0
Tuesday 18 Jun 2024 22:38

یورپ میں لاقانونیت اور انارکی کا آغاز

یورپ میں لاقانونیت اور انارکی کا آغاز
تحریر: علی احمدی
 
تاریخ میں جتنے بھی بڑے سیاسی انقلاب رونما ہوئے ہیں ان کے مطلوبہ اہداف اور افق پوری طرح عام لوگوں تک پہنچنے میں کم از کم دس سال کا عرصہ لگا ہے۔ شروع میں رونما ہونے والے حالات محض مرحلہ وار واقعات کے روپ میں دیکھے جاتے تھے اور اس بات کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی تھی کہ اس انارکی اور ہنگامہ آرائی کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ جب انقلاب کا مرحلہ ختم ہو جاتا اور تاریخ کی نگارش کا مرحلہ شروع ہوتا تو اس وقت ایسے مختلف اسباب اور نتائج کی وضاحت پیش کی جا سکتی تھی جو قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کرتے تھے۔ انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کیلئے ضروری وقت کی ایک تاریخی مثال روم کا زوال ہے جو تقریباً 18 سال تک جاری رہا۔ جولیئس سزار کی جانب سے روبیکن دریا عبور کر جانے کے بعد خانہ جنگی کا آغاز ہوا سزار کے قتل کے بعد تقریباً 15 سال تک عدم استحکام اپنے عرج پر تھی۔
 
آخرکار 49 قبل مسیح میں ایکٹاویوس نے معروف ایکٹیم معرکے میں مارکوس اینٹینیوس اور کلوپترا کی فوج پر فتح حاصل کی۔ اسی طرح 1649ء میں برطانیہ اس انقلاب کے بعد لاقاونیت اور انارکی کا شکار ہو گیا جس کا نتیجہ چارلس اول کی سزائے موت کی صورت میں نکلا۔ یہ انارکی 11 سال جاری رہی جس کے بعد چارلس دوم نے نئی حکومت قائم کر کے اس کا خاتمہ کر دیا۔ امریکہ کی جنگ آزادی بھی تقریباً 14 سال تک جاری رہی جس کے نتیجے میں 1783ء میں اس کی تمام ریاستوں نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور پہلا آئین 1789ء میں منظور کیا گیا۔ اسی سال فرانس میں بھی انقلاب رونما ہوا۔ فرانس میں انقلابی تبدیلیاں تقریباً 15 سال تک جاری رہیں اور آخرکار نیپولین بناپارٹ نے گذشتہ سلطنت کے ویرانوں پر ایک نئی طاقتور سلطنت قائم کر دی۔
 
شاید آج بھی عالمی سطح پر ایسا ہی ایک انقلاب برپا ہوا ہے۔ ممکن ہے یہ انقلاب زیادہ نظروں میں نہ آیا ہو کیونکہ اب تک وہ صرف نرم طاقت اور سیاسی میدان میں رونما ہوا ہے۔ 2016ء میں دو اہم واقعات رونما ہوئے: ایک یورپی یونین سے علیحدگی کیلئے برطانیہ میں ریفرنڈم کا انعقاد (بریگزٹ) اور دوسرا امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر منتخب ہونا تھا۔ یہ وہ سال تھا جسے لبرلزم کے حامی جمہوریت کیلئے وحشت ناک قرار دیتے تھے جا کا نتیجہ براعظم یورپ کا مہاجرین کے بحران سے روبرو ہونا تھا۔ اس سال مشرق وسطی میں جنگ کا شکار علاقوں خاص طور پر عراق اور شام سے بڑی تعداد میں مہاجرین نے یورپ کی جانب نقل مکانی کی۔ یہ وہ علاقے تھے جہاں 2015ء میں داعش اپنا اثرورسوخ پھیلا چکی تھی۔ مزید برآں، 2014ء میں کریمہ جزیرہ یوکرین سے علیحدہ ہو کر روس سے الحاق کر چکا تھا۔
 
یہ موارد وقت کے اس معیار سے مطابقت رکھتے ہیں جس کا ذکر ہم تاریخی مثالیں بیان کرتے وقت کر چکے ہیں۔ ان اہم واقعات کو انجام پائے تقریباً 10 سال گزر چکے ہیں اور دنیا آخری فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جو عام طور پر 15 سے 18 برس تک جاری رہتا ہے۔ 2014ء سے 2016ء کے درمیان کئی دیگر سیاسی شعبوں میں بھی ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جو ماضی سے مختلف تھیں۔ یورپی رہنماوں نے صرف اس وقت سکھ کا سانس لیا جب ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن میں ہار گیا اور برطانیہ بھی یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کیلئے برا معاہدہ انجام دینے پر مجبور ہو گیا۔ اس کے باوجود گذشتہ چند برس میں رونما ہونے والے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دائیں بازو کی انتہاپسند سیاسی جماعتیں اس وقت پورے یورپ میں ایک اہم سیاسی طاقت کے طور پر ظاہر ہو چکی ہیں۔
 
یورپی پارلیمنٹ کے حالیہ الیکشن کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس براعظم کی تاریخ میں فیصلہ کن موڑ آ چکا ہے کیونکہ حالات معمول کی جانب واپس جانے کا کوئی امکان نہیں پایا جاتا اور لبرل رہنماوں کا وہ طبقہ جو گذشتہ چند عشروں سے یورپی یونین پر حکمفرما رہا ہے سیاست، اقتصاد اور ثقافت کے شعبوں میں سنجیدہ اور پریشان کن مخالفین سے روبرو ہو چکے ہیں۔ سب سے اچھی صورتحال میں ممکن ہے وہ یورپی پارلیمنٹ میں کم اکثریت حاصل کر لیں لیکن ایسی صورت میں بھی دائیں بازو کے انتہاپسند عناصر کے خلاف شدید اقدامات انجام دینا ممکن نہیں رہے گا اور یورپی حکومتیں ان سے مذاکرات کر کے انہیں بہت سی مراعات دینے پر مجبور ہو جائیں گی۔ فرانس کے مڈٹرم الیکشن میں بھی ممکن ہے میرین لوپن پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر کے حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائے۔ یوں یورو خطے میں اہم ترین نتیجہ اس کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔
 
یورپ کا سیاسی منظرنامہ دباو اور سازباز پر مشتمل ملی جلی پالیسی سامنے آنے کی عکاسی کر رہا ہے جو ایک طرف بہت مشکل بھی ہے اور دوسری طرف اس کے منفی اثرات بھی ظاہر ہوں گے۔ یورپی یونین میں جمہوریت کا عمل سست روی کا شکار ہو جائے گا اور قانون کی حکمفرمائی میں سنجیدہ رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی۔ یوں سیاسی جمود کے باعث مدنظر اہداف کا حصول بھی مشکل ہوتا جائے گا۔ اس سوال کا جواب دینا بہت مشکل ہے کہ یورپ جس بند گلی سے روبرو ہے اس سے نجات کیسے ممکن ہے؟ اس وقت غیر متوقع طور پر 2022ء کی نسبت کہیں زیادہ شک و تردید پائی جاتی ہے۔ یہ شک و تردید اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں یورپی پارلیمنٹ کے الیکشن میں دائیں بازو کے انتہاپسند سیاست دانوں کو حیرت انگیز طور پر بہت زیادی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1142444
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش