0
Friday 28 Jun 2024 11:17

قرضوں تلے کراہتا امریکہ بہادر

قرضوں تلے کراہتا امریکہ بہادر
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

ڈیلی میل اخبار نے لکھا ہے کہ دنیا میں امریکہ کی صدیوں پرانی بالادستی توقع سے زیادہ جلد ختم ہوسکتی ہے، کیونکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایشیائی ممالک امریکی بالا دستی کے عمل کو جلد ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔امریکی تاریخ دان نیل فرگوسن نے یہ بتاتے ہوئے کہ اس مہینے میں اس ملک میں قرضوں کے سود کی ادائیگی دفاعی اخراجات سے زیادہ ہوگئی ہے، "فرگوسن کے قانون" کے عنوان سے ایک مضمون میں خبردار کیا ہے کہ کوئی بھی سپر پاور جو دفاعی اخراجات سے زیادہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتی ہے، اسے طویل عرصے تک برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔

ہارورڈ یونیورسٹی کی تاریخ کے پروفیسر نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کو عالمی بالادستی میں اسی زوال کا سامنا ہے، جس کا اس سے قبل اسپین، فرانس اور انگلینڈ کو سامنا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں ملک کے جی ڈی پی کے مقابلے میں امریکی قرض 2001ء میں 32% کی اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گیا تھا، لیکن اگلے 10 سالوں میں اس کے 122 % کی بلند ترین سطح تک بڑھنے کی توقع ہے۔ کانگریس کے بجٹ آفس (سی بی او) نے اس ہفتے اندازہ لگایا ہے کہ صرف اس سال قومی قرضوں میں مزید 1.9 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کیا جائے گا، جو اسے 36 ٹریلین ڈالر تک لے جائے گا۔ یہ اعداد و شمار ایک سال کے دوران امریکہ کی طرف سے تیار کردہ اشیا اور خدمات کی کل مالیت کے برابر ہے۔

کانگریس کے بجٹ آفس کی رپورٹ کے مطابق طبی دیکھ بھال کی لاگت میں اضافہ اور گزشتہ 23 سالوں میں سب سے زیادہ بینک سود کی شرح ان عوامل میں شامل ہیں، جن کی وجہ سے اگلے 10 سالوں میں قومی قرضہ 56 ٹریلین ڈالر تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ فرگوسن نے خبردار کیا ہے کہ جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ کو تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس بات کی تصدیق وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں بھی ہوئی ہے اور اس اخبار نے لکھا ہے: قرضوں کے حوالے سے دونوں امریکی صدارتی حریفوں کی کارکردگی میں زیادہ فرق نہیں ہے، کیونکہ دونوں نے اپنے اپنے دور صدارت میں قومی قرضوں کے اعداد و شمار میں 7 ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے۔

فرگوسن فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 34 ٹریلین امریکی ڈالر کا قومی قرض اس ملک میں ہر مرد، عورت اور بچے کے لیے 101,233 ڈالر کے برابر ہے۔ گویا ہر امریکی ایک لاکھ ڈسلر سے زیادہ مقروض ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق، 1990ء کی دہائی کی خوشحال دہائی کے دوران اس کی جی ڈی پی کے ساتھ امریکی قرضوں کا تناسب کم ہوا اور 2001ء میں یہ 32 فیصد تک پہنچ گیا۔ لیکن اس کے بعد سے، یہ بڑھ کر 99 فیصد ہوگیا ہے، 2010ء کی دہائی کی عظیم کساد بازاری اور کوویڈ 19 وبائی امراض کے اثرات کی وجہ سے قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔

کانگریس کے بجٹ آفس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے "قرض جمع کرنے میں اضافے کا سب سے بڑا عنصر حال ہی میں منظور شدہ قانون الحاق ہے، جس نے متوقع خسارے میں 1.6 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کیا۔" اس قانون میں یوکرین، اسرائیلی حکومت اور ہند بحرالکاہل کے خطے کے ممالک کی مدد کے لیے $95 بلین مالیت کی ہنگامی ضمنی امدادیں ہیں۔ ڈیلی میل نے لکھا ہے کہ بین الاقوامی تجارت میں ڈالر خریدنے کی دنیا کی ضرورت نے امریکہ کو اس کے زیادہ قرضوں سے محفوظ رکھا ہے، لیکن اس بات کے بڑھتے ہوئے آثار ہیں کہ دنیا کی ریزرو کرنسی کے طور پر امریکہ کی حیثیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

ییل یونیورسٹی کے پروفیسر اور تاریخ دان پال کینیڈی نے خبردار کیا ہے کہ ایشیائی ممالک جیسے کہ چین کے پاس ٹریژری بانڈز کی شکل میں امریکی قرضوں کی بڑی مقدار موجود ہے۔ انہوں نے کہا: "اب چین کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ امریکی حالات کے لیے زلزلہ جیسا خطرہ پیدا کرسکتے ہیں اور اگر کسی وجہ سے وہ امریکہ کے ساتھ سیاسی تنازعہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو وہ بڑے پیمانے پر  ٹریزری بانڈ فروخت کرکے اس ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ 

1987ء میں اس امریکی یونیورسٹی کے پروفیسر کی کتاب "The Rise and Fall of Great Powers" نے امریکی سیاست دانوں کی توجہ بڑھتے ہوئے قرضوں کے خطرات کی طرف مبذول کرائی۔ اس توجہ کا نتیجہ 1990ء کی دہائی میں قرضوں کو جی ڈی پی کی سطح تک کم کرنے کا باعث بنا۔ ڈنمارک، سویڈن، فن لینڈ اور کینیڈا سمیت دیگر ممالک کے حکام کورونا وبا کے اثرات کے باوجود حالیہ برسوں میں اپنے قرضوں کے اخراجات کو کم کرنے میں کامیاب رہے ہیں، لیکن امریکہ قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ اس عالمی طاقت کا زوال ہے، جس کا سلسلہ ٹرمپ اور بائیڈن کے دور میں تیز تر ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1144386
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش