0
Sunday 30 Jun 2024 13:06

غزہ کی مجبور مائیں

غزہ کی مجبور مائیں
تحریر: سید رضی عمادی

اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں صیہونی حکومت کی نسل کشی کا سب سے زیادہ شکار خواتین ہیں۔ غزہ میں قابض حکومت کی نسل کشی کو نو ماہ گزر چکے ہیں۔ غزہ کے عوام کے تمام طبقات اس جرم سے یقیناً متاثر ہوئے ہیں، لیکن بلا شبہ خواتین اور بچے اس جرم کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ خواتین اور بچوں پر اس کے مختلف طریقوں سے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہ تباہی ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کا اعتراف اقوام متحدہ نے بھی کیا ہے۔ غذائی عدم تحفظ غزہ کی خواتین کی صہیونی نسل کشی کے نتائج میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں غزہ میں خواتین کی تباہ کن صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں کم از کم پانچ لاکھ ستاون ہزار خواتین کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے، جس کے ان پر خوفناک نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔

اقوام متحدہ نے تاکید کی ہے کہ غزہ میں غذائی عدم تحفظ کی تباہ کن صورتحال میں بہت سی خواتین اپنا کھانا بچوں کو دینے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں غذائی عدم تحفظ اور شدید غذائی قلت پھیل رہی ہے اور غزہ کی پٹی میں سروے میں حصہ لینے والی 10 میں سے سات خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں گزشتہ ماہ کے دوران شدید وزن میں کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان میں سے نصف کو بھوک اور کمزوری کی وجہ سے چکر آتے ہیں۔ بچوں پر مسلط غذائی عدم تحفظ اور مردوں کی شہادت نے غزہ میں خواتین کو خاندان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھالنے پر مجبور کر دیا ہے۔ درحقیقت غزہ کی خواتین کو نہ صرف بھوک کے بحران کا سامنا ہے بلکہ انہیں اپنے بچوں کو زندہ رہنے کے لیے جو تھوڑی سی خوراک ملتی ہے، وہ بھی انہیں دینا پڑتی ہے اور دیگر ضروریات بھی خواتین کے ذمہ ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں شدید تنازعات کے دوران خواتین پر بہت زیادہ بوجھ پڑا ہے، ان کی ضرورت کے مطابق باقاعدہ خدمات تک ان کی رسائی بہت محدود ہے اور ان کی صحت اور خوراک کی حفاظت شدید خطرے میں ہے۔ غزہ کی پٹی میں لوگوں کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، غذائی عدم تحفظ نے غزہ کی خواتین پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ حاملہ خواتین کے لیے غذائی عدم تحفظ زیادہ مشکل اور شدید ہوتا ہے، کیونکہ اس سے ان کی صحت کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کی صحت کو بھی زیادہ سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں 76 فیصد حاملہ خواتین خون کی شدید کمی کا شکار ہیں اور ان میں سے 99 فیصد کو غذائی مصنوعات اور ضروری سپلیمنٹس تک رسائی میں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ماؤں اور بچوں کی صحت کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

دودھ پلانے والی مائیں اپنے بچوں کو کافی دودھ نہیں دے سکتیں، جو بچوں کی نشوونما اور صحت کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ دریں اثناء، اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی میں ایمبریوز کا سب سے بڑا زرخیزی کلینک تباہ کر دیا، جس میں مبینہ طور پر  3,000 ایمبریوز رکھے گئے تھے۔ مذکورہ واقعات کے علاوہ غزہ کی خواتین اپنے شوہروں اور بچوں کے کھو جانے کی وجہ سے شدید ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی دباؤ کا شکار رہی ہیں۔ اپنے پیاروں کو کھونے کے غم سے نہ صرف ان کے جسم بلکہ ان کی روح کو بھی بہت نقصان پہنچا ہے۔ اس کے باوجود اب تک صہیونیوں کے جرائم کو امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی جامع حمایت حاصل ہے، جس کی وجہ سے عالمی برادری ان جرائم کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1144911
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش