1
Monday 22 Apr 2024 21:22

اسرائیل اور یہودیوں کا مسئلہ

اسرائیل اور یہودیوں کا مسئلہ
تحریر: سید سعید لواسانی
 
مغربی ایشیا میں تنازعات شدت اختیار کر جانے اور خاص طور پر طوفان الاقصی آپریشن کے بعد فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ٹکراو میں اضافہ ہو جانے کے بعد یہودیوں کا مسئلہ ایک بار پھر اجاگر ہو گیا ہے اور وعدی صادق آپریشن نے اسے ایک نئے مرحلے میں داخل کر دیا ہے۔ دوسری طرف قرآن کریم میں بھی یہودیوں کے مسئلے کا بارہا ذکر ہوا ہے اور ہم صرف دو آیات کی جانب اشارہ کریں گے:
1۔ سورہ بقرہ، آیت 96: و َلَتَجِدَنَّهم أَحرَصَ ٱلنَّاسِ عَلَى حَیوةٍ وَمِنَ ٱلَّذِینَ أَشرَکواْ (اور تم یقیناً انہیں تمام انسانوں سے زیادہ زندگی کا حریص پاو گے اور [حتی] مشرکین سے بھی زیادہ [حریص]"
2۔ سورہ مائدہ، آیت 82: لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ ٱلنَّاسِ عَدَوَة لِّلَّذِینَ ءَامَنُواْ ٱلیهودَ وَ ٱلَّذِینَ أَشرَکواْ (یقیناً تم یہودیوں اور مشرکین کو اہل ایمان سے دشمنی کرنے میں شدید ترین پاو گے۔"
 
مزید برآں، قرآن کریم میں یہودیوں کو کافر اور حق اور حقیقت کا منکر قرار دیا گیا ہے (سورہ بینہ، آیت 6)۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہودیوں میں دینداری کا نشان تک نہیں ہے۔ البتہ ہم یہ بات کلی طور پر نہیں کہہ رہے اور ہمارے مدنظر گذشتہ چار ہزار سال سے موجود یہودی قوم ہے۔ یہ نکتہ بیان کرنا بھی اہم ہے کہ ہم کسی شخص کی بات نہیں کر رہے بلکہ ایک تاریخی گروہ کی بات کر رہے ہیں جس نے اپنا نام یہودی رکھا ہوا ہے۔ ہم آج "صیہونزم" کو سامراجیت، نسل پرستی، قومی تعصبات، مجرمانہ اقدامات، فتنہ انگیزی اور خباثت کی علامت کے طور پر جانتے ہیں۔ لہذا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا بہتر نہیں یہودیوں کے مسئلے کی بجائے صیہونزم یا صیہونی رژیم کے بارے میں بات کریں اور خود کو یہودیوں کے خلاف منافرت پھیلانے کے الزام کی زد میں نہ لائیں؟ خاص طور پر یہ کہ یہودیوں کی ایک تعداد ہماری ہم وطن بھی ہے؟
 
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم صرف اسرائیل یا صیہونزم کے بارے میں بات کرنا چاہیں تب بھی یہودیوں کے مسئلے کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ اسرائیل اور صیہونزم یہودیوں کے اہداف کے بغیر قابل تصور نہیں ہیں۔ تاریخ کے دوران یہودیوں نے جس ذات کا اظہار کیا ہے نیز قرآن کریم میں جس قدر بنی اسرائیل سے متعلق مسائل پر تاکید کی گئی ہے وہ ہمیں یہودیوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور ہم آسانی سے اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔ یہودیوں میں تاریخ کی ابتدا سے ہی نہ صرف فلسطینی سرزمین بلکہ پورے عالم بشریت پر حکمرانی کی سوچ پائی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں نسل پرستی اس قوم کے خون میں شامل ہے اور ان کی سیاسی تربیت کا حصہ ہے۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اسلامی ممالک میں بسنے والے یہودی قانون کا احترام نہیں کرتے اور انہیں تمام حقوق سے محروم کر دینا چاہئے۔
 
بلکہ درحقیقت یوری حکمران یہودیوں کے بارے میں ایسا سوچتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر یہودی مختلف یورپی ممالک میں پھیلے رہے ہیں گے تو ان کیلئے مختلف قسم کی مشکلات پیدا کرتے رہیں گے لہذا بہتر یہ ہے کہ انہیں ایک علیحدہ ملک بنا کر دے دیا جائے اور وہ سب ایک جگہ زندگی بسر کریں۔ اسلامی معاشروں میں اسلامی تعلیمات اور اقدار کی بدولت کبھی بھی یہودیوں کے بارے میں ایسی سوچ پیدا نہیں ہوئی۔ پس یہودیوں کا مسئلہ کیا ہے؟ قرآن کریم یہودیوں کے بارے میں دو اہم کلیدی نکات بیان کرتا ہے: ایک یہ کہ وہ تمام انسانوں سے زیادہ حتی مشرکین سے بھی زیادہ، پست دنیوی زندگی کے حریص ہیں، اور دوسرا یہ کہ وہ اہل ایمان کے شدید ترین دشمن ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی دنیا پرست ہیں اور دنیوی زندگی کیلئے کسی قسم کی فتنہ انگیزی اور مجرمانہ اقدام سے دریغ نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے وہ اسلام اور مسلمانوں کے بھی دشمن ہیں۔ کیونکہ اسلام آخرت کے بغیر دنیوی زندگی کو پست اور گھٹیا قرار دیتا ہے اور انسانوں کو ہمیشہ کی زندگی کی جانب دعوت دیتا ہے۔
 
لہذا اہل اہمان، ایمان اور اسلام سے یہودیوں کی دشمنی بہت ہی گہری ہے اور کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ وہ اپنے پست اہداف کے حصول کیلئے ہر قسم کے سامراجی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور کسی مجرمانہ اقدام سے دریغ نہیں کرتے۔ آج اس بات کا منہ بولتا ثبوت غزہ کے حالات ہیں۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت بننے کی ہوس میں مبتلا ہیں اور دوران حاضر میں اپنے لئے بہترین موقع تصور کرتے ہیں۔ فطری بات ہے کہ انہیں اس بات کا بھی کوئی خوف نہیں کہ دنیا کے انسان ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور کیا رائے رکھتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ اپنی خفیہ اور آشکار طاقت کے بل بوتے پر عالمی رائے عامہ کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور وہ اس کام میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ انہوں نے عالمی معیشت پر کنٹرول کر کے جدید دنیا پر اپنا تسلط برقرار رکھا ہوا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ اپنی پوری تاریخ میں سود لینے والی قوم کے طور پر معروف تھے اور آج بھی لبرل سرمایہ دارانہ نظام کی چھتری تلے یہی کام انجام دے رہے ہیں۔
 
یہودیوں نے مغربی ممالک کی خارجہ سیاست سمیت دیگر پالیسیوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر کے دنیا بھر کے سیاست دانوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ لہذا اگر ہم کہیں کہ موجودہ دنیا یہودیوں کے اشاروں پر چل رہی ہے تو بے جا نہیں ہو گا۔ اور یہ صرف صیہونزم نہیں بلکہ یہودیوں کا اثرورسوخ ہے۔ دوسری طرف وہ پوری انسانی تاریخ کے دوران نرم جنگ کے استاد رہے ہیں اور یہودیوں کے حقوق کی پامالی کے قصے سنا سنا کر یوں مظلوم نمائی کی ہے کہ دنیا کے اکثر انسانوں کی نظر میں ان سے زیادہ مظلوم کوئی نہیں ہے۔ آج ان کے پاس جتنی بھی طاقت اور اثرورسوخ ہے وہ انہوں نے اسی حربے کے ذریعے حاصل کی ہے۔ یعنی دو طاقتوں، ایک اقتصادی طاقت (گندی اقتصاد) اور دوسری میڈیا اور نرم جنگ کی طاقت (جھوٹ، منافقت اور فریب) نے انہیں دنیا کا بادشاہ بنا دیا ہے۔
 
صرف ہولوکاسٹ کا مسئلہ دنیا بھر کے انسانوں میں یہودیوں سے ہمدردی کا جذبہ بیدار کرنے کیلئے کافی ہے۔ اب یہ کہ اس میں کس حد تک حقیقت ہے؟ یہ بات نرم جنگ میں زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ بلکہ اہم ستم دیدہ یہودی قوم پر رحم آنا ہے اور یہی چیز انہیں اس بات کا حقدار بنا دیتی ہے کہ وہ اپنے لئے علیحدہ سرزمین کا سوچنے لگیں اور فلسطینی سرزمین سے بہتر کون سی سرزمین ہو گی جو مسلمانوں کے مرکز میں واقع ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس سرزمین سے خاص عقیدت رکھتے ہیں۔ یہودیوں نے دنیا بھر میں خود سے ہمدردی کا ایسا جذبہ پیدا کیا کہ سب بھول ہی گئے کہ یہ سرزمین ایسے انسانوں کی ملکیت ہے جنہیں اپنے گھروں سے نکال باہر کر دیا گیا ہے اور وہ شدید مشکلات میں رہ رہے ہیں۔ کوئی بھی ان کے بارے میں نہیں سوچتا اور ان کیلئے دل نہیں جلاتا کیونکہ ان کے کان یہودیوں کی جھوٹی آہ و پکار سے بھرے ہوئے ہیں۔
 
آج یہودیوں کے بے شمار جرائم کے باعث یہودیوں کا مسئلہ ایک بار پھر منظرعام پر آ چکا ہے لیکن اس بار وہ مظلومیت کی علامت نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مظلوم نمائی کا بھانڈا پھوٹ رہا ہے اور ان کا جھوٹ، منافقت اور فریب کھلتا جا رہا ہے۔ جی ہاں، یہودیوں نے اقتصادی، فکری اور ثقافتی سامراجیت کے ذریعے انسانیت کو تباہ کر ڈالا ہے اور یہ صرف مسئلہ فلسطین تک محدود نہیں ہے۔ البتہ پہلی ترجیح اسرائیل کی نابودی ہے لیکن یہودیوں کی نسل پرستانہ سوچ کو جڑ سے اکھاڑنا ہمارا مسئلہ ہے جس نے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہودیوں کی کوشش ہے کہ انسانوں کے پاس جو کچھ بھی ہے ان سے چھین لیں اور انہیں بھی اپنا غلام بنا لیں اور اس کی بنیادی وجہ ان کا پست دنیوی زندگی پر سب سے زیادہ حریص ہونا ہے۔ اگرچہ وہ خود کو پاکیزہ اور مظلوم ظاہر کرتے ہیں لیکن اب دھوکہ دہی اور فریب کا زمانہ گزر چکا ہے۔
 
ہمیں اس بات سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ ہمارا مسئلہ صرف اسرائیل اور صیہونزم ہے بلکہ ہمارا مسئلہ یہودی ہیں جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے شدید ترین دشمن ہیں۔ اگر یہودی قوم اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ غاصب صیہونی رژیم یا صیہونزم کی حفاظت کیلئے انہیں بہت بھاری تاوان ادا کرنا پڑ جائے گا تو وہ پیچھے ہٹ جائیں گے۔ البتہ یہ کام ان کیلئے آسان نہیں ہو گا اور وہ آسانی سے اپنے مقصد تک نہیں پہنچیں گے کیونکہ صیہونی رژیم کی نابودی یقینی ہے اور وہ بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ جو چیز ان کیلئے اہم ہے وہ ان کا مقصد ہے اور وہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے ہر ہتھکنڈہ بروئے کار لائیں گے اور اپنا پورا زور لگائیں گے۔ چاہے اس کیلئے انہیں غاصب صیہونی رژیم کو گنوانا ہی کیوں نہ پڑ جائے۔
 
اگر ہم سمجھ بوجھ اور بصیرت میں کمزوری دکھائیں گے تو ان کیلئے بہترین شکار بن جائیں گے۔ ایسی صورت میں ہم ان کیلئے ایسے گراں بہا خزانے میں تبدیل ہو جائیں گے جسے وہ کسی صورت نہیں چھوڑیں گے اور ہمیں اور پورے عالم بشریت کو ایک اور دھوکے اور فریب کے ذریعے سلا کر اپنا غلام بنا لیں گے۔ ان کا ہتھکنڈہ "جدید مظلومیت" ہے تاکہ نئے انداز میں دوبارہ یہ حربہ بروئے کار لا سکیں۔ لہذا ہماری ذمہ داری ہے کہ یہودیوں کے مسئلے اور یہودیوں کی سوچ اور کردار پر سنجیدگی سے توجہ دیں۔ عصر اسلام میں مسلمانوں نے ان سے غفلت برتی اور وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہئے تھا۔ آج بھی اگر ہم قرآن کریم کی آواز نہیں سنیں گے اور نہ صرف اپنی تاریخ بلکہ عیسائیت اور اسلام کی تاریخ سے چشم پوشی کریں گے تو یقیناً ہم پر ضرب لگے گی۔ جی ہاں، یہودی ہمارا آج کا مسئلہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 1130394
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش