0
Friday 21 Jun 2024 17:06

پرائی آگ میں سائپرس کی چھلانگ

پرائی آگ میں سائپرس کی چھلانگ
تحریر: سید تنویر حیدر

گزشتہ بدھ کو حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے Eastern Mediterranean (مشرقی بحیرہ روم) کے جزیرے سائپرس (قبرص) کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس ملک نے اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین کسی ممکنہ بڑی جنگ میں اسرائیل کی کسی بھی پیمانے پر مدد کرنے کی کوشش کی تو اسے بھی اس جنگ کا ایک فریق سمجھا جائے گا اور نشانہ بنایا جائے گا۔ اس سے اگلے دن یعنی جمعرات کو "x" پر سائپرس کے صدر دفتر کی جانب سے کہا گیا کہ: The country " has never facilitated  and will not facilitate any aggressive action or attack against any country. " صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کا ملک اس حوالے سے ایرانی اور لبنانی حکومت سے رابطے میں ہے۔

سائپرس مشرقی بحیرہ روم کا ایک جزیرہ ہے، جو مشرق وسطیٰ اور جنوبی یورپ کے درمیان واقع ہے اور اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے باقی یورپی ممالک کی بنسبت مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں اپنا زیادہ کردار رکھتا ہے۔ یہ جزیرہ امریکی ریاست ڈیلے ویئر سے دو گنا بڑا ہے اور دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک اس کا جنوبی حصہ جو یونانی زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے جبکہ دوسرا اس کا شمالی حصہ ہے، جو ترک زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ جزیرے کی یہ تقسیم ترکی اور یونان کے باہمی علاقائی تنازعے کو ظاہر کرتی ہے۔ سائپرس کی آبادی 920,000 ہے اور اس کا دارالحکومت "نکوسیا" ہے۔ زیادہ تر بین الاقوامی برادری سائپرس کے یونانی حصے کی خودمختاری کو تسلیم کرتی ہے اور یہی وہ حصہ ہے جو اسرائیل کی مدد کرتا ہے اور جسے سید حسن نصر اللہ نے خبردار کیا ہے۔

سائپرس یورپی یونین کا ممبر ہے، لیکن نیٹو کا ممبر نہیں ہے۔ نیٹو کی ممبر شپ نیٹو ممالک کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنے کسی بھی ممبر ملک پر حملے کا مل کر دفاع کریں گے۔ سائپرس کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ء1960 میں اس وقت قائم ہوئے جب اس جزیرے نے تاج برطانیہ سے آزادی حاصل کی لیکن 1994ء تک تل ابیب میں اپنا سفارت خانہ نہ کھولا۔ 1980ء سے 1990ء تک سائپرس کے اسرائیل سے تعلقات خراب رہے۔ اس کی وجہ اسرائیل کے ترکی سے تعلقات اور عرب اسرائیل تنازعہ تھا۔ سائپرس نے فلسطینی ریاست کی حمایت کی تھی۔ 1990ء اور 2000ء کے عرصے میں اسرائیل اور سائپرس کے مابین تعلقات اس وقت دوبارہ بحال ہوئے، جب اسرائیل نے اپنے اقتصادی اور تجارتی منصوبوں میں ساجھے داری کی غرض سے ایسٹرن میڈیٹیرینین کی طرف رخ کیا۔ خاص طور پر علاقے میں قدرتی گیس کے ذخائر کی دریافت کے بعد۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل کے سائپرس سے تعلقات کی دوسری اہم وجہ علاقے میں ترکی سے مقابلہ اور ایران سے وابستہ گروہوں کے خطرات سے نمٹنا تھا۔ اسرائیل نے حالیہ سالوں میں کئی بار سائپرس کی سرزمین کو حزب اللہ سے کسی بھی ممکنہ جنگ کے مقابلے کے لیے اپنے فوجی دستوں کی ٹریننگ کے لیے استعمال کیا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق سائپرس کا علاقہ جنوبی لبنان سے ملتا جلتا ہے۔ 2022ء میں اسرائیل کی افواج نے سائپرس کی مسلح افواج کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں میں حصہ لیا، جس میں زیادہ تر فوکس حزب اللہ پر کیا گیا۔ اسرائیل اور سائپرس کے مابین آخری فوجی مشقیں مئی 2023ء میں سائپرس میں ہوئیں۔ بظاہر اسرائیل حزب اللہ کے خلاف طبل جنگ بجانے کے لیے بالکل تیار کھڑا ہے، لیکن حزب اللہ جس طرح روز دنیا کو ایک نیا سرپرائز دے رہی ہے، اس نے اسرائیل اور اس کے حامیوں خصوصاً امریکہ کو پریشان کر رکھا ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ وہ خود بھی اسرائیل کے کسی اقدام کی وجہ سے کسی ایسی دلدل میں دھنس جائے، جس کی گہرائی کا کسی کو بھی اندازہ نہیں۔
خبر کا کوڈ : 1142970
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش