0
Thursday 4 Jul 2024 18:32

ایرانی سفارتخانہ اسلام آباد میں شھید ابراہیم ریئسی اور انکے رفقاء کے چہلم کی تقریب

ایرانی سفارتخانہ اسلام آباد میں شھید ابراہیم ریئسی اور انکے رفقاء کے چہلم کی تقریب
رپورٹ: شبیر احمد شگری

اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی، شہید وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور دیگر شہداء کے چہلم کے موقع پر اسلام آباد میں موجود سفارتخانے میں تعزیتی تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب میں سفیر ایران رضا امیری مقدم، آغا نواب، لیاقت بلوچ، عبداللہ حمید گل، ناصر شیرازی، پروفیسر سلیم مظہر، اعجازالحق، مولانا انتصار حیدر جعفری، زمرد خان، صفدر گیلانی، سید ساجد نقوی اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ حجۃ الاسلام والمسلمین حاجی آغا نواب یونیورسٹی آف ادیان ایران کے سربراہ نے سفیر محترم ایران امیری مقدم کا اس پروگرام کے انعقاد پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی گورنمنٹ اور عوام کی اس عظیم سانحے کے موقع پر دلی تعزیت کرنے پر ہم ان کی قدر کرتے ہیں۔

تحریک جوانان پاکستان کے صدر عبداللہ حمید گل کا کہنا تھا یہ شہداء صرف ایران کے نہیں ہیں، بلکہ عالم اسلام کے شہداء ہیں۔ شہید ایرانی صدر نے اس وقت کشمیر کے بارے میں بات کی، جب دنیا میں کشمیر کے بارے میں کوئی ایک لفظ نہیں بول رہا تھا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فلسطین ہو یا کشمیر، ہم نے ڈٹ کر ساتھ کھڑے ہونا ہے۔ جنرل سیکرٹری مجلس وحدت مسلمین ناصر عباس شیرازی کا کہنا تھا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق ایسا ہونا چاہیئے کہ زندہ رہو تو لوگ تم سے ملنے کی تمنا کریں اور دنیا سے چلے جاو تو لوگ تم پر روئیں۔ پاکستان کے اندر کسی اور صدر کیلئے اس سوگ کی کیفیت نہیں دیکھی گئی اور عالم اسلام کی جانب سے بھی یہ کیفیت کبھی اور نہیں دیکھی گئی۔

لیاقت بلوچ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان کا کہنا تھا کہ شہید صدر اور وزیر خارجہ سے گفتگو کا موقع ملا۔ دونوں شہیدوں نے تیں چیزوں پر کام کیا، جو ایک مدت سے عالم اسلام کی خواہش تھی کہ ایران اور سعودی عرب تعلقات بحال ہو جائیں۔پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کیلئے حربہ استعمال کیا جاتا ہے، بارڈر کے معاملات پر دونوں ممالک کے تعلقات سفارتکاری کا اہم اقدام ہیں، جس سے بہتری آئی۔ اسرائیل پر حملے کے بعد ایرانی صدر کا فوری طور پر پاکستان آنا بہت اہم تھا۔ پروفیسر سلیم مظہر ڈائریکٹر جنرل فروغ قومی زبان نے کہا کہ میں شہداء کی شہادت پر تہہ دل سے تسلیت پیش کرتا ہوں۔ شہید صدر کی خواہش تھی کہ دونوں ممالک پاکستان اور ایران بہترین تعلقات میں رہیں۔ کوشش کریں کہ ان کی اس خواہش کو پورا کریں۔ سب کو چاہیئے کہ بزرگان اور حضرت اقبال (رح) کی شاعری پر توجہ کریں۔

اعجازالحق صدر پاکستان مسلم لیگ ضیاء الحق نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب ایرانی صدر رئیسی ہیلی کاپٹر حادثے میں شہید ہوئے تو چونکہ میرے والد بھی جہاز حادثے میں ہلاک ہوئے تھے، مجھے واقعہ اسی جیسا واقعہ لگا۔ ان دونوں لیڈروں کو راستے سے ہٹانے کا ایک ہی مقصد تھا۔ جب دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہو رہے تھے، ایرانی صدر کے دورے کے بعد تعلقات میں بہت بہتری آئی۔ جامعہ کوثر اسلام آباد کے استاد مولانا انتصار حیدر جعفری کہتے ہیں کہ جناب ابراہیم رئیسی نے اپنی زندگی میں جس چیز پر فخر کیا، وہ امام رضا علیہ السلام کا خادم ہونا تھا۔ وہ دامن اہلبیت سے متمسک تھے۔ قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کے موقع پر صدر رئیسی نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں قرآن کو ہاتھوں میں بلند کرکے پوری دنیا کو پیغام دیا کہ مکتب تشیع قرآن کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

محسن ملت علامہ محسن نجفی عالمی سیاسی منظر نامے پر اگر کسی شخصیت کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کرتے تو ہمیشہ شہید رئیسی کو اچھے الفاظ میں یاد کیا کرتے تھے۔ چیئرمین پاکستان سویٹ ہومز زمرد خان کا کہنا تھا کہ شہید رئیسی کے حوالے سے ایران اور پاکستان کے اندر سوگ منایا جا رہا ہے۔ بہت سے صدور نے پاکستان کا وزٹ کیا، لیکن شہید صدر کے پاکستانی دورے سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہت مضبوط ہوئے۔ خاتون اول پاکستان آکر سب سے پہلے سویٹ ہومز میں یتیم خانے میں یتیموں سے ملنے گئیں۔ شہید صدر نے جس بہادری سے فلسطینیوں کا ساتھ دیا، وہ بیمثال ہے۔

صفدر گیلانی صدر جمعیت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ ان شہداء کی شہادت پر جس طرح شیعہ کے ساتھ اظہار تعزیت کیا جائے، اسی طرح اہلسنت کیساتھ بھی تعزیت کی جائے، کیونکہ صدر رئیسی کسی مسلک کے نہیں عالم اسلام کے لیڈر تھے۔ اللہ ہمیں ان عظیم شہداء کی شہادت کے مطابق امت مسلمہ کو متحد فرمائے۔ علامہ سید ساجد علی نقوی سربراہ شیعہ علماء کونسل نے کہا کہ شہداء کے درجات کی بلندی کی دعا کیساتھ سفیر محترم کا یہ موقع فراہم کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام ہوں یا ایران کی عوام ہوں، اس کو ایک نئے انداز میں جوڑنا شہید رئیسی کا رول تھا۔ جو پاکستانی فلسطین کی عوام کیلئے آواز بلند کر رہے تھے، صدر رئیسی ان کیلئے سہارا بنے۔
خبر کا کوڈ : 1145508
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش