0
Thursday 20 Jun 2024 10:30

علی وجدان مرحوم

علی وجدان مرحوم
تحریر: سید نثار علی ترمذی

شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت کے ایام تھے کہ دفتر 2-دیو سماج میں ایک نوجوان کا آنا جانا شروع ہوا۔ دراز قد، قدرے لمبی داڑھی، کالی سفید ڈبیوں والا رومال گلے میں ڈالے، پان کھاتا ہوا، ثاقب بھائی یا مقصود گل سے محو گفتگو ہو جاتے۔ بات بات پر شعر کہنا اور جلد بے تکلف ہو جانا، شعر میری بھی کمزوری رہا، یوں جلد ہی آشنائی و قربت بڑھ گئی۔ پھر آپ سے تم ہوئے پھر تو کا عنوان ہوگئے۔ وہ ان دنوں شہید حسینی کے افکار کی جمع آوری و اشاعت پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے دن رات ایک کرکے دو جلدوں پر مشتمل " افکار زندہ" کے نام سے اور اسی طرح شاعری پر"قتیل سحر" کے نام سے شائع کرکے شہید حسینی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ نثر و نظم دونوں اصناف میں آپ نے شہید حسینی پر لکھا۔ اس کاوش پر آپ کو ہمیشہ فخر رہا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جن افکار کا انہوں نے اپنے مضمون میں ذکر کیا تھا، بعین ہی امام خمینی (رح) نے بھی اپنے پیغام میں کیا تھا، جو شہید کی شہادت پر جاری ہوا تھا۔

پھر وہ پس منظر میں چلے گئے۔ اڑتی اڑتی سی خبریں آتیں کہ وہ کراچی میں ہیں، اسلام آباد آئے ہیں اور لاہور میں بھی دیکھے گئے، مگر ملاقات نہ ہوسکی۔ ایک دن مکتبہ العصر گیا تو برادر مظہر جعفری صاحب نے بتایا کہ علی وجدان آئے تھے، وہ آپ کا پوچھ رہے تھے۔ ساتھ ہی بتایا کہ انہوں نے حضرت علی علیہ السلام و نہج البلاغہ پر کئی کتب مرتب کی ہیں، وہ یہ کتب میرے لیے بھی لائے ہیں، مگر وہ خود دیں گے۔ نماز مغربین پر ان سے ملاقات ہوگئی۔ وہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ ان کا گھر اسلام پورہ، مین بازار، لاہور میں ڈاک خانہ والی بلڈنگ میں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بلڈنگ مشترکہ ہے، جس کا ایک پورشن ان کے پاس ہے، باقی دیگر بھائیوں کے پاس ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے باب العلم فاونڈیشن بنائی ہے، جو نہج البلاغہ پر ایران میں ہونے والے کام کو اردو میں منتقل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس سلسلہ کی چند کتب عطیہ کی۔شکریہ ادا کرنے اور دوبارہ ملنے کا وعدہ کرکے جدا ہوئے۔ بعد میں بتایا کہ شائد نام پر کوئی مشکل پیدا ہوگی ہے، اس لیے کام روک دیا ہے۔

جب بھی ملتے پرعزم ہوتے۔ ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے نظر آتے۔ وراثت کی تقسیم کے لیے مشاورت اور قانونی امداد کے پہلوؤں پر بات کرتے۔ اپنے بچوں کی تعلیم، روشن مستقبل اور شادیوں کے بارے میں سوچتے رہتے۔ میں نے جب اپنی پہلی کتاب "نقیب وحدت علامہ عارف حسین الحسینی" مرتب کی تو دل مطمئن نہیں ہو رہا تھا کہ اسے پریس بھیجا جائے۔ انہی دنوں میں معلوم ہوا کہ علی وجدان اسلام آباد میں ہیں۔ انہیں فون کیا تو بہت خوش ہوئے۔ شام کو "البصیرہ" میں ملے۔ مسودہ پیش کیا، اسی وقت ہی پڑھنا شروع کر دیا۔ ان کا طریقہ تھا کہ وہ پروف ریڈنگ کرتے ہوئے عبارت کو باآواز پڑھتے۔ میں نے اس انداز کے بارے میں دریافت کیا تو بتایا کہ اس طرح کوئی لفظ نظرانداز نہیں ہوتا اور غلطی پکڑی جاتی ہے۔ انہوں نے میری مذکورہ کتاب سے کئی پیرے قلم زد کیے تو میں نے اسے قبول کیا۔ وہ ساری رات پروف ریڈنگ کرتے رہے اور میں نیند سے اٹھ اٹھ کر پوچھتا رہا کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں، وہ جواب میں مسکرا دیتے۔ صبح کی نماز کے بعد کہنے لگے کہ اب چائے پیتے ہیں۔ ہم دونوں دفتر سے نکل کر مارکیٹ میں آگئے۔ کہنے لگے کہ ناشتہ بھی ساتھ ہی کر لیتے ہیں۔ ناشتہ کے بعد وہ تو سو گئے، مگر پوری کتاب کا پروف چیک ہوچکا تھا۔

پھر آپ جو کراچی گئے تو ملاقات نہ ہوسکی۔ وہ اکثر فون کر لیتے، کبھی کتاب کی چھپائی کے ریٹ منگواتے، کبھی رعشہ بیماری کا تذکرہ کرتے، کبھی وکلاء کے حوالے سے فون کرتے کہ وہ ان کی آبائی جائیداد کے مسائل میں قانونی مشاورت دے سکے۔ غرضیکہ کسی نہ کسی طرح رابطہ میں رہے۔ 2017ء میں بیٹی کی شادی تھی کہ وجدان بھائی کا فون آگیا۔ انہیں شادی کی دعوت دی تو بہت خوش ہوئے، بہت دعائیں دیں۔ میں نے خواہش کی کہ اس موقع پر دعا لکھ دیں۔ انہوں انتہائی محبت سے ایک طویل منظوم دعا تحریر کرکے فون پر لکھوا دی۔ جسے متعدد مرتبہ فون پر تصحیح کے بعد کمپوز کروایا اور فریم کروالی۔ جس نے بھی پڑھی داد دیئے بغیر رہ نہ سکا۔ خود مرحوم بارہا اس دعا کی تعریف کیا کرتے تھے کہ جناب سیدہ کی عنایت ہے۔ جب بھی فون آیا تو بیٹی کے بارے میں ضرور پوچھتے اور ڈھیروں دعائیں دیتے۔ جب میں نے نواسے کا بتایا تو مسرت کا بے انتہاء اظہار کیا۔ اب دعاوں میں نواسہ بھی شامل ہوگیا۔

علی وجدان کا فون آیا کہ وہ راولپنڈی آچکے ہیں اور علامہ مرزا افتخارالدین، جن سے اسی کی دہائی سے ہماری یاد اللہ ہے، ان کے مہمان ہیں۔ بعد میں بتایا کہ وہ ان کے تفاسیری مواد کو کتابی شکل دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی بیماری کے بارے میں بھی بتایا، مگر وہ پرامید اور باحوصلہ تھے۔ میں نے وعدہ کیا کہ جب اسلام آباد کا چکر لگا تو ملوں گا۔ اس دوران آنا ہوا مگر وقت کی کمی کی وجہ جلد واپس آنا پڑا۔ انہیں کسی طرح بھنک پڑگئی۔ گلوں شکوں سے بھرا فون آیا کہ آئے اور ملے نہیں۔ میں نے بہت معذرت کی اور آئندہ ملاقات کا پکا وعدہ کر لیا۔ کہا لو سنو نئی آمد۔ انہوں نے اپنا کلام سنایا، جسے میں نے لکھ کر ایس ایم ایس کیا۔ کئی مرتبہ اصلاح کے بعد فائنل کیا۔ میں نے تقاضا کیا کہ اپنی تصویر تو بھیج دیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو واٹس ایپ نہیں، مگر کوشش کرتا ہوں۔ چند ہی لمحہ بعد ان کی کئی تصاویر آگئیں۔ میں نے شاعری اور تصاویر کو اپنے فیس بک پیج پر دے دیا، جسے لوگوں نے کافی پسند کیا۔

دوسرے دن فون آیا کہ آپ نے میری تصویریں آپ لوڈ کی ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میری شہرت ہو، جس پر میں نے دلی معذرت کی۔ مگر آخر وہ لمحہ بھی آگیا، جس کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔ رات گئے آنکھ کھلی تو فیس بک پر پوسٹ تھی کہ ہمارا بھائی، ہمارا دوست علی وجدان اس جہان فانی کو چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ بارہا آنکھوں کو ملا، دل کو ٹٹولا مگر یقین نہیں آیا۔ رات کے دو بج رہے تھے، کس سے تصدیق کرتا۔ رات یقینی اور بے یقینی میں گذاری۔ صبح ہوتے ہی ثاقب بھائی کو ڈرتے ڈرتے فون کیا۔ انہوں فون اٹھاتے ہی اس ناگہانی خبر کی تصدیق کر دی۔ "ﺍﻟﻠّﻬُﻢَّ ﺍﻏْﻔِﺮْ ﻟِﻠْﻤُﺆْﻣِﻨِﻴﻦَ ﻭَﺍﻟﻤُﺆْﻣِﻨﺎﺕِ ﻭَﺍﻟﻤُﺴْﻠِﻤِﻴﻦَ ﻭَﺍﻟﻤُﺴْﻠِﻤﺎﺕِ ﺍﻻﺣْﻴﺎﺀِ ﻣِﻨْﻬُﻢْ ﻭَﺍﻻﻣْﻮﺍﺕِ ، ﻭَﺗَﺎﺑِﻊِ ﺍﻟﻠّﻬُﻢَّ ﺑَﻴْﻨَﻨﺎ ﻭَﺑَﻴْﻨَﻬُﻢْ ﺑِﺎﻟﺨَﻴْﺮﺍﺕِ ﺇﻧَّﻚَ ﻣُﺠِﻴﺐُ ﺍﻟﺪَّﻋَﻮﺍﺕِ ﺇﻧَّﻚَ ﻋَﻠﻰ ﻛُﻞِّ ﺷَﻲٍ ﻗَﺪﻳﺮ" مرحوم سے یادوں کا سلسلہ دراز تر ہے۔ وہ سادہ مزاج و رہن سہن کے عادی تھے۔ انہوں نے یہ روش بڑی ریاضت کے بعد حاصل کی تھی۔ وہ نجیب، وضع دار، وسیع مطالعہ و بذلہ سنج شخصیت کے مالک تھے۔

وہ ہر وقت اللہ کا شکر کرتے رہتے۔ مصائب و مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے۔ محمد و آل محمد کے ذکر کو اپنا سرمایہ حیات جانتے تھے۔ امام خمینی اور انقلاب اسلامی کے شیدا تھے۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ انقلاب اسلامی کے سارے لٹریچر کو اردو قالب میں ڈھال دیں۔ شہید حسینی پر تو انہوں تحریری کام بھی کیا۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید سے وابستہ اپنی یادیں بیان کرتے رہتے۔ شہداء کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ کئی ترانے قبولیت کی بلندیوں کو پہنچے۔ نوحہ و منقبت میں مقام حاصل کیا۔ اپنی تین کتب مرتب کرچکے تھے، جنہیں شائع کرنے کی تگ و دو میں تھے۔ ان کی شاعری کی پہلی کتاب ان کی تئیس سال کی عمر میں شائع ہوئی۔ اس سے اندازہ کر لیں کہ وہ کس عمر سے شاعری کر رہے تھے۔ آپ کی یہ کتاب نیٹ پر "ریختہ" کی ویب سائیٹ پر موجود ہے۔

مشہور شاعر ناصر کاظمی کے شاگرد تھے۔ یہ ان کی بڑی پہچان تھی، جسے انہوں نے بہت جدوجہد کے بعد جان چھڑائی۔ ایک دن باتوں باتوں میں کہا کہ ان کی ناصر کاظمی سے طویل صحبت رہی ہے۔ اگر وہ ان یادشتوں کو قلم بند کریں تو اردو ادب میں ان سے آشنائی کے کئی گوشے وا ہوں گے۔ کہنے لگے نثار بھائی! جب سے امام خمینی سے آشنائی ہوئی ہے تو اس سے کم تر سوچ  بھی نہیں سکتا۔ میں اگر لکھوں گا تو انہی جیسی ہستیوں یا ان سے بالا تر ہستیوں کے بارے میں لکھوں گا۔ یہاں ان کے کلام کے چند نمونے پیش ہیں۔ ان کی تین کتب مرتب شدہ ہیں۔ لواحقین اور احباب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کی اشاعت کا اہتمام کریں۔ علی وجدان مرحوم کے آخری ایامِ عزا میں تصنیف شدہ طرحی سلام جو انہوں نے کوثر سلطان پوری مرحوم کے مکان (انچولی) پر منعقدہ سالانہ مجلسِ مسالمہ کے لیے تحریر فرمایا۔

جس گھڑی رابطہ خالق سے عیاں ہوتا ہے
نقش بر آب ہر اک سود و زیاں ہوتا ہے

خون میں ڈوب کے ملتی ہے حیاتِ دائم
اِس کا ادراک مگر سب کو کہاں ہوتا ہے

دیں کا اک راز ہے لبیک حسینؑ ابنِ علیؑ
قلب صادق ہو تو اُس پر یہ عیاں ہوتا ہے

کس میں یہ تاب کرے حقِ مودّت کو ادا
پھر بھی یہ ذکر سدا وردِ زباں ہوتا ہے

گِریہ جب اوج پہ ہوتا ہے تو اُن لمحوں میں
سیدہؑ آتی ہیں خوشبو سے عیاں ہوتا ہے

ایسی تاثیر ہے عاشورِ حُسینی میں جناب
واقعہ آج ہوا ہے یہ گماں ہوتا ہے

نسل در نسل یہی دیکھ رہی ہے دنیا
"ذکرِ مظلوم ہے اشکوں سے بیاں ہوتا ہے"

حُرؑ نے ٹھوکر پہ کماں داری کو رکھ کر یہ کہا
قصد دوزخ سے مِرا سوئے جناں ہوتا ہے

جو بھی شبیرؑ سے ہم رشتہ ہے اُس کا وجدان
استقامت میں جُدا نام و نشاں ہوتا ہے

علی وجدان مرحوم

میں کبھی ہار مانتا ہی نہیں
دل میں اک بار ٹھان لینے کے بعد
پانچویں سمت دل کو بھانے لگی
چار سمتوں کو  چھان لینے کے بعد

(شاعر: علی وجدان)

جو بھی عزم سفر سے خالی ہے
وہ میرے کارواں سے دور رہے

(علی وجدان)

خود کو در در کی گدائی سے نہ رسوا کرتے
جس کو زیبا ہے، اسی ذات پہ تکیہ کرتے
سر بلندی کی طلب ہے تو جُھکا دو سر کو
تم نے دیکھا نہیں شبیر (ع) کو سجدہ کرتے

علی وجدان

میں تم کو کیسے بتاؤں کہ کیا ہے گھر کا مقام
کئی طرح سے تو مسجد سے کم نہیں ہوتا
بسے تو اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ
مقدسات سے کم محترم نہیں ہوتا

(علی وجدان)

غزل
زندگانی کا قرینہ سیکھ لے
تلخیوں کے ساتھ جینا سیکھ لے
نامناسب ہو جہاں پر بولنا
خامشی کا زہر پینا سیکھ لے
نظم و ضبط و آگہی کی قدر کر
دامن صد چاک سینا سیکھ لے
حال و ماضی سے کبھی کوئی سبق
دعویٰ دار چشم بینا سیکھ لے
تو بشر ہو کر بھی ناداں ہی رہا
شہد کی مکھی سے جینا سیکھ لے

علی وجدان

بقا کے من میں رہنا چاہتا ہوں
لقائے رب کا گہنا چاہتا ہوں
کوئی ابہام تو ہرگز نہیں ہے
سمجھ لو کیا میں کہنا چاہتا ہوں
عوارض کا پیدائی، ٹھہرنا
میں دریا ہوں سو بہنا چاہتا ہوں
زراندوزی سے دوری ہے سدا کی
اسی موقف پہ رہنا چاہتا ہوں
میں اپنے عہد کی اس کربلا میں
جو گزرے اس کو سہنا چاہتا ہوں

علی وجدان

حسین مشعلِ ایمان لے کے ہاتھوں میں
نبی کے دین کی بگڑی بنانے چل دیئے ہیں
اگرچہ لوگ تو کم ساتھ ہیں مگر وجدان
جلو میں آقا کے سارے زمانے چل دیئے ہیں

علی وجدان کراچی ※ چھوڑ دے ※

نخوُت و ناز و نعم کو چھوڑ دے
خود ستائی اور بھرم کو چھوڑ دے
ہے تقاضا تجھ سے اہلئبیت کا
یا ہمارا بن یا ہم کو چھوڑ دے

علی وجدان

خود فریبی
جن معیارات کے تناظر میں
اس نے حالات اپنے تولے تھے
دوسروں کا تو خیر ذکر ہی کیا
کس قدر خود سے جھوٹ بولے تھے

علی وجدان کراچی

زندگانی کا قرینہ سیکھ لے
تلخیوں کے ساتھ جینا سیکھ لے
تو بشر ہو کر بھی ناداں ہی رہا
شہد کی مکھی سے جینا سیکھ لے

(علی وجدان)
خبر کا کوڈ : 1142723
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش