0
Friday 28 Jun 2024 13:00

طالبان اور ڈرگ مافیا

طالبان اور ڈرگ مافیا
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

افغانستان میں پوست کی کاشت بدستور ایک متنازعہ مسئلہ ہے اور اس پر مکمل پابندی ایک ناممکن امر نظر آرہا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ طالبان گزشتہ تین سالوں سے افغانستان میں برسراقتدار ہیں، اب بھی ایسا لگتا ہے کہ پوست کی کاشت کے خلاف جنگ، طالبان حکومت کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔ 2021ء میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے، طالبان نے افغانستان میں پوست کی کاشت اور منشیات کی پیداوار کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ امارت اسلامیہ کی حکومت نے پوست کے پودے کی کاشت پر 2022ء میں پابندی لگا دی، کیونکہ اس سے افیون اور ہیروئن تیار کی جاتی ہے، لیکن  اب بھی ایسا لگتا ہے کہ افغان کسان دوبارہ پوست کی فصل لگانے میں مصروف ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل افغانستان دنیا میں افیون کا سب سے بڑا برآمد کنندہ تھا اور اگر افغان کسان پوست کی کاشت کی طرف واپس لوٹ آئے تو افغانستان ایک بار پھر دنیا میں منشیات پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔

پوست کی کاشت کی جغرافیائی تقسیم
طالبان حکومت کے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پوست کی کاشت پر پابندی کے باوجود اس سال افغانستان کے 34 میں سے 28 صوبوں میں لوگوں نے پوست کی کاشت کی ہے۔ افغانستان کے مشرق میں ننگرہار، لغمان، کنڑ اور نورستان ان صوبوں کی فہرست میں شامل ہیں، جہاں لوگوں نے اس سال پوست کی کاشت کی ہے، حالانکہ طالبان حکومت نے ان صوبوں میں کھیتوں کو تباہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان کے مغرب میں ہرات، فراہ، بادغیس اور غور بھی پوست کی کاشت کے زیر اثر صوبوں میں شامل ہیں۔ وسطی علاقوں میں غزنی، بامیان اور دائی کنڈی بھی ان صوبوں کی فہرست میں شامل ہیں، جہاں گزشتہ ماہ پوست کی کاشت بھی ہوئی اور طالبان نے فصل کو تباہ کیا۔

طالبان حکومت کے انسداد منشیات کے محکمے نے بھی دارالحکومت کابل کے قریب پروان، کاپیسا اور پنجشیر میں پوست کے کھیتوں کو تباہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن افغانستان کے جنوب مشرق میں، خوست واحد صوبہ ہے، جہاں پوست کی کاشت اور کھیتوں کی تباہی کی اطلاع ملی ہے۔ دارالحکومت کابل میں صرف سروبی ضلع اس فہرست میں شامل ہے، جہاں محکمہ انسداد منشیات کے اعداد و شمار کے مطابق 66 ہزار مربع میٹر سے زائد پوست کے کھیتوں کو تلف کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی) نے اس سے قبل اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ طالبان حکومت کے زیر کنٹرول افغانستان میں پوست کی کاشت میں 95 فیصد کمی آئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق  پورے افغانستان میں پوست کی کاشت کا رقبہ دس ہزار آٹھ سو ہیکٹر تک ہے، جبکہ گزشتہ سال یہ رقبہ 232 ہزار ہیکٹر سے زیادہ تھا۔

پوست کی کاشت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
ایسا لگتا ہے کہ افغان کسانوں کی طرف سے پوست کی کاشت کے لیے نئے سرے سے آمادگی کی ایک وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔

بڑھتا ہوا درجہ حرارت: 
افغانستان میں گزشتہ نصف صدی کے دوران اوسط سالانہ درجہ حرارت میں 3.2 ڈگری فارن ہائیٹ کا اضافہ ہوا ہے، عالمی اوسط سے دوگنا، یہ تبدیلی جنوبی افغانستان میں 4.3 ڈگری فارن ہائیٹ تک بڑھ گئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر درجہ حرارت میں یہ اضافہ افغانستان کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ افغان حکام نے رائٹرز سے گفتگو میں درجہ حرارت میں اس سالانہ اضافے کی تصدیق کی ہے۔

شور زدہ زمین:
افغانستان میں درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ، جو کہ عالمی اوسط سے بھی کئی گنا زیادہ ہے، اس ملک کی مٹی کا معیار بھی بہت گرا ہے۔ رپورٹس کے مطابق زمین میں شور اور تیزابیت میں اضافے کی نشاندہی ہوئی ہے اور اس صورت حال میں زمین گندم اور کپاس جیسی فصلوں کے ساتھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتی۔

پانی کی سطح میں کمی:
پچھلے کچھ سالوں کے دوران، ہرمند دریا کے طاس یا واٹر ٹیبل میں زیر زمین پانی کی سطح 2003ء اور 2021ء کے درمیان تقریباً 8.5 فٹ کم ہوئی ہے۔ آب و ہوا کے بہت سے ماڈلز آنے والی دہائیوں میں افغانستان کے لیے موسمی حالات خراب ہونے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ اس صورت میں آبی وسائل میں کمی کے ساتھ پوست لگانے کی خواہش بھی بڑھے گی، کیونکہ پوست کے پودے کو دیگر زرعی فصلوں کے مقابلے میں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

پودے لگانے کے انداز میں تبدیلی:
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، قندھار میں ایک تجرباتی فارم میں، سابق امریکی حمایت یافتہ حکومت نے گرمی کے خلاف انار کے درختوں کو گہرائی میں لگانا شروع کیا۔ اس وقت افغانستان میں انار کی تقریباً 80 اقسام کاشت کی جاتی ہیں۔ لیکن کاشتکاروں کے مطابق انار کے اس قسم کے درختوں کی مناسب اور کفایت شعاری کے لیے کی جانے والی کوششیں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہیں اور نہ ہی ان کی پیداوار سستی اور لاگت ہے۔ قندھار کے مقامی آبپاشی اہلکار نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ گزشتہ برسوں میں خشک سالی کی وجہ سے آڑو کے درخت اندر سے سوکھ گئے اور کسان انہیں کاٹنے پر مجبور ہوگئے اور دھوپ کی وجہ سے انگور کی بیلیں بھی کمزور ہوگئیں۔ ایک 55 سالہ کسان حاجی وزیر نے رائٹرز کو بتایا: "جب میں پوست کاشت کرتا تھا تو ان کا منافع دیگر زرعی فصلوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ تھا اور انہیں اگانا بہت آسان تھا، لیکن اب کوئی منافع نہیں ہے۔"

غربت سے نجات
پوست کی کاشت پر پابندی سے لاکھوں لوگوں کا ذریعہ معاش منقطع ہوگیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سابقہ ادوار کے دوران تقریباً 20 لاکھ افراد افیون کی کاشت اور پیداوار میں مصروف تھے۔ فی الحال، دیگر شعبوں میں ان لوگوں کے روزگار کے کوئی مثبت امکانات نہیں ہیں۔ افغانستان کی زراعت روایتی ہے اور اتنی بڑی تعداد کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ دوسری طرف صنعتی طور پر، اس ملک میں بے روزگار لوگوں کے لیے مواقع پیدا کرنے کے لیے ضروری ڈھانچے کا فقدان ہے۔ اس لیے افغانستان میں بے روزگاری اور غربت میں اضافے نے پوست دوبارہ اگانے کی خواہش کی ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے۔ صوبہ قندھار میں محکمہ زراعت کے اعلیٰ عہدیداروں میں سے ایک "شمس الرحمان موسیٰ" نے بھی طالبان حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر کسان اپنے اخراجات پورے نہیں کرسکتے تو وہ پوست کی کاشت کا رخ کریں گے۔ زرعی آمدنی میں کمی خاص طور پر جنوبی افغانستان میں واضح ہے اور افغانستان کے جنوبی علاقوں میں بنیادی طور پر وہ علاقے شامل ہیں، جہاں پابندی سے قبل تقریباً دو تہائی افغان پوست کاشت کی جاتی تھی۔
خبر کا کوڈ : 1144383
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش