1
Tuesday 7 May 2024 21:42

امریکی صدارتی الیکشن پر فلسطین کی حامی طلبہ تحریک کے اثرات

امریکی صدارتی الیکشن پر فلسطین کی حامی طلبہ تحریک کے اثرات
تحریر: علی احمدی
 
امریکہ میں ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں غزہ پر صیہونی جارحیت کے خلاف اور مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں طلبہ احتجاجی تحریک بدستور جاری ہے۔ اگرچہ امریکی پولیس اور سکیورٹی فورسز نے احتجاج کرنے والے یونیورسٹی طلبہ کے خلاف شدید تشدد آمیز اقدامات انجام دیے ہیں اور اب تک 2700 کے لگ بھگ طلبہ گرفتار بھی کئے جا چکے ہیں لیکن طلبہ رہنماوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جب تک غزہ میں جنگ بندی برقرار نہیں ہوتی وہ اس احتجاجی تحریک کو جاری رکھیں گے۔ دوسری طرف آئندہ چھ ماہ میں امریکہ میں نئے صدارتی الیکشن بھی منعقد ہونے والے ہیں جس میں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے حالیہ امریکی صدر جو بائیڈن امیدوار ہیں۔ یہ الیکشن غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات کے ساتھ ساتھ امریکی یونیورسٹیوں میں جاری فلسطینیوں کے حق میں طلبہ احتجاجی تحریک سے بھی شدید متاثر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
 
حال ہی میں امریکی نیوز ویب سائٹ "Axios" نے امریکہ میں یونیورسٹی طلبہ کا احتجاج مزید شدت اختیار کر جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ یہ صورتحال اس ملک میں 2024ء کے صدارتی انتخابات پر موثر واقع ہو گی اور یہی چیز ڈیموکریٹ سیاسی رہنماوں کے خوف کا باعث بن چکی ہے۔ یہ ویب سائٹ مزید لکھتی ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حامیوں کا احتجاج مزید شدت اختیار کر جانے کے بعد ایوان نمائندگان اور سینٹ میں ڈیموکریٹک اراکین کی پریشانی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایکسیس اس بارے میں لکھتی ہے: "فلسطین کے حامی یونیورسٹی طلبہ کے احتجاج نے ایسی سیاسی لہر پیدا کر دی ہے جو 7 اکتوبر 2023ء کے دن حماس کے حملے کے بعد شروع ہوئی ہے اور امریکہ کے 2024ء صدارتی انتخابات کے نتائج پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔"
 
ویب سائٹ ایکسیس مزید لکھتی ہے: "ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک رکن نے ایکسیس کو بتایا کہ یہ احتجاج جس قدر طول پکڑے گا اسی قدر انتخابات میں ہماری پوزیشن کمزور ہوتی جائے گی۔" امریکہ کے کچھ دیگر ذرائع ابلاغ نے بھی اس بارے میں حکمران پارٹی اور امریکی صدر کو خبردار کیا ہے۔ برطانوی اخبار گارجین نے گذشتہ ہفتے بدھ کے دن لکھا: "ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں امریکی صدر اور ڈیموکریٹس کی پالیسیاں، جو ہزاروں یونیورسٹی طلبہ کے احتجاج کا باعث بن چکی ہیں، امریکی جوانوں کے انتخاب پر موثر واقع ہو سکتی ہیں جس کے باعث ممکن ہے امریکی جوان جو بائیڈن کو ووٹ نہ دیں اور ان کا دوبارہ صدر بننا خطرے میں پڑ جائے۔" پینسلوانیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیناتھن زیمرمین اس بارے میں کہتے ہیں: "جو بائیڈن کیلئے حقیقی خطرہ یہ ہے کہ جوان ووٹرز، خاص طور پر یونیورسٹی طلبہ الیکشن میں حاضر نہ ہوں۔"
 
یہ خطرہ اس وقت مزید سنجیدہ ہو کر سامنے آتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ جو بائیڈن کا حامی اور معتدل تصور کئے جانے والی تنظیم "کالج ڈیموکریٹس آف امریکہ" (CDA) نے بھی گذشتہ ہفتے منگل کے روز اپنی پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنے بیانیہ میں اعلان کیا کہ اگر ڈیموکریٹ رہنما متحدہ طور پر غزہ میں مستقل جنگ بندی، مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی راہ حل اور خودمختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حمایت کرنے میں ناکام ہو گئے تو روز بروز مزید جوان اس پارٹی سے مایوس ہوتے جائیں گے۔ بیانئے کے ایک حصے میں ڈیموکریٹک پارٹی میں طلبہ نمائندوں کے بقول کہا گیا ہے: "ہم سب جوان ووٹر کے طور پر بخوبی جانتے ہیں کہ نومبر میں صدارتی الیکشن منعقد ہونے والے ہیں اور اس بات کا فیصلہ ہمارا ووٹ کرے گا کہ کون وائٹ ہاوس جائے اور کون نہ جائے۔"
 
ان طلبہ نمائندوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وائٹ ہاوس نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی حمایت کر کے اور جنگ بندی پر مبنی تمام امریکی شہریوں کے مطالبے کو پس پشت ڈال کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ لہذا سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی غیر مشروط حمایت اور غزہ میں جنگ بندی کروانے میں انتہائی کمزور کارکردگی کے باعث امریکی ووٹرز میں جو بائیڈن کے خلاف شدید غصہ پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں 2024ء کے صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کی شکست کا سنجیدہ خطرہ موجود ہے۔ امریکی عوام سمجھتے ہیں کہ بائیڈن حکومت نے یونیورسٹی طلبہ اور عوام کی جانب سے غزہ پر صیہونی جارحیت کی پرزور مذمت اور اس کے خلاف شدید احتجاج کے باوجود اسرائیل کیلئے وسیع بجٹ مقرر کیا ہے۔
 
ان کی نظر میں امریکی صدر کا یہ اقدام اپنے ووٹرز اور ٹیکس دہندگان کی آواز اور مرضی سے بے اعتنائی کرتے ہوئے صیہونی لابیوں کی مرضی کو اپنے عوام کی مرضی پر ترجیح دینا ہے۔ یوں امریکہ میں نئے صدارتی الیکشن سے کچھ ماہ پہلے امریکی جوان جو بائیڈن سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اخبار یو ایس ٹوڈے نے کچھ ہفتے قبل مختلف سروے رپورٹس کے نتائج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ امریکی جوانوں میں جو بائیڈن کی محبوبیت گرتی جا رہی ہے اور یہ حقیقت 2024ء کے صدارتی الیکشن میں اس ڈیموکریٹک سیاست دان کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اسی طرح ہارورڈ یونیورسٹی نے 18 سے 29 سال کے درمیان عمر والے 20 ہزار جوانوں سے سروے انجام دیا تھا جس کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ جوانوں میں جو بائیڈن کی محبوبیت بہت کم ہوتی جا رہی ہے۔ حال ہی میں سیفولک یونیورسٹی نے بھی ایک سروے انجام دیا جس کے مطابق 35 سال سے کم عمر والے امریکی ووٹرز کے درمیان ڈونلڈ ٹرمپ کی محبوبیت جو بائیڈن سے زیادہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 1133442
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش