0
Sunday 30 Jun 2024 11:36

پاک افغان تعلقات دہشتگردی اور اقتصادی مواقع

پاک افغان تعلقات دہشتگردی اور اقتصادی مواقع
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

آج کی دنیا تعلقات اور نئے اتحادوں کی دنیا ہے۔ مشرق و مغرب میں نظریاتی کی بجائے دفاعی اور اقتصادی اتحاد بن رہے ہیں۔ وہ ممالک جو مالی طور پر مستحکم ہوں گے، وہی دنیا پر حکمرانی کریں گے۔ ویسے بھی فقیر کی اپنے گھر میں کوئی نہیں سنتا، دنیا میں خاک عزت ہوگی۔ قطر جیسا چھوٹا ملک آج دنیا میں سفارتکاری کا مرکز فقط اس لیے بنا ہوا ہے کہ اس کا پیٹ بھرا ہوا ہے اور فی کس آمدنی بہت زیادہ ہے۔ جب پیٹ بھرا ہو تو عقل بھی کام کرتی ہے۔پاکستان کے لیے پاک چین اقتصادی راہداری لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کا پہلا مرحلہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور اب دوسرا مرحلہ شروع ہونا ہے۔ دوسرے مرحلے کے شروع ہونے سے پہلے چین کچھ  ضمانتیں چاہتا ہے۔ ان میں سرفہرست مسئلہ سکیورٹی کا ہے۔

پاکستان چین راہداری کو کئی خطرات ہیں، انڈیا اسے کسی صورت میں کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا، اس کی وجہ سے پاکستان میں معاشی استحکام آئے گا، جو اسے کسی صورت میں گوارا نہیں ہے۔ دبئی کی بندرگارہ اور گوادر کی بھی شدید کاروباری مسابقت ہوگی، اس لیے دبئی گوادر کو اپنے لیے ایک معاشی خطرے کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ دبئی میں گوادر کے مقابلے مختصر ساحلی پٹی، محدود اور مہنگی زمینیں، تقریباً تمام افرادی قوت کی درآمد سمیت کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس کے مقابل گوادر میں وسیع و عریض زمیں اور لمبی ساحلی پٹی ہے۔ افرادی قوت کی کمی نہیں ہے اور زمینیں بھی سستی ہیں۔ صرف امن کی کمی ہے، جیسے ہی امن ہوگا تو گوادر بوسٹ کر جائے گا۔

داسو اور دیگر کئی مقامات پر سی پیک اور اس سے متعلقہ پروجیکٹس پر کام کرنے والے انجئنرز پر حملے ہوچکے ہیں۔ ان میں چین کا کافی جانی نقصان ہوا ہے۔ چین پہلے سفارتی سطح پر اور اب پاک چینی سیاسی قیادت کی مشترکہ میٹنگ میں چین کی کیمونسٹ پارٹی کے اہم رہنماء نے کہا کہ پاکستان کو سکیورٹی کے مسائل حل کرنا ہوں گے اور یہ سی پیک کے اگلے مرحلے کے لیے اہم ہے۔ اس سے پہلے یہ خبریں آئی تھیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ چین کے دوران بھی ان مسائل پر غور و فکر کیا گیا اور یہ دورہ اتنا کامیاب نہیں رہا، جنتا توقع کی جا رہی تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ سکیورٹی کا ہی رہا۔

پاکستان نے چائنیز انجئنرز کی بس پر حملے کی تحقیقات میں چائنہ کو براہ راست شریک کیا۔ کہا جا رہا ہے کہ ان تحقیقات میں افغانستان میں موجود دہشتگردوں کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ اب اس معاملے پر چائنہ اور پاکستان ایک پیج پر ہیں کہ دہشتگرد افغانستان کی سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان صاحب نے کے پی کے بالخصوص ڈیرہ اسماعیل خان میں طالبان کی کارروائیوں کی انتہائی خطرناک صورتحال بتائی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں رات کے وقت تھانے بند ہو جاتے ہیں اور سڑکوں پر طالبان کا راج ہوتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بیان نہیں ہے، جسے ایسے ہی چھوڑ دیا جائے۔

اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جس طرح سوات میں طالبان نے آہستہ آہستہ مکمل قدم جما لیے تھے، وہی صورتحال ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ہونے جا رہی ہے۔یہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔ اس کے ساتھ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے اور اکھاڑنے کے حوالے سے مولانا نے جو کچھ کہا، وہ بھی قابل توجہ ہے۔ اگر اب باڑ اکھاڑی گئی ہے تو چند سال پہلے باڑ لگانے پر کئی پاکستانی فوجی شہید کرانے کی کیا ضرورت تھی؟ اب باڑ اکھاڑ کر کون سی سکیورٹی میں بہتر لائی جا رہی ہے؟ ہر عقل رکھنے والا یہ جانتا ہے کہ جب تک بارڈر مکمل بند نہیں ہوگا اور آمد و رفت باقاعدہ پاسپورٹ پر نہیں ہوگی، تب تک سکیورٹی تھریٹ رہے گا، جب تک سیکورٹی تھریٹ رہے گا، اس وقت تک اقتصادی ترقی خواب رہے گا۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے بیان دیا ہے کہ افغانستان کے اندر کارروائیاں جاری رہیں گے۔ اس پر طالبان کے ترجمان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ خواجہ صاحب کے بیان سے تو یہ لگتا ہے کہ پاکستان افغانستان کے اندر مسلسل کارروائیاں کر رہا ہے اور افغان طالبان کی ڈبل گیم کو ٹف ٹائم دے رہا ہے۔ افغانستان کے اندر کی خبریں ہیں کہ چائنہ اور پاکستان کے دباو کی وجہ سے پاکستانی طالبان کو پاکستانی بارڈر سے متصل صوبوں سے دیگر صوبوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔اس پر افغان طالبان کے اندر شدید اختلافات ہیں۔ ایک انتہاء پسند گروہ ہر صورت میں پاکستانی طالبان کو افغان بارڈر پر رکھ کر پاکستان کے عدم استحکام کے لیے استعمال کرنے کا حامی ہے۔

دوسرا گروہ جو سفارتی نزاکتوں اور بین الاقوامی معاملات کو سمجھتا ہے، وہ فی الحال انہیں بارڈر سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستانی فوج بارڈر کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ان پر آسانی سے حملہ کر لیتی ہے، اس لیے پاکستانی طالبان کو بارڈر سے دور نسبتاً محفوظ پناہ گاہوں میں رکھنے کا اہتمام ہو رہا ہو۔ ایک اور اہم پیش رفت روسی اقتصادی راہ داری ہے۔ اسے افغان طالبان بہت ہی اہم سمجھتے ہیں اور پاکستان تمام امریکی اور یورپی دباو کے باوجود اس میں باقاعدہ شامل ہونے کی درخواست کرچکا ہے۔ خطے کے حالات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ افغان طالبان عوام کو  کچھ ڈیلیور کرنا چاہتے ہیں اور بڑی تیز رفتاری سے مواقع کی تلاش میں ہیں۔

ان کے لیے یورپ اور امریکہ کا آپشن نہیں ہے، اس لیے چین اور روس ہی رہ جاتے ہیں۔ اگر پاکستان، چین اور روس کے ساتھ مل کر افغان طالبان کی اس کمزوری کو علاقے میں امن کے لیے استعمال کرے تو بہت اچھے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اگر افغان طالبان پاکستان مخالف دہشتگردوں کو وہاں سے پاکستان پر حملہ کرنے سے روکتے دیتے ہیں۔ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیتے تو پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے مشترکہ اقتصادی مواقع پیدا ہوں گے۔ سی پیک کو بی ایل اے جیسی تنظیموں کی دہشت گردی سے بھی تحفظ مل جائے گا۔ یوں پورا خطہ مغربی استعمار کی بچھائی بارودی سرنگوں سے جلد نکل جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 1144797
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش