0
Saturday 27 Apr 2024 13:02

ایرانی صدر کا دورہ پاکستان، پس پردہ حقائق اور مضمرات

ایرانی صدر کا دورہ پاکستان، پس پردہ حقائق اور مضمرات
 تحریر: تصور حسین شہزاد

ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کے دورہِ پاکستان کی دھوم تاحال مچی ہوئی ہے۔ پوری دنیا میں ایرانی صدر کا دورہِ پاکستان ہی زیربحث ہے۔ اس کے مقاصد، اہداف، مضمرات اور ثمرات پر گفتگو ہو رہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے تمام پروگرامز میں ایرانی صدر کا دورہ ہی موضوع گفتگو رہا۔ تقریباً تمام چینلز نے اس دورے کو مفید اور اہم قرار دیا۔ اس دورے کے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ ایرانی صدر کا دورہ پاکستان تین دنوں پر مشتمل تھا۔ ایک دن انہوں نے اسلام آباد میں گزارا، وہاں انہوں نے آرمی چیف، صدر مملکت اور وزیراعظم پاکستان سمیت دیگر حکام کیساتھ ملاقاتیں کیں۔ مختلف معاشی و ثقافتی ایم او یوز پر دستخط ہوئے۔ بہت سے معاہدوں پر اتفاق کیا گیا۔

اس کے بعد وہ لاہور پہنچے۔ لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کابینہ کے ارکان کے ساتھ ایئرپورٹ پر اُن کا استقبال کیا۔ وہاں سے وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی پہنچے اور ایک خصوصی نشست سے خطاب کیا۔ بعدازاں مزار اقبالؒ پر حاضری دی۔ پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر انہوں نے مختصر گفتگو بھی کی۔ جس میں انہوں نے ملتِ پاکستان کی فلسطین کے مظلوم عوام کیساتھ بھرپور حمایت پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ فلسطین کی بہت جلد آزادی کی خوشخبری سنائی۔ ایرانی صدر نے مزار اقبالؒ پر کھڑے ہو کر اپنی اس حسرت کا اظہار بھی کیا کہ ان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ پاکستان کے عوام سے براہ راست خطاب کرتے، مگر عوام سے مخاطب ہونے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد ان کے اعزاز میں گورنر ہاوس میں ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ وہاں ایرانی صدر سے گورنر پنجاب بلیغ الرحمان اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے الگ الگ ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں میں پاک ایران تعلقات کی بہتری، تجارت سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز ایران کیساتھ بہتر تجارتی تعلقات کی خواہشمند ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ایرانی سرمایہ کار پنجاب میں آکر سرمایہ کاری کریں، یہاں سے گوشت سمیت دیگر پاکستانی مصنوعات ایران بھجوائی جائیں۔

ایرانی صدر لاہور کے دورے کی تکمیل کے  بعد کراچی پہنچے، جہاں انہوں نے گورنر سندھ کامران ٹیسوری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ملاقاتیں کیں۔ ایرانی صدر کے اعزاز میں کراچی یونیورسٹی میں خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جہاں انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے بھی نوازا گیا۔ پاکستان کا تین روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد ایرانی صدر سری لنکا روانہ ہوگئے۔ ان کے پاکستان میں گزرے یہ تین دن انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ امریکہ و اسرائیل سمیت دنیا بھر کی نظریں اس دورے پر تھیں۔ یہ دورہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ ایران اسرائیل جنگ کے بادل گھنے ہوچکے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر حملے کرچکے ہیں۔ پراکسیز کے ذریعے بھی جنگ مسلسل جاری ہے۔ اس صورتحال میں کچھ مبصرین اس دورہ کو دوسری نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایرانی صدر کا یہ دورہ پاک ایران تعلقات کی بحالی اور مضبوطی کیلئے تو تھا ہی، لیکن اس دورے کا مقصد ایک اور پیغام دینا بھی تھا اور وہ پیغام یہ تھا کہ پاکستان کو احساس ہوگیا ہے کہ اس کے تمام تر مسائل کا ذمہ دار امریکہ ہے۔

امریکہ نے ہی پاکستان کو آئی ایم ایف کے در پر لا پھینکا ہے۔ اتنا مجبور کر دیا ہے کہ ہمارے تمام مسائل معاشی مشکلات کے باعث بڑھ چکے ہیں۔ موجودہ حکومت جس کے حوالے سے بعض حلقے کہتے ہیں کہ منتخب نہیں، لیکن بہرحال اقتدار کی زمام تو انہیں کے ہاتھ میں ہے، موجودہ وزیراعظم اور آرمی چیف دونوں چاہتے ہیں کہ ملک کو معاشی بحران سے نجات دلائی جائے۔ ملک میں استحکام ہو، امن و امان کی صورتحال بہتر ہو، عوام خوشحال ہوں، دیس کا ہر بچہ قرض کی لعنت سے باہر نکل کر آزاد زندگی گزارے، مگر آئی ایم ایف اور اس کے ’’کارندے‘‘ پاکستان میں خوشحالی نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ کارندے پاکستان کی بیوروکریسی میں موجود ہیں۔ یہ ہر حکومت کو ’’مجبور‘‘ کر دیتے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کے در پر سجدہ ریز ہو، حتیٰ عمران خان جب وزیراعظم تھے، انہوں نے کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے در پر جانے کی بجائے خودکشی کو ترجیح دیں گے۔ مگر انہیں بھی مجبور کر دیا گیا کہ وہ آئی ایم ایف کے در پر حاضری دیں اور یوں عمران خان کو بھی اپنے بیان سے ’’یوٹرن‘‘ لینا پڑا۔

اس حوالے سے یہ واضح ہے کہ آئی ایم ایف کے ’’پے رول‘‘ پر پاکستان میں ایک مضبوط لابی موجود ہے، جو سرکاری معاشی پالیسی پر اثرانداز ہوتی ہے اور مسلسل ملک کو آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اداروں کا غلام رکھنے کیلئے کوشاں ہے۔ اس حوالے سے مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے حکمران اب اس غلامی سے نکلنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کا بیانیہ بھی یہی تھا کہ ملک و قوم کو امریکی غلامی اور عالمی مالیاتی اداروں کے چُنگل سے نکالنا ہے۔ اب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دینا۔ اس کیلئے عمران خان کا بیانیہ موجودہ حکمرانوں کے ذریعے عوام تک پہنچا کر عوامی حمایت کا رُخ موڑا جائے گا۔ اس کیلئے مبصرین کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کو اجازت دیدی ہے کہ وہ چین، ایران، سعودی عرب اور روس سے رابطہ کرے اور آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات کیلئے ان سے تعاون مانگا جائے۔

اگر یہ بلاک اس معاملے میں پاکستان کی مدد کرتا ہے اور پاکستان کو امریکی و آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات دلواتا ہے، تو اس بلاک میں شمولیت اختیار کرکے امریکہ کو ’’گڈ بائے‘‘ کہہ دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کے صدر کے دورے کے موقع واضح طور پر حکومت نے پاکستان کے معاشی مسائل ایرانی صدر کے سامنے رکھے اور فوری طور پر میاں نواز شریف کو چین کے دورے پر بھیج دیا گیا کہ وہ وہاں جا کر معاملات طے کریں اور شہباز شریف آج سعودی عرب جا رہے ہیں۔ اسحاق ڈار نے بھی گذشتہ روز اسلام آباد میں بڑی دبنگ گفتگو کی اور امریکہ کو پاکستان کے معاملات میں ٹانگ نہ اڑانے کا مشورہ دے دیا۔ وزیر خارجہ کا اتنا سخت بیان پہلی دفعہ سامنے آیا ہے، جو اس جانب اشارہ ہے کہ پاکستان اب امریکی بلاک سے تنگ آگیا ہے۔ ہم اگر ملک کے سیاسی بحران کی بات کریں تو اس میں بھی امریکی دخل اندازی واضح ہے۔

عمران خان کا رجیم چینج ہو یا ملک میں سیاسی عدم استحکام، ہر معاملے کا ’’کُھرا‘‘ واشنگٹن جاتا ہے۔ جس سے اب تمام سیاسی قوتیں جان چکی ہیں کہ امریکہ گیم کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ امریکہ نے بلاول بھٹو کو یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اسے ہی وزیراعظم بنوائے گا، مگر بعد میں نواز شریف کیساتھ ڈیل کرلی۔ یوں آصف علی زرداری امریکہ سے نالاں ہیں اور ایرانی صدر کے دورے کا مقصد امریکہ کو ہی یہ پیغام دینا ہے کہ ہم اپنا ’’قبلہ‘‘ بدل سکتے ہیں۔ اس حوالے سے محب وطن حلقے پہلے دن سے امریکی بلاک میں پاکستان کی موجودگی کو پسند نہیں کرتے، ان حلقوں کا کہنا ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کو مشرق وسطیٰ کا بلاک ہی سُوٹ کرتا ہے۔

اس حوالے سے پاکستان کو روس، چین، ایران اور سعودی عرب کا ساتھ دینا چاہیئے اور اس بلاک میں شامل ہو کر ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنانا چاہیئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اسی نظریئے کے مطابق پاکستان کو مسائل سے نجات دلا کر اسے مشرق وسطیٰ کے بلاک میں شامل کرکے امریکہ کو خدا حافظ کہہ دیا جائے۔ اس سے ہم بہت سے مسائل سے نجات پا لیں گے۔ کیونکہ امام خمینیؒ نے فرمایا تھا کہ ’’امریکہ کی دوستی، اس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔‘‘ دوستی میں ہم جتنا نقصان اٹھا رہے ہیں، شائد دشمنی میں اتنا نقصان نہ ہو۔ کیونکہ افغان طالبان نے دشمنی کرکے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ سے نجات پانے میں ہی بقاء کا راز مضمر ہے اور اس وقت افغانستان کی معاشی حالت پاکستان کی نسبت بہتر ہے اور ایسا صرف اور صرف امریکہ سے جان چھڑوانے سے ممکن ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1131466
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش