1
0
Friday 5 Jul 2024 11:49

آپریشن عزم استحکام، مقاصد کیا ہیں؟؟

آپریشن عزم استحکام، مقاصد کیا ہیں؟؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان کی قسمت ہی عجیب ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں، کہ ہم نے بطور قوم سکھ کا سانس لیا ہو۔ اس کی کچھ بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو ایسٹ انڈیا کمپنی سے آزادی ملنے کے بعد سے لیکر اب تک ایسا محسوس ہوتا ہے (خدا کرے ایسا نہ ہو) کہ ہم ہنوز برطانوی سرکار کی رعایا(کالونی) ہیں۔ اور رعایا بھی ایسی کے جس کیلئے آقا کوئی حقوق تو ادا نہیں کرتا، البتہ فرائض کیلئے ہر وقت گردن دبائے رکھتا ہے۔ دوسری افتاد امریکہ کی صورت میں ہم پر آن پڑی۔ امریکہ ہمارا وہ دوست ہے، کہ جس نے کبھی بھی پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں دیا، البتہ نقصان بہت زیادہ کیا ہے۔ ’’دہشت گردی کیخلاف جنگ‘‘ کی ایک مثال ہی کافی ہے، کہ ہم نے ہزاروں قربانیاں دی، بم دھماکے، خودکش حملے، کلاشنکوف کلچر، ہیروئین کی لعنت سمیت درجنوں ’’عذاب‘‘ ہمارے حصے میں آئے۔ اتنی زیادہ قربانی دینے کے باوجود ’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد‘‘ کی کیفیت ہے۔

امریکہ کی پالیسی ہی یہی رہی ہے کہ اس کے ہمیشہ دوسروں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا، اور ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا۔ ہماری اشرافیہ یہ سب جاننے کے باوجود کہ ’’بیماریاں‘‘ اسی عطار کے لونڈے کے سبب ہیں، پھر بھی اسی سے ’’دوا‘‘ لینے پہنچ جاتی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ امام خمینیؒ نے فرمایا تھا کہ ’’امریکہ کی دوستی اس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے‘‘۔ اور یہی زمینی حقیقت ہے۔ جس نے ادراک کر لیا، وہ کامران ہو گیا، اور جو کبوتر کی طرح آنکھیں موندے بیٹھا رہا، اس کو لقمہ بنا لیا گیا۔ موجودہ صورتحال میں ہم ایک بار پھر امریکی عتاب میں آتے دکھائی دے رہے ہیں۔

واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ایک بار پھر ’’ٹاسک‘‘ دیدیا ہے، کہ افغانستان کے طالبان کو ’’سبق‘‘ سکھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے، اس لئے پاکستان تیاری پکڑے اور ایک بار پھر ’’ہماری جنگ‘‘ میں کود جائے۔ اور ہم اب بھی روایتی سادگی کا شکار ہو کر امریکہ کی ایجنٹی کیلئے تیار ہو رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان کیساتھ ایک بار پھر پاکستان کو لڑانے کا پلان تیار کیا گیا ہے۔ اس کیلئے کوئی مناسب وقت اور موقع ڈھونڈا جا رہا ہے۔ ہمارے آرمی چیف پاکستان کے تمام نمائندہ مذہبی رہنماوں کیساتھ ایک نشست کر چکے ہیں۔ اس نشست میں انہوں نے تمام علماء کو اعتماد میں لیا، کہ افغانیوں نے ہمارے ساتھ یہ، یہ سلوک کیا اور ہم نے ان کیساتھ  یہ، یہ احسانات کئے۔ اس نشست میں جنرل عاصم منیر صاحب نے علماء برادری کو اعتماد میں لیا کہ اگر ہم افغانستان کو سبق سکھانے کیلئے پہاڑوں پر چڑھ جائیں تو پیچھے سے ہماری ٹانگیں نہ کھینچیئے گا۔

ہمارے خلاف فتویٰ بازی کی فیکٹریاں نہ کھول لیجئے گا اور اس نشست میں موجود تمام علمائے کرام نے چیف صاحب کو یقین دہانی کروائی کہ ہمیں پاک فوج کی پالیسیوں اور حکمت عملیوں پر اندھا اعتماد ہے، اس لئے آپ جو کریں گے، ہم پاک فوج کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ یوں چیف صاحب نے یہ بہت بڑی رکاوٹ عبور کرلی اور تمام علمائے کرام کی حمایت حاصل ہونے پر انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔ علماء کے بعد نمبر تھا سیاست دانوں کا، تو سیاستدان تو ہمارے گھڑے کی مچھلی ہیں۔ انہیں تو جب حکم دیں گے، وہ پریس کانفرنس کر ڈالیں گے۔ یہ کونسا مشکل مرحلہ ہے، لیکن کچھ سیاسی جماعتیں ایسی بھی نکل آئی ہیں، جو پریس کانفرنس کیلئے آمادہ ہوتی ہیں، نہ ہماری حکمت عملی کی قائل ہیں۔ تو ایسی ہی سیاسی جماعتوں نے شور مچا دیا کہ ہمیں ایسے کسی آپریشن کی ضرورت نہیں۔

اس آپریشن کے حوالے سے تحریک انصاف، جے یو آئی (ف)، جماعت اسلامی، اے این پی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اعتراضات کئے ہیں۔ اس آپریشن کے حوالے سے بعض مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سی پیک کی دوبارہ فعالیت کیلئے چین نے مشروط آمادگی ظاہر کی ہے۔ اور اس کیلئے سکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کی شرط عائد کی ہے۔ جس پر پاکستانی حکومت نے چینی باشندوں کی سکیورٹی سمیت ملک بھر میں امن عامہ یقینی بنانے کیلئے آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ آپریشن کی مخالفت کرنیوالی جماعتوں کا موقف ہے کہ اس آپریشن سے سوات اور وزیرستان کی طرح دوبارہ لوگوں کو گھر چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑے گی۔ اس سے بہت سے مسائل جنم لیں گے، ریاست مخالف نفرت بڑھے گی۔ وغیرہ وغیرہ۔

حکومت اور فوج کی جانب سے یہ وضاحت کی جا رہی ہے کہ یہ آپریشن پہلے کئے جانیوالے آپریشنز کی طرز کا نہیں ہوگا، بلکہ یہ آپریشن ٹارگٹڈ اور انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیوں پر مشتمل ہوگا۔ اگر حکومت کا یہ موقف ہے کہ تو یہ کام تو پہلے ہی جاری ہے، اسے آپریشن کا نام دے کر کس کو مطمئن کیا جا رہا ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ اس حوالے سے اب حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کیلئے تحریک انصاف کے بانی نے اس کانفرنس میں شرکت کی ہدایت کر دی ہے۔ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ ہم اس آپریشن کی اجازت نہیں دے سکتے۔ جبکہ اب عمران خان نے کہا ہے کہ وہ حکومت کی بات سنیں گے اور اپنا موقف سنائیں گے۔ حکومت یہ موقف اپناتی ہے کہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے اُٹھتے ہوئے سر کو کچلنے کیلئے قومی سلامتی کمیٹی میں اس آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور متعلقہ وزارتوں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی تھی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ  موجود ہے کہ قومی ایکشن پلان دراصل ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ہی تشکیل پایا تھا۔ اب بھی ضرورت تو تھی کہ تمام سیاسی قوتیں مل کر اس آپریشن عزم استحکام کی حمایت کرتیں، مگر ایسا نہیں۔ اس کی وجہ وہی معاملہ ہے کہ سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اس آپریشن کے پس پردہ کچھ اور مقاصد ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت تو واضح موقف رکھتی ہے اور اس کا اظہار بھی کرتی ہے کہ یہ آپریشن کسی اور قوت کی خوشنودی کیلئے شروع کیا جا رہا ہے۔

تاہم وزیراعظم کی طرف سے بلائی جانیوالی آل پارٹیز کانفرنس میں امید ہے کہ وزیراعظم اور عسکری قیادت تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیں گے۔ اگر وہ آپریشن کی مخالفت کرنیوالوں کو اعتماد میں لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ملک سے دہشت گردی اور اتنہا پسندی کا خاتمہ ہونے کی اُمید ہے، مگر یہ سوال ہمیشہ اپنی جگہ موجود رہے گا، کہ ہم صرف اوروں کیلئے ہی کیوں آپریشن کرتے ہیں، اپنے وطن کی سالمیت اور اپنے عوام کے دفاع کیلئے پہلے سے ایسے اقدامات کیوں نہیں کرتے۔؟؟؟
خبر کا کوڈ : 1145868
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Dr S HussaiJan
Pakistan
ہماری رائے تو یہ ہے کہ ٹھیک ٹھاک آپریشن ہونا چاہیئے، کیونکہ دہشتگردوں (طالبان، TTP, اور داعش) نے دوبارہ اپنے مزموم عزائم بلکہ کارروائیاں شروع کی ہیں۔ اس لیے یہ آپریشن اوروں کے لیے نہیں بلکہ اپنی عوام اور آرمی کے مخالفین کے خلاف ہے۔ اگر کوئی مخالفت کرتا ہے تو وہ سیاست ہے۔
ہماری پیشکش