3
Tuesday 26 Mar 2024 00:34

اہلِ تشیع، مغالطے اور حقائق

اہلِ تشیع، مغالطے اور حقائق
تحریر: نذر حافی

مغالطے کسی درد کا درمان نہیں کرتے۔ ہمارا مقصد کسی پروپیگنڈے کا جواب دینا یا جوابی پروپیگنڈہ ہرگز نہیں۔ فقط حقائق کا انکشاف مقصود ہے۔ صاحبانِ تحقیق بخوشی تحقیقی معیارات کے مطابق قلم فرسائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں. اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تاریخ ِاسلام اور اہلِ تشیع ہم عمر ہیں۔ نبی اکرمؐ کے زمانے میں ہی صحابہ کرام کا ایک گروہ شیعیانِ علی کہلاتا تھا۔ ابو حاتم رازی[1]، ابن خلدون[2]، محمد کرد علی[3]، صبحی صالح [4]، عبدالله عنّان [5] سمیت بہت سارے اہل سنت علماu اور دانش مندوں نے لکھا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی علیہ وآلہ کے زمانے میں ہی متعدد صحابہ کرام ؓ کو شیعیانِ علی کہا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سارے صحابہ کرام ؓ  اُسی زمانے میں یہ جان گئے تھے کہ پیغمبرِ اسلام ؐ کی عدم موجودگی میں صرف حضرت علی ؑ ہی مسلمانوں کے سرپرست اور ولی ہیں۔

بطورِ خاص حضرت ابوذر غفاریؓ، حضرت سلمان فارسیؓ، مقداد بن اسوؓد، حضرت مالِكِ بنِ نوَيرَة، جابر بن عبداللهؓ، ابی بن کعبؓ، ابوالطفیل عامر بن واثلهؓ، عباس بن عبد المطلبؓ اور ان کی تمام اولاد، عمار یاسرؓ، ابو ایوب انصاریؓ، أبى سعید الخدرى، وحذیفة بن الیمان، خزیمة بن ثابت، خالد بن سعید بن العاص، قیس بن سعد بن عُبادہ خَزرَجی کو شیعیان علیؑ میں سے جانا جاتا تھا۔[6] اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ نبیؐ کے زمانے میں ہی شیعیان علیؑ کا گروہ  نہیں تھا تو ہمیں خوشی ہوگی۔ نبی اکرمؐ کے وصالِ مبارک کے بعد بھی یہ گروہ نبی اکرمؐ کی احادیث اور تاکید کی روشنی میں حضرت امام علی ؑکی ولایت و امامت پر قائم رہا۔ جب سقیفہ بنی ساعدہ کا مسئلہ پیش آیا تو اسی گروہ نے اربابِ اقتدار کے مدِّمقابل مزاحمتی کردار ادا کیا۔

ہم نہایت ہی فراخدلی کے ساتھ یہ تسلیم کر لیں گے کہ اگر کوئی یہ ثابت کرے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں خلیفہ کے انتخاب کیلئے حضرت امام علی ؑکو یا شیعیانِ علی ؑ میں سے کسی کو بلایا گیا ہو یا اُن سے کوئی مشورہ تک کیا گیا ہو۔ یہی عدمِ مشاورت ہی شیعیانِ علی کی طرف سے مزاحمت کا سبب بنی۔ جنگِ کربلا کے بعد شیعیانِ علی ؑکی صفیں بالکل خالص ہوگئیں۔ اب وہ ایک گروہ سے ایک تحریک میں تبدیل ہوگئے۔ ایک ایسی تحریک جو حکومت کے خلاف  تھی۔ اب اس تحریک کو ماضی کی نسبت کئی گنا زیادہ پروپیگنڈے اور تلوار کا سامنا تھا۔ گذشتہ چودہ سو سالوں میں حضرت علیؑ اور اہلِ تشیع کے خلاف پروپیگنڈے میں گالیوں سے لے کر غلط عقائد، مغالطوں اور فتووں تک کا استعمال کیا گیا۔ اسی طرح ان کے خلاف تلوار کا استعمال، گرفتاریوں اور ٹارچر سیلوں، بہمیت۔۔۔ ہر طرح کا جبر روا رکھا گیا۔

مغالطوں کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حضرت عمار یاسر ؓ کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے قاتل خود حضرت علیؑ ہیں، چونکہ وہی انہیں میدان میں لے کر آئے ہیں اور شیعیانِ علی کے بارے میں کہا گیا کہ یہ اس لئے روتے اور ماتم کرتے ہیں، چونکہ انہوں نے خود امام حسین ؑ کو شہید کیا ہے۔ آج بھی آپ سروے کر لیں۔ کسی دور دراز کے ایسے گاوں میں چلے جائیں، جہاں پرائمری سکول بھی نہ ہو، وہاں لوگوں سے پوچھیں کہ شیعہ کون ہوتے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟ وہاں بھی لوگوں کو یہ پتہ ہوگا کہ شیعہ کافر ہیں، یہ دس محرم کو خون پیتے ہیں، شامِ غریباں میں۔۔۔  آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح نسل در نسل ان کے خلاف پروپیگنڈہ جاری ہے۔

اہلِ تشیع کے خلاف پروپیگنڈوں اور مغالطات سے کئی پڑھے لکھے اور باشعور افراد بھی متاثر ہیں۔ چنانچہ اِتمام حجّت کیلئے ضروری ہے کہ اہلِ تشیع کے عقائد و نظریات کے بارے میں حقائق کو بیان کیا جائے۔ اہلِ تشیع غلط ہیں یا درست، یہ فیصلہ کرنے میں ہر شخص آزاد ہے۔ کوئی بھی شخص جس بھی نتیجے پر پہنچے وہ حقیقت کی روشنی میں پہنچے نہ کہ مغالطوں، غلط بیانیوں اور الزامات و جھوٹ پر مبنی مفروضات پر اپنی رائے قائم کرے۔ اس حوالے سے آئیے شیعہ عقائد کا ایک جائزہ لیتے ہیں: اہلِ تشیع کے ہاں پانچ اصول دین ہیں: ۱۔ توحید  ۲۔ عدل ۳۔ نبوّت ۴۔ امامت ۵۔ قیامت

توحید:
توحید سے مراد یہ ہے کہ صرف خداوند عالم ہی معبود، خالق، مالک، رازق ہے۔ اس کی ذات اور صفات میں کسی بھی طور پر کوئی شریک نہیں۔ اُس کی صفات عین ذات ہیں۔ یعنی اگر آپ اُس کی کسی ایک صفت کا انکار کرتے ہیں تو گویا آپ نے اُس کی ساری ذات کا انکار کر دیا۔ مثلاً اگر کسی نے اُسے معبد تو سمجھا لیکن رازق یا رب کسی اور کو کہا تو اُس نے خدا کا ہی انکار کر دیا ہے۔
عدل:
عدل سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام جہتوں سے عادل ہے۔ وہ خود عادل ہے، اُس نے جتنے انبیا بھیجے، وہ بھی عادل ہیں، اس نے جتنی کتابیں نازل کیں، وہ بھی نفاذِ عدل کیلئے ہیں اور وہ اپنے بندوں کو جو بھی حکم دیتا ہے، وہ بھی عدل پر مبنی ہوتا ہے۔

نبوّت:
عقیدہ نبوّت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کی ہدایت کیلئے ایک مشہور روایت کی بنیاد پر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا و رسول بھیجے۔ نبی اور رسول میں فرق یہ ہے کہ نبی احکامِ الہیٰ اور وحی الہیٰ کا حامل ہوتا ہے اور وہ اپنے سے گذشتہ نبی کی تعلیمات کی ہی تبلیغ کرتا ہے، جبکہ رسول ایسا نبی ہوتا ہے، جو صاحبِ شریعت ہوتا ہے۔ روایات میں رسولوں کی تعداد تین سو تیرہ ہے۔ اس طرح ہر  رسول خدا کا نبی بھی ہے، لیکن ہر نبی خدا کا رسول نہیں ہے۔ ان میں سے پانچ  رسول حضرت نوحؑ،  حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور  حضرت محمد ﷺ اولوالعزم [7]ہیں۔ ان سب انبیاء و مرسلین کے سردار ختم الانبیاء حضرت محمد رسول اللہﷺ ہیں۔ شیعہ حضرات ان سب انبیاء و مرسلین اور ان پر نازل ہونے والی ساری کتابوں، صحیفوں، ان کی تعلیمات، نیز ان پر وحی لانے والے فرشتے پر ایمان رکھتے ہیں۔

نبوّت کے ساتھ ہی شیعہ ختمِ نبوّت کے قائل ہیں۔ ”عقیدہ ختم نبوت“ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔ آپ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ کے بعد کسی شخص کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور آنحضرت ؐکی کئی احادیثِ مبارکہ  اس عقیدے کی نشان دہی کرتی ہیں۔ اہل بیت، تمام صحابہ کرام  ؓ تابعین عظام، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور چودہ صدیوں کے مفسرین، محدثین، متکلمین، علماء اور صوفیاء (اللہ ان سب پر رحمت کرے) کا اس پر اجماع ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے: ”ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول الله وخاتم النبیین۔“(الاحزاب:40) ترجمہ: ”حضرت محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔“ تمام شیعہ متکلمین، محدثین اور مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ”خاتم النبیین“ کے معنیٰ ہیں کہ: آپ آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی ”منصب نبوت“ پر فائز نہیں ہوگا۔

امامت:
نبوّت کے بعد اہلِ تشیع امامت کے قائل ہیں۔ بہت سارے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ وہ شیعہ کے عقیدہ امامت کو جانتے ہیں، حالانکہ وہ نہیں جانتے۔ چنانچہ ہم بیان کئے دیتے ہیں۔ شیعہ عقیدے کے مطابق پیغمبرِ اسلام کے بعد قیامت تک نہ ہی کسی پر وحی آئے گی اور نہ ہی کتاب نازل ہوگی اور نہ کوئی شریعت آئے گی۔ پس کسی امام پر فرشتہ وحی نازل نہیں ہوتا۔ نہ ہی کسی امام پر کوئی کتاب یا شریعت نازل ہوتی ہے۔ امام اس دنیا میں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ کے دین کا ہی محافظ اور مبلغ ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آنی چاہیئے کہ اہل تشیع کے ہاں عقیدہ امامت دراصل ختم نبوّت کی مہر ہے۔ یہ عقیدہ ایک مسلمان کو محکم کرتا ہے کہ اب کوئی وحی اور شریعت نہیں آئے گی، اب دین کی تبلیغ اور امت کی ہدایت قرآن و سنّت کے مطابق امام معصوم کرے گا۔ اسی لئے امامت ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ امام معصوم سے مراد یہ ہے کہ ایسا امام جو قرآن و سنّت بیان کرنے یا اُس پر عمل کرنے میں کسی قسم کی سستی، غلطی، معصیت، نسیان یا بھول چوک کا مرکب نہیں ہوتا۔

امامت کو اصول دین میں شامل کرنے کی وجہ
امامت اور ایک اہم مسئلہ:
نبیؐ نے جہاں اپنے بعد بارہ اماموں کے بارے میں بتایا ہے، وہیں یہ بھی فرمایا ہے کہ جس نے اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانا، وہ جہالت کی موت مرا۔ یہ حدیث اہلِ سُنّت اور اہلِ تشیع یعنی طرفین نے متواتر نقل کی ہے۔ بطورِ نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔ "من لم یعرف امام زمانه فمات میته جاهلیه"[8] "من مات بغیر امام مات میته جاهلیه، و من نزع یداً من طاعه جاء یوم القیامه لاحجه له"[9] "من مات بغیر امام مات میته جاهلیه"[10] پس بانی دین ؐکی تاکید ہے کہ امام کی شناخت کی جائے اور اس کی شناخت کے بغیر مرنے والا جہالت کی موت مرے گا۔ لہذا اہل تشیع نے امامت کو اپنے اصولِ دین میں شامل کیا ہے۔ واضح بات: اہلِ تشیع کے ہاں امام کوئی عام لیڈروں کی طرح نہیں ہوتا بلکہ وہ اعمال کی میزان اور ترازو ہوتا ہے۔ ملت اُس کے اعمال پر اپنے اعمال کے درست یا غلط ہونے کو پرکھتی ہے۔

عقیدہ مہدویت:
امامت میں عقیدہ مہدویّت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس عقیدے کی رو سے اہلِ تشیع یہ ایمان رکھتے ہیں کہ قیامت سے پہلے حضرت امام مہدی ؑ کا ظہور ہوگا۔ اُن کے ذریعے خدا دین کو غالب کرے گا۔ وہ قرآن اور سُنّتِ رسول کے مطابق دینِ اسلام کا احیا کریں گے۔ اُن کے زمانے میں اسلام میں جتنی بھی بدعات و خرافات آچکی ہونگی، وہ اُن سب کا خاتمہ کریں گے۔ اسلام اپنی اصلی شکل و صورت میں ساری دنیا پر نافذ ہوگا اور غلبہ پائے گا۔ اب آئیے اُن غلط فہمیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو اہلِ تشیع کے عقیدہ امامت کے حوالے سے لوگوں میں مشہور ہیں:

پہلی غلط فہمی:۔ اہلِ تشیع کے بارے میں یہ غلط فہمی مشہور ہے کہ شیعہ اپنے اماموں پر فرشتہ وحی کے نازل ہونے کے معتقد ہیں اور اُن کے بارہ امام نعوذ باللہ بارہ نبی ہیں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
غلط فہمی کا جواب:۔ ختمِ نبوّت کا مطلب ہے کہ اب نبوّت ختم ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قیامت تک اُمّت کی ہدایت کی ضرورت بھی ختم ہوگئی ہے۔ یقیناً ہدایت کی ضرورت باقی ہے۔ اس ہدایت کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے اہلِ سُنّت ختم نبوّت کے بعد خلافت کے قائل ہیں۔ یہ خلافت کیا ہے۔؟ اہلِ سُنّت کی طرف سے خلافت دراصل ختم نبوّت پر مہر ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا، اب خلیفہ ہدایت کی ذمہ داری نبھائے گا۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں جب خلافت کا سلسلہ شروع کیا گیا تو حضرت علی ؑ اور شیعیانِ علی ؑ کو اُس میں شامل نہیں کیا گیا، اس لئے شیعہ کے ہاں ختمِ نبوّت کے بعد اُمت کی ہدایت کیلئے خلافت کے بجائے امامت موجود ہے۔ لہذا یہ کہنا کہ اہلِ تشیع کے ہاں امام نعوذ باللہ نبی ہوتے ہیں، یہ سراسر یا تو لاعلمی ہے، یا غلط فہمی اور یا پھر تعصب۔

دوسری غلط فہمی:
 شیعہ بارہ اماموں کے قائل ہیں، اہل تشیع کے مطابق یہ بارہ امام آلِ رسولؐ یا قریش  سے ہونگے، اب قیامت تک یہی نسل انسانیت کی رہنمائی کرتی رہے گی، یہ تو نسل پرستی ہے۔ اب تو نسلیں بھی مخلوط ہیں۔ لہذا اگر پیغمبرِ اسلام نے یہ فرمایا ہے کہ میرے جانشین قریش میں سے ہونگے یا میرے اہل بیت میں سے ہوں گے تو کیا پیغمبر ؐ یہ نہیں جانتے تھے کہ قیامت تک تو میری نسل بھی مخلوط ہو جائے گی۔
غلط فہمی کا جواب:
پیغمبر نے اپنے اہل بیت ؑ کو اس لئے اپنے بعد ہدایت کا مرکز قرار دیا کہ آپ نے اپنے اہلِ بیت کی تربیت خود کی۔ اُس وقت لوگ نئے نئے مسلمان ہو رہے تھے۔ لہذا پیغمبر انہیں بتا رہے تھے کہ دین میرے اہلِ بیت سے سیکھنا۔ نبی ؐ نے پہلے حضرت امام علیؑ اور حضرت فاطمۃ الزہرا ؑ کو خود پالا، ان کی تربیت کی، پھر اُن کے بچوں کو بھی خود پالا اور تربیّت کی۔ یہ پیغمبر کی تربیّت کے شہکار تھے۔ اب یوں نہیں ہے کہ قیامت تک ان کی نسل سے معصوم امام پیدا ہوتے رہیں گے۔

صرف حضرت امام علیؑ، ان کے دو بیٹے جو رسولؐ کی آغوشِ تربیت میں پلے اور آگے صرف امام زین العابدینؑ جو امام حسین کی تربیت کا ثمر ہیں اور آگے صرف امام محمد باقر جو کہ امام زین العابدین ؑ کی تعلیم و تربیّت کا عکس ہیں اور آگے صرف امام جعفر صادقؑ۔۔۔۔ یعنی اُسی دور میں بارہ کے بارہ امام جو کہ صدرِ اسلام، صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں مکمل ہوگئے۔ اہلِ تشیع کے ہاں صرف یہ بارہ امام ایسے تربیّت یافتہ ہیں کہ معصوم  کہلانے کے حقدار ہیں اور قیامت تک میزانِ عمل ہیں۔ نہ کہ جو شخص بھی یہ کہے کہ میں آلِ رسول ہوں، وہ امام یا معصوم ہے۔ حتی کہ ان بارہ اماموں کے سگے بہن بھائی بھی قیامت تک کیلئے معیارِ قرآن و سُنّت، امام یا معصوم نہیں ہیں۔

پس پیغمبر ؐ کی حدیث کی روشنی میں بارہ امام اوائلِ اسلام میں ہی مکمل ہوچکے ہیں۔ ان کے علاوہ قیامت تک کوئی آلِ رسول سے ہو یا کسی بھی دوسری نسل سے، عرب میں پیدا ہو یا عجم میں، وہ غیر معصوم ہے۔ وہ محتاج ہے کہ اپنے اعمال کو قرآن و سُنّت کے مطابق انجام دے۔ اس کیلئے اُسے ان معصوم اماموں سے رہنمائی لینی ہوگی کہ میرے اعمال درست ہیں یا نہیں۔ اب جو لوگ پیغمبرِ اسلام ؐ کی حدیث کے مطابق آج تک اپنے بارہ امام پورے نہیں کرسکے، ان کیلئے یہ مسئلہ ہے، وہ اپنے اماموں کی معرفت اور شناخت قائم کریں۔ صحیح بخاری میں حضرت جابر بن سمرہ  سے روایت ہے: "میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپﷺ نے فرمایا: "یكون بعدی اثنا عشر امیراً۔۔۔ كلهم من قريش۔"، "میرے بعد بارہ امیر اور خلیفہ ہوں گے اور وہ سب قریش سے ہوں گے۔" یہ حدیث اسی صورت میں شیخ صدوق کی الامالی اور الخصال میں بھی نقل ہوئی ہے اور دوسرے شیعہ منابع میں بھی۔

محدث مسلم بن حجاج نیشاپوری ؒ نے صحیح مسلم میں آٹھ مرتبہ یہ حدیث مختلف اسناد کے ساتھ نقل کی ہے۔ بطورِ نمونہ حضرت جابر بن سمرہ ؓسے انہوں نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: "لا یزال هذا الامر عزیزاً الی اثنی عشر خلیفهً۔۔۔ كلهم من قریش۔" امامت کا یہ امر باقی ہے اور بارہ خلفاء کے ذریعے ہمیشہ قائم و دائم رہے گی اور وہ سب خلفاء قریش سے ہیں۔[11]  اسی طرح  فقیہ، محدث اور علامہ ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی المعروف امام نوی نے اپنی شرح میں بھی اس حدیث کو لکھا ہے۔[12] مسند أحمد میں صحاح ستہ کے ثقہ راوی اور عظیم محدث امام شعبی نے حضرت مسروق رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ہم عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس بیٹھے تھے اور وہ ہمارے لیے قرآن پڑھ رہے تھے۔

ایک شخص نے ابن مسعودؓ سے کہا: "کیا آپ نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے پوچھا ہے کہ کتنے افراد اس امت پر خلافت کریں گے؟ تو انھوں نے جواب دیا: جی ہاں! ہم نے پوچھا اور آپﷺ نے جواب دیا: بارہ افراد بنی اسرائیل کے دینی پیشواؤں کے تعداد کے برابر۔ [13] یہ حدیث کئی محدثین نے اپنی کتابوں میں متعدد مرتبہ لکھی ہے۔ ہم بطورِ نمونہ چند اہم کتابوں کے صرف ایک ایک مقام کا ذکر کر رہے ہیں۔مثلاً یہ حدیث  کنزالعمال،[14] صحیح ترمذی، [15] مسند احمد، [16]  اور محدث امام حاکم نیشاپوری ؒنے المستدرك على الصحيحين [17] میں بھی نقل ہوئی ہے۔

بعض روایات میں بارہ اماموں کے نام بھی بیان کئے گئے ہیں۔ خوارزمی نے مقتل الحسین میں حضرت سلمان فارسی ؓسے نقل کیا ہے کہ: "ہم رسول خداﷺ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے جبکہ حسین (ع) آپﷺ کی آغوش میں تھے، آپﷺ نے ان کی آنکھوں کا بوسہ لیا اور فرمایا: "بے شک آپ سیّد ابن سیّد ہیں، بے شک آپ امام  ابن امام ابوالآئمہ ہیں، آپ حجت ہیں اور نو حجتوں کے باپ، جو آپ کی صلب سے ہیں، جن میں آخری قائم آل محمدﷺ ہیں۔"[18] معروف اہلِ سُنّت عالم دین، امام صدر الدین ابراہیم بن محمد بن مؤید جُوینی شافعی (م 722ھ) نے فرائد السمطین میں نقل کیا ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہﷺ  سے عرض کیا: ہمیں اپنے جانشین سے آگاہ کریں، کیونکہ کوئی بھی ایسا پیغمبر نہیں ہے، جس کا کوئی جانشین نہ ہو اور ہمارے نبی نے یوشع بن نون کو اپنا وصی اور جانشین قرار دیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا: "بے شک میرے بعد میرے وصی اور خلیفہ علی بن ابی طالبؑ ہیں اور ان کے بعد ان کے دو بیٹے حسنؑ اور حسین ؑاور ان کے بعد نو مزید امام ہیں، جو حسین بن علیؑ کی صلب سے ہیں۔ نعثل نے کہا: اے محمدﷺ! ان نو جانشینوں کے نام بھی میرے لیے بیان کریں اور رسول اللہﷺ نے ان کے نام بھی بیان فرمائے۔ اسی طرح ینابیع المودّہ میں بارہ اماموں کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں۔[19]

تیسری غلط فہمی:
اہلی تشیع کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ بھی پھیلائی گئی ہے کہ جو ہمارے اماموں کی پیروی نہیں کرتا، اُسے بے شک ہم دنیا میں مسلمان کہیں، لیکن وہ آخرت میں جہنم میں جائے گا۔
غلط فہمی کا جواب:
اہلِ تشیع کے ہاں عقائد میں تقلید حرام ہے۔ آپ عقائد میں کسی بھی مجتہد یا مفتی کی تقلید نہیں کرسکتے۔ آپ کو عقیدے کیلئے تحقیق کرنی ہوگی۔ جس نے عقیدے کی تحقیق میں سُستی یا کوتاہی کی، وہ عنداللہ سزا کا مستحق ہے۔ لیکن جس نے  اقرارِ توحید و رسالت کو تحقیق کے ساتھ انجام دیا اور اپنا عقیدہ تحقیق کی روشنی میں بنایا، پھر وہ جس بھی نتیجے پر پہنچا، تحقیق کے ساتھ، چاہے فقہ حنفی پر، مالکی پر، شافعی پر یا جعفری پر۔۔۔ جس پر بھی اور اُس نے اپنے یقین کے مطابق ٹھیک طریقے سے اپنے اعمال کو انجام دیا تو وہ عنداللہ اجروثواب پائے گا۔
خلاصہ: انسان اپنی تحقیق اور عمل کے مطابق جنت یا جہنم میں جائے گا، نہ کہ دوسروں کی تحقیق اور عمل کے باعث۔

چوتھی غلط فہمی:
شیعہ اپنے اماموں کے فرامین کو حدیث اس لئے کہتے ہیں کہ وہ نعوذ باللہ اپنے اماموں کو نبی سمجھتے ہیں۔
غلط فہمی کا جواب:
حدیث ایک علمی اصطلاح ہے، جس کا اطلاق سب سے پہلے نبی اکرمؐ کے فرامین پر کیا جاتا ہے۔ بارہ اماموں کو چونکہ نبیؐ نے اپنے جانشین اور اپنے خلفاء کہا ہے اور اُن کی سُنّت کو اپنی سُنّت کہا ہے۔ لہذا پیغمبرؐ کے فرامین کو حدیث کہنے کی اتباع میں بارہ اماموں کے فرامین کیلئے بھی وہی حدیث کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اب اس اصطلاح کو کھینچ کر یہ کہنا کہ شیعہ اپنے اماموں کو نبی کہتے ہیں، یہ ایک انتہائی حد سے بڑھا ہوا الزام ہے۔ جو لوگ جان بوجھ کر ایسا کہتے ہیں، وہ یقیناً خدا کے ہاں جوابدہ ہونگے اور جو نہیں جانتے، اُن کیلئے ہم نے واضح کر دیا ہے۔

معاد یا قیامت
معاد، لغت میں واپسی اور رجوع کے معنی میں آتا ہے اور متکلمین کی اصطلاح میں قیامت کے دن اعمال کا حساب و کتاب دینے کیلئے روح کے جسم میں دوبارہ پلٹ آنے کو معاد کہتے ہیں، تاکہ نیکوکاروں کو بہشت اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں دی جائیں، جبکہ گنہگاروں کو ان کے گناہ کی سزا اور عذاب دیا جا سکے۔ معاد کی تعریف اس طرح بھی کی گئی ہے: "موت کے بعد دوبارہ زندگی کی طرف پلٹنا“ یا ”اجزاء بدن کے منتشر ہونے کے بعد دوبارہ بدن کی طرف رجوع کرنا“ یا ”مرنے کے بعد زندہ ہونا“، یا ”جسم سے روح نکلنے کے بعد دوبارہ روح کا واپس آنا۔" مرنے کے بعد دوبارہ زندگی پر عقیدہ رکھنا اور عقیدہ رکھنا کہ موت انسان کی زندگی کا خاتمہ نہیں کرتی بلکہ موت اس دنیا اور آخرت کے درمیان ایک پل ہے، انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے اور خدا کی بارگاہ میں پیش ہوکر اپنے اعمال کی جزاء یا سزا پائیں گے۔ اس ایمان کو عقیدہ قیامت کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
[1] انّ اوّل اسم ظهر فى الاسلام على عهد رسول الله(صلى الله علیه وآله) هو الشیعة، و کان هذا لقب اربعة من الصحابة هم: أبوذر و سلمان و المقداد و عمّار
[2] کان جماعة من الصحابة یتشیعون لعلىّ و یرون استحقاقه على غیره،تاریخ ابن خلدون، ج 3، ص364
[3] عرف جماعة من کبار الصحابة بموالاة علىّ(علیه السلام) فی عصر رسول الله(صلى الله علیه وآله) مثل سلمان الفارسى القائل: بایعنا رسول الله(صلى الله علیه وآله) على النصح للمسلمین والائتمام بعلى بن أبى طالب والموالاة له۔ ومثل أبى سعید الخدرى الّذی یقول: أمر الناس بخمس فعملوا بأربع و ترکوا واحدةً، ولمّا سئل عن الاربع قال: الصلاة والزکاة وصوم شهر رمضان و الحج۔ و قیل: ما الواحدة التى ترکوها؟ قال: ولایة على بن أبى طالب۔ قیل له: و انّها لمفروضة معهنّ قال: نعم هى مفروضة معهنّ۔ ومثل أبى ذر الغفارى وعمّار بن یاسر وحذیفة بن الیمان وذى الشهادتین خزیمة بن ثابت وأبى أیوب الانصارى وخالد بن سعید بن العاص وقیس بن سعد بن عبادة،خطط الشام، ج 5، ص 251۔
[4] کان بین الصحابة حتّى فى عهد النبى(صلى الله علیه وآله) شیعة لربیبه علىّ، منهم: أبوذر الغفارى، و المقداد بن الأسود، و جابر بن عبدالله، و ابى بن الکعب، و أبو الطفیل عامر بن واثلة، و العباس بن عبد المطلب، و جمیع بنیه، و عمّار بن یاسر، و أبو ایوب الانصارى،النظم الاسلامیة، ص 96۔
[5] من الخطأ ان یقال: انّ الشیعة ظهرت و لاوّل مرّة عند انشقاق الخوارج، بل کان بدء الشیعة و ظهورهم فى عصر الرسول(صلى الله علیه وآله) حین أمره الله بانذار عشیرته فى الآیة 214 من الشعراء (و انذر عشیرتک الاقربین)، و لبّى النبى فجمع عشیرته فى بیته و قال لهم مشیراً الى علىّ: هذا أخى و وصیى و خلیفتى فیکم فاسمعوا له و أطیعوا،روح التشیع، ص 20
[6] فرق الشیعه، ص17ـ18، اعیان الشیعه، ج1، ص18ـ17
[7] فَاصْبِرْ کمَا صَبَرَ أُولُواالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ،احقاف 35
[8] مسلم، صحیح مسلم، بیروت، ج۳، ص۱۴۷۸.
[9] ابو داوود، مسند، ج۳، ص۴۲۵
[10] مسند احمد، امام احمد بن حنبل، ج۲۸، ص۸۸
[11] صحیح مسلم، کتاب اماره، باب1، حدیث 10
[12] شرح صحیح مسلم(المنهاج)، نووى، داراحیاءالتراث، ج12، ص200
[13] عن مسروق، قال: كنا جلوسا عند عبد الله بن مسعود، وهو يقرئنا القرآن، فقال له رجل: يا أبا عبد الرحمن، هل سألتم رسول الله صلى الله عليه وسلم، كم تملك هذه الأمة من خليفة؟ فقال عبد الله: ما سألني عنها أحد منذ قدمت العراق قبلك، ثم قال: نعم، ولقد سألنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " اثنا عشر، كعدة نقباء بني إسرائيل " حديث نمبر 3781
[14] كنز العمال  صفحة 312 جزء 5
[15] صحیح ترمذی، صفحة 45 الجزء الثاني طبعة دهلى سنة 1342 هجري
[16] مسند احمد، طبعة مصر المطبعة الميمنية سنة 1313 هجري جزء 5 ص 106
[17] حاکم، مستدرک، في كتاب معرفة الصحابة  صفحة 618 الجزء 3، طبعة حيدر آباد الدكن سنة 1334 هجری
[18] أنت سيد ابن السيد أبو السادة ، أنت الامام ابن الامام أبو الأئمة أنت الحجة ابن الحجة أبو الحجج التسعة ، تاسعهم قائمهم
[19] قندوزی حنفی، شیخ مسلم، ینابیع المودة، ص44
خبر کا کوڈ : 1124926
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش