0
Sunday 5 May 2024 16:53

امریکی کانگریس سے آواز

امریکی کانگریس سے آواز
تحریر: سید رضا میر طاہر

امریکی کانگریس کے 88 ڈیموکریٹک نمائندوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے ایک خط میں اسرائیل کو جارحانہ ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی کانگریس کے نمائندوں نے جو بائیڈن کے نام لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے لیے انسانی امداد بھیجنے کے راستے پر جو پابندیاں عائد کی ہیں، وہ ایک بے مثال انسانی تباہی کا باعث بنی ہیں۔ ان نمائندوں نے اپنے خط میں تاکید کی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ غزہ میں انسانی امداد بھیجنے میں صیہونی حکومت کی پابندیاں امریکہ کے قوانین کی واضح خلاف ورزی ہیں۔

سینیٹر کرس وان ہولن اور امریکی سینیٹ کے متعدد ارکان نے بھی امریکی کانگریس کے ان 88 نمائندوں سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس وقت تک اپنی کوشش جاری رکھیں گے، جب تک اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں کرتے اور امریکی حکومت اسرائیل کو مزید جارحانہ ہتھیاروں کو بھیجنے سے گریز نہیں کرتی۔ اس سے پہلے امریکی ڈیموکریٹک نمائندوں کی ایک قابل ذکر تعداد کی طرف سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت روکنے کی درخواست دی گئی تھی۔ چالیس ڈیموکریٹک قانون سازوں نے اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن سے صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت بند کرنے کا کہا تھا۔

امریکی کانگریس کے ان 40 ارکان نے، جن میں ایوان نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی بھی شامل ہیں، بائیڈن سے ایک خط میں صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت روکنے اور اس حکومت کے لیے واشنگٹن کی امداد کو مشروط کرنے کا مطالبہ کیا۔ امریکی کانگریس کے ڈیموکریٹک نمائندوں کی طرف سے اس خط پر دستخط کرنا، خاص طور پر پیلوسی، جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی تاریخ کے اہم ترین ڈیموکریٹس میں سے ایک ہیں اور کئی دہائیوں سے امریکہ اسرائیل تعلقات کی کلیدی محافظ رہی ہیں، ظاہر کرتی ہے کہ غزہ پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کی فوج کے وحشیانہ اقدامات اور جرائم کی وجہ سے اسرائیلی حکومت امریکی عوام اور اس ملک کی ڈیموکریٹک پارٹی کی نظروں میں کس حد تک گر گئی ہے۔

ایک آزاد امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے بھی اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر انسانی امداد پر مشتمل ہزاروں ٹرک غزہ کی پٹی میں داخل نہ ہوئے تو صیہونی حکومت کو دی جانے والی تمام امریکی فوجی امداد بند کر دی جائے گی۔ گذشتہ سات مہینوں کے دوران صیہونی حکومت نے غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام شروع کیا ہے اور تمام گزرگاہوں کو بند کرکے امدادی سامان کی آمد کو روک کر اس علاقے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ صہیونی حکومت حماس کو تباہ کرنے کے بہانے سرحدی شہر رفح پر حملہ کرنے کے لیے جہاں دس لاکھ سے زیادہ فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں، ہر حربہ استعمال کرنا چاہتی ہے۔

اس مسئلے نے بین الاقوامی تشویش کو جنم دیا ہے اور انہوں نے صیہونی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے غزہ کی پٹی میں انسانی بحران مزید سنگین ہو جائے گا۔ گذشتہ ماہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے انسانی امداد کی فوری منتقلی کے لیے غزہ کی پٹی میں فوری جنگ بندی کی حمایت میں ایک قرارداد کی منظوری دی تھی۔ لیکن تل ابیب نے واشنگٹن کی مکمل حمایت کے ساتھ اس قرارداد کو نظر انداز کرتے ہوئے فلسطینی عوام کا قتل عام جاری رکھا ہے، اطلاعات کے مطابق اب تک تقریباً 35 ہزار فلسطینی شہید اور 77 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

قابل ذکر نکتہ اسرائیل کے ساتھ نمٹنے میں امریکہ کی دوہری پالیسی ہے، جبکہ کانگریس کے قانون سازوں کی ایک قابل ذکر تعداد صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت کے خلاف ہے۔ وائٹ ہاؤس نے تل ابیب کو مسلح کرنے پر زور دیا ہے اور غزہ کے مظلوم عوام کو قتل کرنے کے لیے گولہ بارود اور بہت طاقتور بموں کی بڑی کھیپ صیہونی حکومت کو بھیجی ہے۔ درحقیقت، تل ابیب کے لیے وائٹ ہاؤس کی غیر مشروط حمایت صیہونی حکومت کے لیے ہمیشہ ایک ہلہ شیری رہی ہے کہ وہ اپنے مجرمانہ اقدامات، خاص طور پر غزہ کے لوگوں کی نسل کشی اور غزہ کی پٹی میں بھوک اور قحط کے ہتھیاروں کے استعمال کو جاری رکھے۔

امریکی صدر جو بائیڈن، جن کی انتظامیہ نے 7 اکتوبر کو حماس گروپ کی طرف سے "طوفان الاقصی" آپریشن کے بعد غزہ جنگ کے آغاز سے ہی صیہونی  حکومت کی مکمل حمایت کی ہے اور اس مقصد کے ساتھ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جنگی جرائم میں باقاعدہ شرکت کی ہے۔ صیہونی حکومت کے سیاسی، عسکری اور مالی اقدامات سے فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو "تباہ" کرنے کے بارے میں متعدد اقدامات انجام دیئے ہیں، امریکی صدر نے ایک انٹرویو میں صیہونی حکومت کے اہداف سے یکجہتی کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ "صیہونی ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ یہودی ہوں۔" میں صیہونی ہوں۔

جو بائیڈن اور ان کے حکومتی عہدیداروں کے اسرائیل کی غیر مشروط اور ہمہ گیر حمایت کے مؤقف اور غزہ میں موجودہ جنگ کی تشکیل کے لیے فلسطینیوں بالخصوص حماس کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوششوں کے باوجود امریکی قانون سازوں کی ایک خاصی تعداد صیہونی حکومت کی جارحانہ پالیسیوں سے تنگ آچکی ہے۔ بعض امریکی قانون ساز فلسطینیوں کے خلاف صیہونیوں کے عشروں پر محیط مظالم سے آگاہ ہیں، وہ اب اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت بند کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ ایک طرف غزہ میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے جرائم اور دوسری طرف غزہ جنگ کے جاری رہنے کے علاقائی نتائج اس بات کا باعث بنے ہیں کہ کانگریس میں امریکی ناقدین کے علاوہ واشنگٹن کے یورپی شراکت داروں نے بھی احتجاج کیا ہے۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے عہدے دار جوزپ بوریل نے جمعہ کے روز غزہ پٹی میں جاری جنگ اور انسانی بحران کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت کی جنگی کارروائیوں کے نتائج پر اس کی سنگین تنبیہ ہونی چاہیئے۔ غزہ میں سات ماہ بعد جو کچھ ہو رہا ہے، وہ بہت خوفناک ہے۔ بوریل نے کہا کہ 7 اکتوبر کے آپریشن پر اسرائیل کے غیر متناسب ردعمل سے مشرق وسطیٰ کو تشدد کے بدترین دور کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ البتہ مغربی سیاست دانوں سے جو سوال پوچھا جانا چاہیئے، وہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں صیہونی حکومت کے تباہ کن کردار کو تسلیم کرنے کے باوجود وہ مختلف طریقوں سے اس حکومت کی حمایت کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں۔؟

ان حمایتوں کے درمیان، مثال کے طور پر ایک طرف جرمنی اور برطانیہ کی طرف سے اسرائیل کو اسلحہ اور گولہ بارود کی ترسیل اور دوسری طرف جرمنی کی طرف سے صرف اس لئے جنوبی افریقہ کی مخالفت کی جا رہی ہے کہ اس نے 1948ء کے جنیوا کنونشن کے تحت صیہونی نسل کشی کی خلاف عالمی عدالت میں شکایت کیوں کی ہے۔ اس کے علاوہ غزہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ان تمام قراردادوں کو ویٹو کر دیا ہے، جن میں غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو روکنے اور متاثرہ علاقے میں امداد کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا تھا، امریکہ نے صرف حالیہ قرارداد کو ویٹو کیا گیا تھا، وہ بھی بائیڈن اور نیتن کے درمیان کچھ اختلافات کی وجہ سے تھا۔
خبر کا کوڈ : 1133018
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش