0
Thursday 27 Jun 2024 10:40

غزہ، حملوں سے قبل اور بعد

غزہ، حملوں سے قبل اور بعد
تحریر: سید اسد عباس

7 اکتوبر 2023ء سے قبل اگرچہ غزہ پر حماس کی حکومت تھی، تاہم یہ ایسا کوئی خوشحال علاقہ نہ تھا، جہاں دودھ کی نہریں بہ رہی ہوں۔ غزہ کی پٹی جو فقط چند کلومیٹر چوڑی اور لمبی ہے، اس کو دنیا کی کھلی جیل کہا جاتا ہے۔ غزہ پٹی کی کل لمبائی اکتالیس کلومیٹر اور چوڑائی چھے سے بارہ کلومیٹر ہے، اس خطے کا کل رقبہ 365 مربع کلومیٹر ہے، جہاں ایک بڑی آبادی رہائش پذیر ہے۔ غزہ کو دنیا کے گنجان آباد علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کا زمینی اور سمندری راستوں میں محاصرے میں لیا ہوا ہے۔ 2010ء سے حماس اور اسرائیل کے مابین ہونے والی جھڑپوں کے باعث اسرائیل بہت کم مقدار میں ضروریات زندگی غزہ میں جانے کی اجازت دیتا تھا۔ غزہ کے بارے میں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس خطے کی آبادی 2 ملین ہے، جس میں سے پچاس فیصد نوجوان ہیں۔

جنگ سے قبل 38 فیصد اہل غزہ غربت کے تحت زندگی گزار رہے تھے۔ 26 فیصد کارکن جن میں 38 فیصد جوان ہیں، جنگ سے قبل بے روزگار تھے۔ 54 فیصد اہل غزہ جنگ سے قبل خوراک کی کمی کا شکار تھے اور 75 فیصد اہل غزہ عالمی اداروں کی امداد پر زندہ تھے۔ جنگ سے قبل غزہ کے 35 فیصد زرعی علاقے اور 85 فیصد ماہی گیری کے پانی اسرائیلی دسترس میں تھے۔ غزہ کا 90 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔ غزہ کے 85 فیصد سکول جنگ سے قبل ڈبل شفٹ پر چلتے تھے۔ ضروری جان بچانے والی ادویات میں سے ایک تہائی غزہ میں موجود نہ تھیں۔ 7 اکتوبر 2023ء کے حملے کے بعد غزہ کی صورتحال پہلے سے بہت زیادہ ابتر ہوچکی ہے۔

عالمی امدادی اداروں کے مطابق 75 فیصد اہل غزہ جن تک خوراک امدادی اداروں کے ذریعے سے پہنچتی تھی، اب یا تو بالکل نہیں پہنچ رہی یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ رپورٹس کے مطابق ایک خاندان کو اب ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں ہے۔ این آر سی کے مطابق اپریل 2024ء تک غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ قتل یا زخمی ہوچکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اپریل 2024ء تک مقتولین کی تعداد 33 ہزار کے قریب تھی، جن میں 13 ہزار بچے شامل ہیں۔ تقریبا 75000 فلسطینی زخمی ہیں۔ نارویجین رفیوجی کونسل کے اعداد و شمار کے مطابق اس اپریل 2024ء تک غزہ میں تقریبا 17 لاکھ افراد ہجرت پر مجبور ہیں، یعنی کل آبادی کا 75 فیصد حصہ مہاجر ہے۔

اپریل 2024ء تک ستر ہزار کے قریب رہائشی مکانات مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں جبکہ جزوی طور پر تباہ ہونے والے ناقابل رہائش مکانات اور رہائشی عمارات کی تعداد 3 لاکھ کے قریب ہے، جن کو ایک اندازے کے مطابق از سر نو تعمیر کرنے کے لیے تقریباً اسی برس کا عرصہ درکار ہوگا۔ 7 اکتوبر 2023ء سے قبل غزہ کے چالیس فیصد سکول انروا کے تحت چلتے تھے، جہاں ڈبل شفٹوں میں تعلیم دی جاتی تھی۔ یہ تمام سکول اس وقت مہاجر کیمپوں میں تبدیل ہوچکے ہیں اور تا دم تحریر غزہ کی پوری آبادی کے بچے سکول نہیں جا رہے۔ 10 لاکھ سے زیادہ طلبہ کو اس وقت نفسیاتی اور سماجی امداد کی ضرورت ہے۔ این آر سی کے اعداد و شمار کے مطابق گیارہ لاکھ اہل غزہ 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد خوراک کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ پچاس ہزار بچوں کو اس وقت خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔

اسرائیل سے غزہ آنے والی پانی کی تین پائپ لائینوں میں سے فقط ایک لائن ستر فیصد کیپسٹی پر کام کر رہی ہے۔ خطے میں بجلی کی بندش ہے، بیکریاں اور غذائی مواد تیار کرنے والے کارخانے فیول کی کمی کے باعث یا بمباری کے باعث بند ہوچکے ہیں۔ غزہ میں صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے، 35 ہسپتالوں میں سے فقط دس بہت کم استعداد کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ 5 لاکھ اسی ہزار افراد سانس کی شدید بیماریوں اور 3 لاکھ مریض پیٹ کی بیماریوں کے ہمراہ رجسٹر کیے جا چکے ہیں۔ انروا کے 33 فیصد سنٹر طبی سہولیات مہیا کر رہے ہیں۔ غیر محفوظ پانی پینے اور غیر معیاری نیز کم خوراک کے سبب اہل غزہ کی بڑی تعداد بیماریوں سے دوچار ہے، جو کسی بھی وقت وبائی صورت اختیار کرسکتی ہے۔

7 اکتوبر 2024ء سے قبل غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر 500 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوتے تھے، جبکہ 7 اکتوبر کے بعد سے اسرائیل نے فقط 28 امدادی کاروانوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی ہے۔ اہل غزہ دنیا سے مکمل طور پر کٹ چکے ہیں۔ غزہ کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔ اگر درج بالا صورتحال اور 7 اکتوبر کے حملوں سے قبل نیز بعد اہل غزہ کی تکالیف کا اندازہ لگایا جائے تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت بیس لاکھ سے کچھ زائد کی آبادی ایک جہنم میں رہ رہی ہے۔ روزانہ کے حملے، جنگ، تباہی، خوراک، پانی اور ادویات کی کمی، تعلیم، صحت کا مکمل طور پر خاتمہ ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اہل غزہ ایک ایسی امت کا حصہ ہیں، جس کی تعلیمات کے مطابق مسلمان ایک کنبہ ہیں۔ ایک کا درد پوری امت کا درد ہے۔ جس امت کے ہادی نے کہا تھا کہ اگر کوئی مسلمان صبح ایسی حالت میں کرے کہ امور مسلمین پر غور نہ کرے تو گویا وہ مسلمان ہی نہیں۔ جس دین کے ماننے والوں کو نہ فقط مسلمانوں کی بلکہ ہر مظلوم کی حمایت کا حکم دیا گیا تھا۔ وسائل اور مال دنیا سے بہرہ مند اس امت کے بہت سے ممالک اہل غزہ کی حالت پر مکمل طور پر خاموش ہیں۔ حملوں کی بعد کی صورتحال تو اپنی جگہ اہل غزہ تو 7 اکتوبر سے قبل بھی انروا کے رحم و کرم پر جی رہے تھے۔ وہاں پانی اور بجلی اسرائیل سے آتی تھی۔ غزہ کا نظام صحت، تعلیم سب غیروں کا مرہون منت تھا۔

مجھے حیرت ہے کہ مسلمانوں نے کیوں اہل غزہ کو غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑا، غیروں بلکہ دشمن کی مرہون منت زندگی کے ساتھ بھلا کوئی کیسے مقاومت و مزاحمت کرسکتا ہے۔ یہاں غالب مرحوم کا وہ شعر یاد آتا ہے:
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے کی ہماری فاقہ مستی ایک دن

میرے بعض احباب کو لگتا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں اپنے مقصد میں بری طرح ناکامی ہوئی ہے، یعنی وہ حماس کا خاتمہ نہیں کرسکا اور نہ ہی اپنے یرغمالیوں کو چھڑوا سکا ہے۔ ہم اس بات کو اسرائیل کی ناکامی کہ رہے ہیں، جس کا اعلان اس نے غزہ کے خلاف جارحیت کے لیے ایک بیانیہ کے طور پر کیا۔ غزہ کی مکمل تباہی، صحت، تعلیم اور روزمرہ کی زندگی کے امکانات کی عدم دستیابی، روزگار کا خاتمہ، بھوک، پیاس، ہجرت، دربدری اس کا حساب کتاب کون کرے گا۔ یہ کس کا فائدہ اور نقصان ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل کبھی بھی اس جارحیت کا ارتکاب یہ کہہ کر نہیں کرسکتا تھا کہ میں غزہ کو تباہ و برباد کر دوں گا، وہ یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں ان کی نسلوں کو برباد کروں گا اور پائی پائی کا مقروض کر دوں گا، وہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں ان کو پناہ گزین کیمپوں میں پہنچاؤں گا، وہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں ان کے سکول، ہسپتال بند کر دوں گا اور پینے کو ایک بوند نہیں دوں گا۔ وہ یہی کہہ سکتا تھا کہ میں حماس کا خاتمہ کروں گا۔ وہی یہی کہہ سکتا تھا کہ اپنے یرغمالی چھڑواؤں گا، مگر جو کچھ اس نے کیا ہے، وہی اس کا حقیقی ہدف تھا۔ یقیناً مقاومت قائم و دائم رہے گی۔ یہ نہیں تو اگلی نسل اسرائیل کے خلاف قیام کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 1144280
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش