وہ ماضی کے تجربات ہیں جو اسرائیل حزب اللہ لبنان کے خلاف گذشتہ جنگوں میں حاصل کر چکا ہے۔ اسرائیل جانتا ہے کہ حزب اللہ لبنان انتہائی منظم تنظیم ہے اور مکمل منصوبہ بندی سے میدان جنگ میں حاضر ہوتی ہے۔
2)۔ غاصب صیہونی رژیم کے اندرونی ناگفتہ بہ حالات بھی لبنان کے خلاف اسرائیل کی کسی بھی بڑی مہم جوئی میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس وقت غاصب صیہونی رژیم حکومتی سطح پر بھی اور سماجی و معاشرتی سطح پر بھی شدید اندرونی اختلافات کا شکار ہے۔
 
3)۔ مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ پر وسیع جنگ کا آغاز غاصب صیہونی رژیم کیلئے مہلک ثابت ہو گا اور اس کے حق میں تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔ جیسا کہ حال ہی میں صیہونی رژیم کے سابق رکن جنگی کابینہ بنی گانتز نے استعفی دیتے وقت اعلان کیا تھا: حزب اللہ کے ساتھ وسیع جنگ کے نقصانات انتہائی شدید ہیں اور اسرائیل کو ایسی جنگ سے پرہیز کرنی چاہئے۔ اس بارے میں غاصب صیہونی رژیم کے انٹرنل سکیورٹی انسٹی چیوشن نامی تحقیقاتی ادارے کے ماہر اورنا مزراہی کہتا ہے: جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اور ٹکراو میں شدت آ رہی ہے، وسیع جنگ شروع ہونے کا امکان بڑھتا جا رہا ہے، ایسی جنگ جو اسرائیل کیلئے بہت طویل اور پیچیدہ ہو گی۔
4)۔ صیہونی فوج غزہ جنگ میں بری طرح تھک کر چور ہو چکی ہے اور آئے دن فوج سے بھاگ جانے والے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
 
ایسے حالات میں اگر صیہونی حکمران شمالی محاذ پر بھی ایک نئی طویل جنگ شروع کرنا چاہیں تو انہیں بہت بڑے پیمانے پر فوجی سازوسامان اور افرادی قوت درکار ہو گی جبکہ خود صیہونی حلقے اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ فی الحال صیہونی فوج کی تعمیر نو ممکن نہیں ہے کیونکہ ایک طرف امریکہ لبنان کے خلاف وسیع جنگ کی حمایت نہیں کر رہا جبکہ دوسری طرف امریکہ کی مدد کے بغیر فوج کو جدید ہتھیاروں اور افرادی قوت سے لیس نہیں کیا جا سکتا۔
5)۔ حزب اللہ لبنان نے گذشتہ تقریباً 9 ماہ کے دوران جب سے غزہ کی حمایت میں طوفان الاقصی معرکے میں شریک ہوئی ہے، ثابت کر دیا ہے کہ وہ کئی کلومیٹر دور سے غاصب صیہونی رژیم کی حساس فوجی تنصیبات کو گائیڈڈ ہتھیاروں سے نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
 
6)۔ غاصب صیہونی رژیم لبنان کے محاذ پر جن چیلنجز سے روبرو ہے وہ غزہ جنگ کی نسبت بہت بڑے اور زیادہ ہیں۔ صیہونی رژیم کا فوجی امور کا ماہر لیلاچ شوال اس بارے میں کہتا ہے: شمال کی جنگ غزہ جنگ سے ہر لحاظ سے مختلف ہو گی۔ سب جانتے ہیں کہ حزب اللہ سے جنگ ہر گز سادہ نہیں ہے اور اسرائیل کو اس جنگ میں بہت بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔
7)۔ شمالی محاذ پر وسیع جنگ سے اسرائیلی خوف کی ایک اور اہم وجہ حزب اللہ لبنان کی اعلی فوجی صلاحیتیں ہیں۔ صرف میزائل اور ڈرون طیاروں کے میدان میں حزب اللہ لبنان کی حالیہ صلاحیتوں کا موازنہ 2006ء سے بالکل نہیں کیا جا سکتا۔ مزید برآں، حزب اللہ لبنان اس وقت جدید ترین گائیڈڈ ہتھیاروں سے لیس ہو چکی ہے۔ حزب اللہ نے ابھی اپنے بہت سے ہتھیاروں کو متعارف بھی نہیں کروایا اور اسرائیل سے ممکنہ جنگ میں فیصلہ کن کردار وہی ہتھیار ادا کریں گے۔
 
8)۔ اگرچہ حزب اللہ لبنان نے اب تک اپنے تمام جدید ہتھیاروں کو متعارف نہیں کروایا اور اسی طرح مقبوضہ فلسطین پر وسیع تعداد میں میزائل اور ڈرون طیاروں سے حملہ بھی نہیں کیا، لیکن صیہونی فوج اس کے باوجود اب تک اپنا دفاع کرنے کیلئے بھاری اخراجات برداشت کر چکی ہے۔ دوسری طرف چند محاذوں پر جنگ نے صیہونی رژیم کے فضائی دفاعی نظام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
9)۔ جیسا کہ صیہونی حلقوں نے بھی اعتراف کیا ہے، حزب اللہ سے وسیع جنگ کے بارے میں اسرائیلی خوف کی ایک وجہ پورے اسرائیل کا بجلی کا نیٹ ورک تباہ ہو جانے کا امکان ہے۔ صیہونی رژیم میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنی کا سربراہ شائول گلوڈ اسٹائن اس بارے میں کہتا ہے کہ بجلی بند ہو جانے کے 72 گھنٹے بعد اسرائیل میں زندگی بسر کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
 
10)۔ اگرچہ فی الحال حزب اللہ لبنان اور غاصب صیہونی رژیم میں وسیع جنگ شروع ہونے کی حتمی خبر نہیں آئی لیکن لاکھوں یہودی آبادکار مقبوضہ فلسطین سے بھاگ نکلنے میں مصروف ہیں۔ تجزیہ کار اس بارے میں کہتے ہیں کہ اگر حزب اللہ اور اسرائیل میں وسیع جنگ شروع ہوتی ہے تو مقبوضہ فلسطین سے یہودی آبادکاروں کی بڑی تعداد اسرائیل چھوڑ کر چلی جائے گی۔ صیہونی حکام اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل کی سب سے بڑی کمزوری اس کی آبادی اور آبادی کا تناسب ہے۔
11)۔ ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی معیشت کو جو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا ہے وہ اس وحشت ناک نقصان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جو حزب اللہ لبنان سے وسیع جنگ کی صورت میں اسے برداشت کرنا پڑے گا۔ یہی بات مقبوضہ فلسطین میں معیشتی پراجیکٹس اور سرمایہ کاری کو بری طرح متاثر کرے گی جبکہ اقتصادی شعبے میں صیہونی رژیم کے بین الاقوامی اتحاد بھی مکمل طور پر نابود ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 1143974
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش