0
Tuesday 7 May 2024 11:13

مغرب میں فلسطین بیداری

مغرب میں فلسطین بیداری
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

تاریخ فلسطین میں سات اکتوبر سنہ2023ء ایک اہم دن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ یہ وہ دن ہے کہ جس نے فلسطین کی تاریخ میں فلسطین کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس دن کی بدولت ہی فلسطین کا مسئلہ آج دنیا کے سامنے سب سے بڑا اور اہم مسئلہ بن کر ابھر رہا ہے، جبکہ سات اکتوبر سے قبل کی دنیا میں صرف اور صرف فلسطین کے خلاف سازشیں تھیں اور ان سازشوں کا مرکز مسئلہ فلسطین کو فراموش کرنا اور دنیا کے اذہان میں مخفی کرنا تھا۔ آج کی دنیا سات اکتوبر سے پہلے کی دنیا سے بالکل مختلف ہے۔ آج فلسطین دنیا کے ہر انسان کے لئے مرکز اور محور کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ عالمی سیاست کا مرکز و محور بھی فلسطین ہے۔

مغربی دنیا میں گذشتہ سات ماہ میں بڑے بڑے عوامی احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی گئی ہیں اور ان سب کا بنیادی مقصد غزہ پر امریکی و اسرائیلی جارحیت کو بند کروانا تھا۔ لیکن حال ہی میں فلسطین کی بیداری نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے اور یونیورسٹیوں میں انقلاب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ کولمبیا کی یونیورسٹی سے فلسطین کی حمایت میں شروع ہونے والا احتجاج آج پورے امریکہ میں اور یورپ کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے۔ امریکی حکومت اپنے ہی شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ فلسطین کے حق میں احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ طالب علموں کو یونیورسٹیوں سے نکالا جا رہا ہے۔من گھڑت اور جھوتے مقدمات بنا کر طلباء کو گرفتار کرکے سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔ یہ سب امریکی حکومت اس لئے کر رہی ہے، کیونکہ احتجاج کرنے والوں کا امریکی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ غزہ پر جارحیت بند کرو۔

امریکی عوام اور خاص طور پر طلباء برادری کی اس بیداری نے نہ صرف امریکہ کی دیگر ریاستوں میں بیداری کی لہر کو پیدا کیا ہے بلکہ یورپ سمیت افریقا اور لاطینی امریکا کے ممالک سمیت ایشیائی ممالک میں بھی امریکی طلباء کے ساتھ یکجہتی کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں کے طلباء کا دفاع کرنے اب ان یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی میدان میں نکل آئے ہیں۔ امریکہ کی سڑکوں پر اساتذہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گرفتار کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بیداری تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ ایک ریاست سے دوسری ریاست اور تیسری ریاست سے نکلتے ہوئے یہ فلسطین کی حمایت کے مظاہرے تمام ریاستوں میں موجود یونیورسٹیوں میں پہنچ چکے ہیں۔

امریکی حکومت پریشانی کے عالم میں ہے کہ اس مرتبہ امریکی شہریوں کو یہ علم ہوچکا ہے کہ اسرائیل کی سرپرستی کرنے والی امریکی حکومت ہی دراصل غزہ میں نسل کشی کی ذمہ دار ہے۔ امریکی جامعات کے طلباء امریکی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ غزہ پر جارحیت بند کی جائے، اسرائیل کو امریکہ کی جانب سے اربوں ڈالر کا سالانہ اسلحہ دینا بند کیا جائے اور اسی طرح اکیڈمک فورم پر تمام یونیورسٹیوں میں اسرائیل کے ساتھ کئے گئے اکیڈمک معاہدوں اور سائنس کی فیلڈ میں ترقیاتی منصوبوں کو روک دیا جائے اور اسرائیل جیسی دہشت گرد اور قاتل ریاست کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعاون نہ کیا جائے۔

حقیقی طور پر امریکی شہریوں اور طلباء سمیت اساتذہ نے ثابت کیا ہے کہ وہ انسان ہیں اور انسانیت کے ساتھ ہیں۔ امریکی طلباء کے احتجاج نے امریکہ کے لبرلزم اور آزادی اظہار کے کھوکھلے دعووں کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے۔ امریکی حکومت انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کی مرتکب ہو رہی ہے اور پوری دنیا کے سامنے امریکی گھناؤنا چہرہ بھی آشکار ہو رہا ہے۔ امریکی طلباء نے اپنے انسان دوست ہونے کا حق ادا کیا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو کام مسلمان ممالک کی جامعات سے ہونا چاہیئے تھا، وہ نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان سمیت دیگر مسلمان ممالک کی جامعات میں ایسی خاموشی طاری ہے کہ جیسے غزہ میں کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ کچھ مقامات پر طلباء نے اپنے تئیں کچھ کوشش کی ہے، لیکن ان کوششوں کو مزید پختگی کے ساتھ جامع بنانے کی ضرورت ہے۔

آج امریکی یونیورسٹیوں کے اساتذہ فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر پولیس کے تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں، لیکن پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک کی جامعات کے اساتذہ اس پوری بیداری کی تحریک میں کسی مقام پر بھی کھڑے نظر نہیں آرہے۔ طلباء اور اساتذہ کو چاہیئے کہ اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھیں اور فلسطین کی خاطر متحد ہو جائیں اور پاکستان کی نظریاتی روح کے ساتھ یہ ثابت کریں کہ پاکستان کے طلباء اور اساتذہ بھی فلسطینی عوام کی حمایت سے کسی طرح پیچھے نہیں ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1133403
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش