0
Wednesday 26 Jun 2024 05:54

غزہ میں جاری قحط و نشل کشی اور تماشائی دنیا

غزہ میں جاری قحط و نشل کشی اور تماشائی دنیا
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

اہل غزہ عزم و حوصلے کی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اسلامی دنیا میں غزہ کے لوگ ہی عزت و عظمت کی سانسیں لے رہے ہیں۔ غزہ کے ایک ہسپتال کے مناظر دیکھ رہا تھا، جہاں ہر طرف موت کا راج ہے۔ وہ ہسپتال جس میں دوائیاں نہ ہوں، جس میں آپریش بغیر بے ہوش کیے ہو رہے ہیں۔ ان لوگوں کی تکلیفوں کو محسوس کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ رپورٹر بچوں کے واڈ سے رپورٹ کر رہا تھا کہ کتنے ہی بچے ہیں، جو ہر روز یہاں صرف قحط کا شکار ہو کر شہید ہو رہے ہیں۔ ایک ہڈیوں کے ڈھانچے کو دکھاتے ہوئے بتایا کہ اس بچے کا انتقال ہوگیا اور اس کے والدین نے ابھی تک اس کا نام ہی نہیں رکھا تھا۔ ایک جوان روتے ہوئے بتا رہا ہے کہ میں نے غزہ کی گلیوں میں آخری سانسیں لیتی فیملی دیکھی، جو تھیلسما کا شکار تھی اور ہر ماہ انہیں خون لگتا تھا۔ اب نہ صرف کئی ماہ سے خون نہیں لگا تھا بلکہ قحط کی وجہ سے پچھلے کئی دنوں سے انہوں نے کچھ کھایا ہی نہیں تھا۔

غزہ میں لوگ پتے کھا کر پیٹ کی آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک بزرگ نے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا ہے اور  غزہ میں جاری قحط کا بتا رہا ہے، ساتھ میں امت کو پکار رہا ہے۔ سوچ رہا ہوں، اسے کیا بتاوں؟ امت کے دل تو تمہارے ساتھ دھڑکتے ہیں مگر ہمارے حکمران  امت کو بھول چکے ہیں۔ انہیں جدید دور کے تصور ریاست میں باندھ کر خود نیٹو اور جانے کن کن اتحاد میں جڑ گئے ہیں۔ کسی ایک ملک پر چھوٹا سا حملہ یا اس کے مفادات کو نقصان پہنچانے والا چھوٹا سا عمل سرخ لکیر قرار دیا گیا ہے۔یہ سب ایک ہو جاتے ہیں۔ بس مسلمانوں کو کہتے ہیں کہ تم سعودی، ایرانی، پاکستانی اور اردنی وغیرہ ہو۔ انہیں معلوم ہے کہ جس روز انہیں امت کی شناخت کے ساتھ سوچ لیا، استعمار کی دادا گیری ختم ہو جائے گا۔

اقوام متحدہ چیخ رہی ہے کہ 96% اہل غزہ کو خوراک کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔یعنی انہیں نہیں معلوم کہ اگلے وقت کا کھانا ملے گا یا نہیں ملے گا۔ دس لاکھ لوگ قحط کے کنارے کھڑے ہیں۔ ہر پانچ گھرانوں میں سے ایک ہر روز فاقہ کا شکار ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں عملی طور پر یہ صورتحال ہوچکی ہے کہ والدین بہتے آنسووں کے ساتھ اپنے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے موت کا شکار ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ قارئیں کرام چشم تصور سے دیکھیں کہ کتنی کرب ناک صورتحال ہوتی ہے، جب انسان اپنی اولاد کے لیے بے بس ہو جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی تمام رپورٹس اسرائیل جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ تین ماہ پہلے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے اسرائیل کو کہا تھا کہ اہل غزہ کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے انسانی امداد کو پہنچنے دے۔ اسرائیل نے اس آرڈر کو اسی وقت ہوا میں اڑا دیا تھا۔

ان ہزاروں بھوکے مرتے بچوں کے قتل عام میں امریکہ اور یورپ براہ راست شریک جرم ہیں۔ انہی کی شہ پر اسرائیل انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اسرائیل کسی بھی بین الاقوامی ادارے کی بات ماننا تو دور کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسرائیل کو معلوم ہے کہ اس کا سرپرست امریکہ ہے، جو ہر حال میں اس کے جرائم پر اس کی سپورٹ کرے گا اور اسے کسی صورت میں نہیں چھوڑے گا۔ اسرائیل خوراک کی ترسیل روکنے کو فلسطینیوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ مصر میں بڑی مقدار میں خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ سٹورز میں رکھی ہیں۔ ٹرک آمادہ ہیں کہ جیسے ہی انہیں گرین سگنل ملے، وہ  غزہ داخل ہو جائیں گے، مگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے اور کسی صورت میں خوراک کو مکمل طور پر داخل نہیں ہونے دے رہا۔

اسرائیلی حملوں میں اب تک  37,658 لوگ شہید ہوچکے ہیں اور 86,237 لوگ زخمی ہیں۔ غزہ کے پارک، کھیت اور گھروں کے صحن شہداء کے قبرستان بن چکے ہیں۔ کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے، ریڈ کراس کے اپنے دفتر تک محفوظ نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی امدادی تنظیم ریڈ کراس (آئی سی آر سی) نے بتایا ہے کہ غزہ میں اس کے دفتر پر ہونے والی شیلنگ سے احاطے میں حفاظتی پناہ لینے والے 22 افراد ہلاک اور 45 زخمی ہوگئے ہیں جبکہ اس حملے میں آفس کی عمارت کو نقصان بھی پہنچا ہے۔ وہ ادارہ جس کی گاڑی، دفتر یا افراد پر جنگ کے دوران حملہ نہیں کیا جا سکتا، اسرائیل اس پر کھلے عام شیلنگ کرتا ہے، اس کی عمارت کو نقصان پہنچاتا ہے، وہاں موجود لوگوں کا قتل عام کرتا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکہ اور یورپ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

دراصل یہ سارا قتل امریکی اور یورپی اسلحے اور ان کے پیسے سے ہو رہا ہے۔جو قتل عام کروا رہے ہیں، وہ قتل عام کی مذمت کیوں کریں گے؟ یہ خطہ ان کے ورلڈ آرڈر میں رکاوٹ بن رہا تھا، اس لیے اگر چار پانچ لاکھ لوگ مر بھی جاتے ہیں تو انسانیت دشمن یہ سب بھی کر گزریں گے۔ اسرائیل عملی طور پر جنگ میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ امریکہ اور پورے یورپ کے ساتھ ہونے کے باوجود نہ تو حماس کی مزاحمت کو ختم کرسکا ہے اور نہ ہی حماس کی قید میں موجود لوگوں کو چھڑوایا جا سکا ہے۔ حماس کی قیادت اپنی جگہ پر موجود ہے اور اس کی مقبولیت میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔

پوری دنیا میں اسرائیلی ایک ظالم کے طور پر متعارف ہوئے ہیں، جنہیں نہ بین الاقوامی قانون کا لحاظ ہے اور نہ ہی بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلوں کی کوئی پرواہ ہے۔ اربوں ڈالر میڈیا میں انویسٹ کرنے کے باوجود آج یورپ اور امریکہ کے عوام اسرائیل کو پسند نہیں کر رہے۔ نوجوان چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنی ریاستوں کی طرف سے جاری اس قتل عام اور مسلط  قحط کے خلاف ہیں۔ ان شاء اللہ جلد اہل فلسطین کے لیے آزادی کا سورج طلوع ہوگا اور جبر کی اندھیری رات ختم ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 1143838
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش