0
Tuesday 18 Jun 2024 17:52

ملک نے ترقی کرنی ہے تو سب کچھ نجی شعبے کے حوالے کرنا پڑے گا، وزیر خزانہ

ملک نے ترقی کرنی ہے تو سب کچھ نجی شعبے کے حوالے کرنا پڑے گا، وزیر خزانہ
اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ خیرات سے سکول اور ہسپتال تو چل سکتے ہیں لیکن ملک نہیں اگر اس ملک نے ترقی کرنی ہے تو سب کچھ نجی شعبے کے حوالے کرنا پڑے گا۔ پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کچھ اصول اور قواعد کی بات کی تھی، ان کو دہرانا چاہوں گا، پہلی بات یہ ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 9.5 فیصد ہے، یہ مستحکم نہیں رہ سکتی اس لیے بار بار کہتا ہوں کہ خیرات سے سکول، یونیورسٹیاں اور ہسپتال تو چل سکتے ہیں، ملک صرف ٹیکس سے چل سکتے ہیں اور اگر ملک کو ریلیف چاہیے تو حکومت کا جتنا بوجھ ہے، اسے کم کرنا ہو گا۔ اس لیے ہمیں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو بتدریج 13.5 فیصد پر لے کر جانا پڑے گا۔
 
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کے مختلف اقدامات ہیں کہ ہم اس کو وہاں لے کر کیسے جائیں گے، پہلا تو جو ریونیو اقدامات کا اعلان کیا گیا، اس میں یہ ہے کہ وہ تمام شعبے جو پہلے ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں نہیں تھے، انھیں اس میں لایا جائے، دوسرا یہ تھا کہ گذشتہ برس 39 کھرب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی، ہمیں اس چھوٹ کو ختم کرنا ہے۔بمحمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں ہم باقی سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لا رہے ہیں، 31، 32 ہزار ریٹیلرز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں اور جولائی سے ان پر ٹیکس کا اطلاق ہوگا۔
 
انہوں نے کہا کہ ہم انفورسمنٹ اور کمپلائنس کی طرف جا رہے ہیں، سسٹم میں جو خامیاں ہیں، قوانین پہلے سے موجود ہیں لیکن ہم ان کو نافذ نہیں کر پا رہے، اس کے لیے ہمارے ٹیکس اتھارٹی کو بہتر کرنا پڑے گا۔ںوفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اسی طرح ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو تمباکو کی صنعت کے شعبے سے شروع ہونا تھا، اس کے بعد چینی، کھاد، سیمنٹ اور دیگر سیکٹر میں جانا تھا، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا، اس کی وجہ سے جو آمدنی ملنی چاہیے تھی نہیں مل سکی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں ان ساری چیزوں کا ادارک ہے اور ہم ڈیجاٹزیشن کر رہے ہیں تاکہ انسانی عمل و دخل کم ہو، اس کے نتیجے میں شفافیت آئے گی، کرپشن کم ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ کیوں لوگ ایف بی آر کے نیٹ میں نہیں آنا چاہتے؟ اس لیے نہیں آنا چاہتے کہ ہمیں ان اداروں کی جانب سے نوٹسز کے ذریعے ہراساں کیا جاتا ہے۔
 
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم خود مانیٹر کر رہے ہیں کہ ہم آٹومیشن کی طرف کیسے جا رہے ہیں، کیونکہ یہ بہت اہم ہے۔ انہوں نے حکومتی اخراجات کم نہ کرنے سے تنقید پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات درست ہے لیکن حکومتی اخراجات میں دو چیزیں ہیں، جس کے بارے میں ہمیں دیکھنا ہے اور اس کو آگے لے کر جانا ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ جو سب سے آسان چیز ہے کہ جو شعبے صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں، وہاں وفاقی حکومت کو وزارتیں بند کر دینی چاہیں، ان محکموں کو ضم کردینا چاہیے تاکہ خرچہ کم ہو۔
 
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ ریاستی ملکیتی ادارے ہیں، اس کا خسارہ کون برداشت کر رہا ہیں، آپ لوگ برداشت رہے ہیں، جو لوگ کہتے ہیں کہ سرکاری ملکیتی اداروں کو چلنے دیا جائے، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے 622 ارب روپے کے واجبات حکومت پاکستان کو منتقل ہوئے ہیں، اس کا قصور وار کون ہے، لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے تنخواہ دار طبقے کو اور مینوفیکچرنگ کو ریلیف نہیں دیا، کہاں سے ریلیف دیں، اگر یہ 650 ارب روپے بچتے تو ریلیف دیتے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ کی بات ہے، اسلام آباد ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ جولائی، اگست میں ہو جائے گی، اس کے علاوہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ کراچی اور لاہور کے ہوائی اڈوں بھی نجی شعبے کو دے دیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اگر اس ملک نے آگے جانا ہے تو سب کچھ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنا پڑے گا، ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس ملک کو ریلیف چاہیے، اور انشا اللہ ہم ریلیف دیں گے، تو حکومت کا جتنا بوجھ ہے، ہمیں اس کو کم کرنا ہوگا اور ہم اس کو کم کرنے جا رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1142390
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش