0
Wednesday 26 Jun 2024 13:01

اسانج کی آزادی، امریکی تسلط پسندی کے زوال کی علامت

اسانج کی آزادی، امریکی تسلط پسندی کے زوال کی علامت
تحریر: زھرا طھرانی

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج 12 سال بعد آزاد ہو رہے ہیں۔ بارہ سالہ اتار چڑھاؤ کی یہ جدوجہد بالآخر اپنے نتیجے پر پہنچی۔ اسانچ کو عراق اور افغانستان میں واشنگٹن کے جرائم کے انکشاف کی وجہ سے امریکہ میں قانونی چارہ جوئی کا سامنا تھا۔ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج مختلف الزامات کے بعد 12 سال بعد ایک آزاد آدمی کے طور پر آسٹریلیا واپس آسکتے ہیں۔ 52 سالہ اسانج، امریکی عدالتی نظام کے ساتھ طے پانے والے ایک معاہدے کے فریم ورک کے اندر، پیر کے روز، برطانیہ کی جیل سے رہائی کے بعد، بحر الکاہل میں ایک دور دراز امریکی علاقے کے ایک امریکی جج کے سامنے پیش ہوئے اور ان 18الزامات میں سے ایک کا اعتراف کیا، جس کی وجہ سے اسے 175 سال قید اور یہاں تک کہ سزائے موت بھی ہوسکتی تھی۔امریکی حکومت سے معاہدہ کے تحت اسے پانچ سال اور دو ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ اس سزا کے برابر برطانیہ میں قید  گزار چکے ہیں، لہذا اس کے نتیجے میں وہ رہا ہوگئے ہیں۔

اسانج نے امریکہ کے خلاف کیا کیا؟
اسانج واشنگٹن کو ان لاکھوں حساس سرکاری اور فوجی دستاویزات کے اجراء سے متعلق جاسوسی کے الزام میں مطلوب تھے، جو انہیں 2010ء اور 2011ء میں سابق امریکی فوجی انٹیلی جنس تجزیہ کار چیلسی میننگ نے فراہم کی تھیں۔ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی فوج نے افغانستان اور عراق کی جنگوں کے دوران سینکڑوں شہریوں کو غیر رپورٹ شدہ واقعات میں ہلاک کیا۔ امریکی حکومت کے وکلاء نے دعویٰ کیا کہ ان معلومات کے اجراء سے افغانستان اور عراق میں ملک کے فوجی اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو خطرات لاحق ہوئے۔ آسانج نے 2006ء میں مشرقی کوئنز لینڈ، آسٹریلیا کے ٹاؤنس وِل سے معلومات کو پھیلانے کے لیے وکی لیکس کے نام سے ایک آن لائن وسیلہ کی بنیاد رکھی تھی۔ وکی لیکس نے 2010ء میں اس وقت عالمی توجہ حاصل کی، جب اس پلیٹ فارم سے عراق میں امریکی ہیلی کاپٹر پر 2007ء کے مہلک حملے کی ویڈیو جاری کی گئی۔

اس کے فوراً بعد وکی لیکس نے عراق اور افغانستان کی جنگوں سے متعلق ہزاروں خفیہ امریکی فوجی دستاویزات کے ساتھ ساتھ سفارتی دستاویزات کا مجموعہ بھی شائع کیا۔ اسانج نے ان دستاویزات کو امریکی قیادت والے اتحاد کی طرف سے کیے گئے جنگی جرائم کے ٹھوس ثبوت قرار دیا۔ امریکی الزامات کا سامنا کرنے کے بعد، اس نے اپنے مقدمے کو سیاسی محرک کا حامل قرار دیا اور کہا کہ ان کا منصفانہ ٹرائل نہیں ہوگا اور ان کی حوالگی سے انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ آزادی اظہار کے حامیوں نے ان کی حوالگی کی امریکی کوششوں کی بھی مذمت کی اور کہا کہ اس سے آزادی صحافت پر بھیانک اثر پڑے گا۔ حوالگی کے مسئلے پر ایک طویل قانونی لڑائی جاری رہی۔ اگست 2010ء میں، اسانج پر سویڈن میں جنسی زیادتی کا الزام لگایا گیا اور اسے بین الاقوامی گرفتاری انٹر پول کے وارنٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس نے اسے ایک طے سدہ مہم قرار دیا تھا اور پوچھ گچھ کے لیے اسٹاک ہوم جانے سے انکار کر دیا۔

اس کے بعد اس نے خود کو برطانوی حکام کے حوالے کر دیا، لیکن 2012ء میں، برطانیہ کی ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اسے پوچھ گچھ کے لیے سویڈن کے حوالے کیا جائے۔ اس سزا کو قبول کرنے کے بجائے اسانج نے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں سیاسی پناہ کی درخواست کی، جسے اس ملک کے اس وقت کے صدر کی حمایت سے قبول کر لیا گیا۔ اسانج کے سات سال سفارت خانے میں رہنے کے دوران وکی لیکس انکشافات کرتی رہی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایکواڈور کی حکومت پر امریکی دباؤ بڑھتا گیا اور 2019ء میں سفارت خانے نے لندن پولیس کو اسانج کو پانچ سال کے لیے امریکی محکمہ انصاف کے حوالے کرنے کی اجازت دے دی۔ بعد میں، اسے جنوبی لندن کی بیلمارش نامی حفاظتی جیل میں منتقل کر دیا گیا، جہاں اس نے یہ سال زیادہ تر تین بائی دو میٹر کے سیل میں قید تنہائی میں گزارے۔

 اسانج کی رہائی کے لیے بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ ہوا اور لندن کی ہائی کورٹ نے مئی میں فیصلہ دیا کہ اس کے پاس اپنی حوالگی کے لیے امریکہ میں اپیل کرنے کا حق ہے، جس پر جو بائیڈن نے ایک ممکنہ معاہدے کا اشارہ دیا، جس میں آسٹریلوی حکام اپریل میں پیش قدمی کرچکے تھے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے آن ٹارچر اور ایمنسٹی انٹرنیشنل ان فریقوں میں شامل تھے، جنہوں نے لندن سے اسانج کی امریکہ حوالگی کو روکنے کے لیے کوشش کی۔ آخرکار بدھ کو آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانی نے ملکی پارلیمان میں کہا کہ اسانج اپنے خاندان سے ملنے کے لیے آسٹریلیا واپس جا رہے ہیں۔ رہائی کے بعد امریکی محکمہ انصاف نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ اسانج کو امریکہ واپس آنے سے روک دیا گیا ہے۔

اسانج کی آزادی، صحافت کی جیت
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس اور نیشنل یونین آف جرنلسٹس آف برطانیہ اور آئرلینڈ نے اس پیشرفت کو میڈیا کی آزادی کے لیے ایک اہم فتح قرار دیا۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "اسانج کے خلاف 18 میں سے 17 الزامات کا ختم ہونا صحافیوں کو معمول کے الزامات میں قید کرنا اور صحافتی سرگرمیوں کو مجرمانہ طریقے سے روکنے سے باز رکھنے کا باعث بنے گا۔
خبر کا کوڈ : 1143992
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش