1
Monday 24 Jun 2024 20:06

بحیرہ احمر میں حوثی مجاہدین کے شو آف پاور پر امریکہ کی پسپائی

بحیرہ احمر میں حوثی مجاہدین کے شو آف پاور پر امریکہ کی پسپائی
تحریر: علی احمدی
 
2024ء کا سال اسلامی مزاحمت کی جانب سے بڑے سرپرائزز کا سال قرار دینا چاہئے کیونکہ صرف غزہ میں تاریخی طوفان الاقصی آپریشن کے صرف 9 ماہ بعد امریکہ اپنا اہم ترین اسٹریٹجک ہتھیار خطے میں لانے پر مجبور ہو گیا۔ لیکن کیوں یہ واقعہ جنگ کی علامتی اور نفسیاتی قدر کے پہلو سے اہمیت کا حامل ہے؟ اس رپورٹ میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ خطے میں اسلامی مزاحمتی فورسز کے مقابلے میں امریکہ کی دفاعی ہیبت ٹوٹ جانے کا سلسلہ جاری رہنے نے کیا نئے موازنے قائم کر دیے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ انتہائی قلیل فوجی وسائل سے برخوردار ایک فوجی طاقت نے امریکہ کی فوجی ٹیکنالوجی کے سب سے بڑے مظہر اور علامت کو شکست سے روبرو کر ڈالا ہے۔ یمن کے حوثی مجاہدین کی جانب سے امریکی نیوی کے ہاتھی یعنی یو ایس ایسی آئزن ہاور طیارہ بردار جہاز پر حملے کے چند گھنٹے بعد ہی پینٹاگون کے ایک عہدیدار نے اس حملے کی تکذیب کرنے کی کوشش کی۔
 
لیکن یمن کی مسلح افواج کے ترجمان نے پریس کانفرنس کے ذریعے اس حملے کی تفصیلات جاری کر دیں جس کے بعد پینٹاگون کے ماہرین نے کہانی تبدیل کرتے ہوئے اعلان کیا: "امریکی وزیر دفاع لوئڈ آسٹن کے حکم پر بحیرہ احمر میں اس طیارہ بردار جنگی جہاز کے مشن کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔" اس سے پہلے امریکہ کے ذرائع ابلاغ اور تھنک ٹینکس اعلان کر چکے تھے مغربی ممالک کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کی فوجی مدد کے باوجود اس کی متزلزل پوزیشن اب بھی واضح ہے اور امریکہ کے معروف طیارہ بردار جنگی جہاز کو خطے میں باقی رہنا چاہئے۔ لیکن یمن کے حوثی مجاہدین کی جانب سے یو ایس ایس آئزنہاور پر نئے حملے کے بعد امریکی وزیر دفاع لوئڈ آسٹن نے اعلان کیا کہ آئزنہاور جنگی جہاز کو پیچھے ہٹانا ضروری ہے اور ممکن ہے تھئوڈور روز ویلٹ بحری بیڑہ خطے کی جانب روانہ کر دیا جائے۔
 
آئزنہاور کی پسپائی کیوں اہم ہے؟
یو ایس ایس ڈوائٹ آئزنہاور (USS Dwight D. Eisenhower)، نیمیٹر کلاس گروپ کے ان 10 بڑے طیارہ بردار جنگی بحری جہازوں میں سے ایک ہے جو امریکہ کی بحری فوج کی طاقت کے بہترین بازو جانے جاتے ہیں۔ یہ طیارہ بردار جنگی جہاز ایک جوہری ری ایکٹر پر مشتمل ہے اور اس کی جانب سے اسٹریٹجک مشن انجام دینے کا عمل بہت ہی سکیورٹی پیچیدگیوں کے ہمراہ ہوتا ہے۔ یہ جنگی جہاز 18 اکتوبر 1977ء کے دن امریکی بحریہ میں شامل ہوا تھا اور ہمیشہ سے امریکہ کی سمندری طاقت کا اہم سرچشمہ قرار پایا ہے۔ یہ عظیم الجثہ جنگی جہاز، 333 میٹر لمبا، 114 ہزار ٹن وزنی اور طاقتور ترین ریڈار سسٹم سے لیس ہے۔ اس میں ایوی ایشن اور لینڈنگ کیلئے بھی ریڈار نصب ہیں اور چلتا پھرتا ایئرپورٹ ہے۔ آئزنہاور جنگی جہاز کا عملہ 5 ہزار 680 افراد پر مشتمل ہے جن میں نیوی فورس بھی شامل ہے۔
 
آئزنہاور طیارہ بردار جنگی جہاز نہ صرف سب میرینز کے حملوں کے مقابلے میں دفاعی نظام سے لیس ہے بلکہ اس میں امریکی بحریہ اور بری فوج کے پاس موجود فضا سے فضا میں مار کرنے والے Sea sparrow میزائل بھی نصب ہیں۔ اسی طرح اس جنگی جہاز میں سو سے زیادہ جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر موجود ہوتے ہیں جو ضرورت پڑنے پر فوراً فضا میں پرواز کر سکتے ہیں۔ حماس کی جانب سے طوفان الاقصی نامی تاریخی آپریشن پانے کے بعد، جو درحقیقت غاصب صیہونی رژیم کیلئے تاریخی اسٹریٹجک شکست سمجھا جاتا ہے، یو ایس ایس آئزنہاور جنگی جہاز خطے میں آیا تاکہ اسرائیل کیلئے انرجی کی ترسیل پرامن بنا سکے۔ لیکن خطے میں اس کے آنے کا اصل مقصد غاصب صیہونی رژیم کو تحفظ فراہم کرنا تھا اور وہ درحقیقت ایک موبائل ایئر بیس کا کردار ادا کر رہا تھا۔ جب بھی ضرورت محسوس ہوتی اس جنگی جہاز پر موجود جنگی طیارے پرواز کرتے اور مطلوبہ ٹھکانوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنا دیتے۔
 
یو ایس ایس آئزنہاور ایسے حالات میں بحیرہ احمر کو ترک کر رہا ہے جب امریکہ اس بات کی توقع نہیں کر رہا تھا کہ یمن کے حوثی مجاہدین کے حملوں کے باعث اسٹریٹجک بند گلی سے روبرو ہو جائے گا۔ آئزنہاور طیارہ بردار جنگی جہاز کی پسپائی کو فیصلہ کن موڑ میں تبدیل کر دینے کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک حزب اللہ لبنان کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم پر تابڑ توڑ حملے ہیں جن کے باعث نیتن یاہو کابینہ کی پریشانی عروج پر جا پہنچی ہے۔ لیکن ان شدید حالات میں آئزنہاور جنگی جہاز نہ صرف نیتن یاہو کے زیر اقتدار فوج کا تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہے بلکہ خطہ چھوڑ کر جا رہا ہے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حزب اللہ لبنان بھی انصاراللہ یمن کی طرح اس جنگی جہاز کو نشانہ بنانا شروع کر دے جس کے نتیجے میں جو بائیڈن کو درپیش حالات مزید مشکل اور پیچیدہ نہ ہو جائیں۔اس وقت طوفان الاقصی آپریشن نے نیتن یاہو اور جو بائیڈن پر جو شدید شکست مسلط کی ہے انہیں اس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔
 
بحیرہ احمر امریکہ کیلئے اہم کیوں ہے؟
بحیرہ احمر سمندری آمدورفت کا مرکز ہونے کے ناطے عالمی تجارت میں بہت اہم کردار کا حامل ہے۔ یہ اسٹریٹجک پوائنٹ، بحیرہ روم کو بحر ہند سے متصل کرتا ہے۔ کینال سوئز، جو بحیرہ احمر کو بحیرہ روم سے متصل کرتی ہے، تیل، دیگر اشیاء اور فوجی سازوسامان کی ٹرانسپوڑتیشن کیلئے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ امریکہ کیلئے بحیرہ احمر کی اہمیت کی ایک اور وجہ اس خطے کی جیوپولیٹیکل اہمیت ہے۔ امریکہ سعودی عرب، صیہونی رژیم اور مصر کی سکیورٹی یقینی بنانے کیلئے نیز یمن کے حوثی مجاہدین کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے اس خطے میں فوجی موجودگی چاہتا ہے۔ سینٹکام ہمیشہ سے دعوی کرتا آیا ہے کہ آئزنہاور جنگی جہاز کے بغیر بحیرہ احمر، خلیج عدن اور آبنائے باب المندب کی سکیورٹی فراہم کرنا ناممکن ہے۔ اب پوری دنیا کیلئے عیاں ہو گیا ہے کہ امریکہ حتی اپنے اڈوں کا تحفظ فراہم کرنے سے بھی عاجز ہو چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1143577
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش