0
Thursday 27 Jun 2024 20:23

نئی دہلی، جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اہم اجلاس

نئی دہلی، جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اہم اجلاس
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کے سہ روزہ اجلاس نئی دہلی میں جماعت اسلامی کے مرکز میں منعقد ہوا، جس میں حالیہ دنوں بھارت میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات اور اس کے نتائج کے حوالے سے متعدد قراردادیں پاس کی گئیں۔ اجلاس میں کہا گیا کہ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا احساس ہے کہ اس بار پارلیمانی انتخاب میں عوام کا مینڈیٹ بہت واضح ہے۔ یہ مینڈیٹ آمریت کے مقابلے میں جمہوریت، فسطائیت و فرقہ پرستی کے بالمقابل دستوری اقدار، نفرت و تفریق کے مقابلے میں رواداری و تکثیریت اور تکبر کے بجائے انکساری کے حق میں ہے۔ شوریٰ کا احساس ہے کہ عوام نے حکمراں پارٹی کو دوبارہ اقتدار نہیں دیا ہے بلکہ ’’این ڈی اے‘‘ کی مخلوط حکومت اور ایک مضبوط اپوزیشن کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ موجودہ حکومت کے ذمہ داروں کو اس عوامی مینڈیٹ کو اچھی طرح سمجھنا چاہیئے اور اس کے مطابق اپنے رویوں میں مناسب اصلاحات پیدا کرنی چاہیئے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ شوری کا یہ بھی احساس ہے کہ جہاں ملک کے شمالی اور مغربی حصوں میں بی جے پی کو اپنی فرقہ پرست پالیسیوں کی وجہ سے نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ وہیں جنوب میں اس کی پکڑ مضبوط ہوئی ہے۔ جنوب کی ریاستوں کے عوام کی یہ ذمہ داری بڑھ گئی ہے کہ وہ اپنی ریاستوں میں فرقہ پرستی اور نفرت و تعصب کے اُس زہر کو عام ہونے نہ دیں، جس نے ملک کے بقیہ علاقوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ ملک کی ایک بڑی ریاست اترپردیش جہاں گزشتہ کئی سالوں سے مذہبی منافرت کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد کا ماحول بنایا جا رہا تھا، مسجد و مندر کے نام پر دو طبقوں کے بیج دراڑ پیدا کی جارہی تھی اور قانون کی حکمرانی کے بجائے ظلم و جبر اور تعصب اور قانون کے جانب دارانہ استعمال کی عام فضا پیدا کردی گئی تھی، وہاں ریاستی عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے اس شرانگیز رجحان سے برائت و بیزارگی کا واضح اظہار کردیا ہے۔

مرکزی مجلس شوریٰ اپوزیشن کی جماعتوں سے بھی مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ان نتائج اور اس کے مینڈیٹ کو سمجھیں۔ سیکولر پارٹیاں اپنے پارٹی مفادات اور ذاتی انا سے بلند ہوکر ایک الائنس کی شکل اختیار نہیں کرتیں تو انہیں یہ کامیابی ہرگز نہیں ملتی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عوام کا اپوزیشن پر اعتماد اُس وقت پیدا ہوا، جب اس نے فرقہ پرستی، فسطائی رجحان اور نفرت و تفریق کی سیاست کے خلاف واضح اور جراتمند موقف اختیار کیا۔ جن ریاستوں میں وہ فرقہ پرستی کے خلاف واضح موقف کے ساتھ سامنے آئے وہاں انہیں کامیابی ملی اور جہاں جہاں تذبذب، خوف و دباؤ اور لالچ و مفاد کی نفسیات کے شکار رہے وہاں انہیں اس بار بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ حالیہ انتخابات میں سول سوسائٹی کی غیر معمولی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، جس نے خاموشی اور حکمت و دانائی کے ساتھ ملک میں جمہوریت کے استحکام اور فرقہ وارانہ امن و ہم آہنگی کی بقا اور ظالمانہ پالیسیوں کی روک تھام کے لئے مسلسل اور ہمہ گیر جدوجہد کی اور عوامی شعور کو بیدار کیا۔ اسی طرح دلت اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے بھی اس بارعوام کو درپیش بنیادی مسائل اور دستور کے تحفظ کو پیش نظر رکھ کر اپنی ترجیحات طے کیں اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔

اجلاس کی ایک اور قرارداد میں کہا گیا کہ مرکزی مجلس شوریٰ محسوس کرتی ہے کہ انتخابات میں مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی بڑی دانش مندی، حکمت، مومنانہ بصیرت اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ انہیں الیکشن کے دوران ورغلانے، مشتعل کرنے اور ان کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی منظم اور مسلسل کوششیں ہوتی رہیں، لیکن انہوں نے اس جال سے خود کو محفوظ رکھا اور بہت سلیقے اور بیدار مغزی کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ یہ اجلاس اس کے لئے انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہے اور ملک کے موجودہ حالات میں آئندہ بھی اسی دانش مندانہ رویے کو جاری رکھنے کی اپیل کرتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی دینی و ملی جماعتوں، سماجی اداروں، دانشوروں، نوجوانوں اور دیگر افراد کی منظم اور فعال کوششوں کو بھی تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان سب کے حق میں دعائے خیر کرتا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے وابستگان نے بھی اپنی دیرینہ پالیسی اور روایات کے مطابق ملک کے تمام طبقات کے لئے عدل و قسط کے حصول اور امن و امان کے قیام اور فتنہ و فساد کے ازالے کے لئے مسلسل اور ہمہ جہت کوشش کی ہے۔ جماعت اسلامی نے کہا ’’ہم اپنے عزیز وابستگان کی اس جدوجہد کی بھی دل کی گہرائیوں سے ستائش کرتے ہیں اور ان کوششوں کو جاری رکھنے کی اپیل کے ساتھ ان کے لئے اجر عظیم کی دعا کرتے ہیں‘‘۔

قرارداد میں کہا گیا کہ مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس مرکزی حکومت اور حزب اختلاف دونوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عوام کے اس مینڈیٹ کا احترام کریں، عوام کے بنیادی سوالات اور مسائل پر پوری سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں اور جمہوری قدروں اور روایات کو پیش نظر رکھیں۔ اجلاس یاد دلاتا ہے کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کا یکساں احترام کرے اور ملک میں فرقہ واریت اور طبقاتی کش مکش پیدا نہ ہونے دے۔ اجلاس میں مزید کہا گیا ہے کہ جب کوئی پارٹی یا الائنس حکومت بنا لیتا ہے تو وہ ملک کے تمام عوام کے وسائل کا امین بن جاتا ہے اور اس پر سب کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ان لوگوں کی بھی جنہوں نے اسے ووٹ دیا تھا اور ان لوگوں کی بھی جنہوں نے اس سے اختلاف کیا تھا لہذا حکومت کو ملک کے شہریوں کے درمیان کوئی تفریق و امتیاز نہیں برتنا چاہیئے۔

قرارداد میں مزید کہا گیا کہ مجلس شوریٰ یہ سمجھتی ہے کہ اس وقت ’’این ڈی اے‘‘ میں شامل سیکولر سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اگر وہ حکومت کی تائید کررہی ہیں تو اپنے اصولوں کی وجہ سے یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ حکومت جمہوری اقدار و روایات کی سختی سے پابندی کرے، جمہوری اداروں کی خود مختاری اور عوام کے جمہوری حقوق اور آزادیوں میں دست درازی سے باز آجائے اور ملک کے ہر طبقے کی مشکلات و مسائل کو سنجیدگی سے حل کرے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ کرونی کیپٹلزم اور متعصب فرقہ پرستی کی پالیسیوں کو ترک کرتے ہوئے ایسی پالیسیوں کو فروغ دیا جائے جن سے وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو اور سماج کے کمزور و پس ماندہ طبقات کا امپاورمنٹ ہو ساتھ ہی ساتھ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کا بھرپور احترام کرتے ہوئے ان کے اعتماد کو بحال کیا جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 1144228
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش