0
Wednesday 3 Jul 2024 05:54

ہم حزب‌‌ الله کی مدد کیلئے تمام وسائل استعمال کریں گے، سید کمال خرازی

ہم حزب‌‌ الله کی مدد کیلئے تمام وسائل استعمال کریں گے، سید کمال خرازی
اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خارجہ تعلقات کی اسٹریٹجک کونسل کے سربراہ "سید کمال خرازی" نے انگریزی جریدے فائننشل ٹائمز کو ایک انٹرویو دیا۔ جس میں انہوں نے ایران کے انتخابات، فارن پالیسی، مشرق وسطیٰ اور ممکنہ حزب الله - اسرائیل جنگ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر سید کمال خرازی نے یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں کہا کہ مغربی ممالک کی جانب سے اپنی حالیہ پالیسی ترک کرنے کی صورت میں ممکن ہے کہ ان انتخابات کے بعد ایران و مغربی ممالک کے درمیان نئی راہیں کھلیں۔ یہ راہیں مساوات اور احترام کے اصول پر کھل سکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ صدارتی دوڑ میں شریک امیدواروں کے نقطہ نظر میں اختلاف ہو لیکن خارجہ محاذ پر ایک ہی پالیسی ہے کیونکہ یہ پالیسی اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر تعین کرتے ہیں۔ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں کسی نئے معاہدے کی ضرورت نہیں، ماضی میں ہونے والا جوہری معاہدہ اب بھی قابل اجراء ہے۔ اگر امریکہ واپس آ جائے تو اس صورت میں ہم بھی تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن دوسری جانب ہم کسی بھی دباؤ سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں۔ جوہری معاہدے سے قبل امریکی بھی سمجھ گئے تھے کہ ایران پر دباؤ ڈالنا بے سود ہے۔

سید کمال خرازی نے کہ ہم امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کی صورت میں بالواسطہ مذاکرات کے تیار ہیں۔ہم امریکہ کے ساتھ بلا واسطہ بات چیت نہیں کریں گے کیونکہ امریکہ مد مقابل کو برابری اور احترام سے نہیں دیکھتا۔ ہماری بہت سارے مغربی ممالک کے ساتھ براہ راست بات چیت رہتی ہے اور ہم بھی اس گفتگو کو جاری رکھیں گے۔ تاہم امریکہ ہمیشہ دباؤ اور دھونس کی سیاست اپناتا ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ انہوں نے حالیہ لبنان-اسرائیل کشیدگی کے حوالے سے کہا کہ ایک مکمل جنگ کی صورت میں حزب الله اپنے دفاع کے حوالے سے کافی مضبوط ہے۔ اس جنگ کا نتیجہ اسرائیل کی بدترین شکست کی شکل میں نکلے گا۔ اس صورت حال میں لبنانی عوام، عرب ممالک اور استقامتی فرنٹ اسرائیل کے خلاف لبنان کی حمایت کرے گا۔ بہرحال ایک وسیع علاقائی جنگ کا قوی امکان ہے اور اس صورت میں ایران سمیت تمام ممالک اس جنگ میں شامل ہوں گے۔ اپنے تمام وسائل کے ساتھ حزب الله کی مدد کرنے کے علاوہ ہمارے پاس بھی کوئی آپشن نہیں۔ تاہم جنگ کا پھیلاؤ کسی کے بھی مفاد میں نہیں، نہ ایران کے اور نہ امریکہ کے۔ 

ہم جنگ کے حامی نہیں ہیں ویسے ہی جیسے امریکی جنگ نہیں چاہتے۔ اس بنیاد پر امریکیوں کو چاہئے کہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں تاکہ جنگ کو روکا جا سکے۔ ایرانی خارجہ پالیسی میں اسٹریٹجک تعلقات کے سربراہ نے امریکی انتخابات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم امریکی انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدوار کی پروا کئے بغیر اپنی سابقہ پالیسی کو جاری رکھیں گے۔ ہمیں اس سے قبل ڈونلڈ ٹرامپ کا بھی تجربہ ہے اور انہیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ایران پر کسی قسم کا دباؤ اثرانداز نہیں ہوتا۔ انہوں نے ایران و روس کے مابین اسلحے کی خرید و فروش کے بارے میں کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اسلحے کی خرید و فروخت میں کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ ہمارے درمیان یہ طے ہوا ہے کہ ہم بہت جلد ایک مشترکہ اسٹریٹجک معاہدے کی قرارداد پر دستخط کریں۔ ہم نے یوکرائن جنگ سے پہلے روس کو ڈرون بیچنا شروع کئے تھے۔ اس ضمن میں روس کی جانب سے ایرانی ساختہ اسلحے کے استعمال کے الزام میں کوئی صداقت نہیں کیونکہ یہ اسلحہ یوکرائن تنازعے سے قبل بیچا جا رہا ہے۔ ہم روس-یوکرائن تنازعہ میں نیوٹرل تھے۔ کیونکہ بنیادی طور پر ہم کسی بھی ملک پر کسی دوسرے عنصر کے حملے کی حمایت نہیں کرتے۔

سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے بارے میں سید کمال خرازی نے کہا کہ یہ تعلقات مزید بڑھ رہے ہیں اور پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ حج پر جانے والے ایرانی حجاج نے وہاں سے اپنے صدارتی امیدوار کو ووٹ بھی کاسٹ کیا۔ یمنی حوثیوں کے بارے میں کہا کہ بحیرہ احمر میں بحری نقل و حرکت کے خطرے کے پیش نظر ایران کیوں حوثیوں پر دباؤ ڈالے؟۔ وہ خود سے فلسطینیوں کی حمایت کر رہے ہیں اور یہ ان کا حق ہے۔ عراقی مقاومتی تحریک "الحشد الشعبی" میں اپنے اثر و رسوخ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ ایک حد تک اس تحریک میں ہمار اثر و رسوخ ہو مگر سوال یہ ہے کہ اس اثر کو ہم کہاں استعمال کریں۔ کسی بھی مقاومتی فرنٹ پر اثر و رسوخ کا استعمال ایک اسٹریٹجی کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ جب امریکہ و اسرائیل خطے میں ہمارے مفادات کے خلاف کام کریں تو ضرورت نہیں ہے کہ ہم اس اثر و رسوخ کو استعمال کریں۔ سید کمال خرازی سے پوچھا گیا کہ کیا اسرائیلی حملوں کے سبب شام میں ایران کی عسکری موجودگی کم ہوئی یا نہیں؟۔ جس کا جواب دیتے ہوئے سید کمال خرازی نے کہا کہ ہماری موجودگی میں کوئی خاص کمی نہیں آئی۔ ہم وہاں ہیں کیونکہ شامی حکومت نے ہمیں دعوت دے کر بلایا ہے۔ انہیں ہماری ضرورت ہے۔ہم وہاں شامیوں کی مدد کے لئے موجود ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1145308
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش