0
Thursday 25 Apr 2024 22:23

اسرائیل کی تباہی کا پیش خیمہ!

اسرائیل کی تباہی کا پیش خیمہ!
تحریر: ارشاد حسین ناصر

7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے ذریعے لگنے والے شدید ترین داغ کے بعد اسرائیل کو ایک بار پھر 14 اپریل علی الصبح کو تاریخی ہزیمت کا سامنے کرنا پڑا ہے۔دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر حملے کے بعد سے اسرائیل کو یہ توقع تھی کہ ایران جوابی حملہ کرے گا۔ کس قسم کا حملہ ہوگا، اس کا اندازہ شاید کسی کو بھی نہیں تھا۔ عمومی خیال یہ تھا کہ ایران اپنے خفیہ ایجنٹوں کے ذریعے کسی بھی ملک میں کسی اسرائیلی قونصلیٹ یا سفارت خانے کو نقصان پہنچا کر اپنا غصہ اتار لے گا اور لوگوں کو مطمئن کر لے گا کہ اس نے جواب دیا ہے، مگر اس بار حالات کچھ مختلف تھے۔ اس بار وہ کچھ ہونا تھا، جس کی توقع اسرائیل، اس کے حامی و مددگار امریکہ و یورپ کو بھی نہیں تھی۔

اس بار ایران نے بہت ہی صبر، تحمل اور حکمت و دانائی کیساتھ بہترین تیکنیک اور سفارتی و قانونی پہلوئوں کا مکمل خیال رکھتے ہوئے جواب دیا۔ اس بار اسرائیل پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ اپنے وجود کے بارے میں نہ فقط فکر مند ہوگیا ہے بلکہ اسے رہبر معظم کی کہی ہوئی بات کہ اگلے پچیس برس میں اسرائیل کا وجود دنیا کے نقشے پہ نہیں ہوگا، سچ ثابت ہوتی نظر آئی۔ یاد رہے کہ اس حملے میں 14 اپریل کی علی الصبح ایران نے دمشق میں اپنے سفارتخانے پر حملے کے جواب میں اسرائیل پر تقریباً 300 میزائل اور خودکش ڈرونز داغے تھے، اس آپریشن کو ایران نے "وعدہ صادق" کا نام دیا۔

اسرائیلی فوج نے اس حملے کو ناکام بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی حدود میں پہنچنے سے قبل ہی بیشتر میزائلوں اور ڈرونز کو "ایرو" نامی فضائی دفاعی نظام اور خطے میں موجود اتحادیوں کی مدد سے ناکام بنا دیا گیا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر 170 ڈرونز، 120 بیلسٹک میزائلوں اور 30 کروز میزائلوں سے حملہ کیا۔ ایران کا ڈرونز کے ذریعے حملوں کا آغاز، پھر میزائل چلانے اور لبنان، یمن، شام اور عراقی مقاومت کا اپنا اپنا کردار ادا کرنا ایک مکمل، منظم و مربوط نظام کی نشاندہی کرتا ہے، جس کی توقع قطعی طور پر اسرائیل کو نہ تھی۔

اسرائیل پر ایران کے حملے پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، بہت کچھ عالمی میڈیا کی زینت بن چکا ہے اور تاحال یہ ایشو مختلف فورمز پر چل رہا ہے۔ اس لیے کہ اس حملے کے بعد اہل فلسطین، اہل غزہ پر اسرائیل کا دبائو یقیناً کم ہوا ہے، وہ اسرائیل جو مسلسل حملے کر رہا تھا، آبادکاروں کو لا رہا تھا، اب اپنے دفاع اور اپنے مقبوضہ علاقوں تک محدود ہوتا دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ ایران کے حملے کے بعد تو سنہرے خواب آنکھوں میں سجا کر فلسطینیوں کی زمینوں، گھروں، محلوں پر قبضہ جمانے کی نیت سے آنے والے صیہونیوں کو بھی واپسی کی راہ میں بہتری نظر آرہی ہوگی۔

ابھی یہ حملے فقط ملٹری انسٹالیشنز اور بیسز پر ہوئے تھے، نشانہ فوجی مقامات اور فوجی ایئر پورٹ تھے۔ اگر اسرائیلی سفاکیت کی طرح ایران بھی کسی اقتصادی حب ، کسی کاروباری شہر، کسی آبادی، کسی سکول، کسی اسپتال، کسی عوامی مقام کو نشانہ بناتا تو کیا حال ہوتا، مگر مسلمانوں کی مجبوری ہے کہ انہیں جنگ میں بزدل اور سفاک دشمن کے مقابل بہت سی چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اگرچہ اسرائیل میں سب کے سب شہری ناجائز و قابض ہیں، متجاوز ہیں، ان پر جنگی یلغار یا حملے کسی بھی طور ناجائز نہیں ہونگے۔

ایران کے حملے سے ہم نے دیکھا ہے کہ اس کی تکلیف فقط اسرائیل کو نہیں ہوئی، اس نے امریکہ، فرانس، برطانیہ، اردن، مصر، سعودیہ سمیت تمام اتحادیوں کی چیخیں نکال دی ہیں۔ پاکستان کے تکفیریوں کی تو نیندیں حرام ہوچکی ہیں اور ان کا پراپیگنڈہ، جھوٹ، افترا، ٹھس ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب مزید قوت و طاقت سے اس کام میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں، ان کی برس ہا برس کی محنت زائل ہوچکی ہے۔ جو لوگ کہتے تھے کہ ایران اگر اسرائیل پر حملہ کرے تو ہمارا نام بدل دینا، انہیں منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملی تو اب یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ایران کا حملہ کھلونا ڈرونز اور بغیر مصالحہ کے میزائلوں سے تھا، جس سے ایک چڑی بھی نہیں مری۔

اسرائیل کو پہلے سے ٹارگٹ بتایا تھا، لہذا کسی قسم کا نقصان ہونا تو درکنار ایک چیونٹی بھی نہیں مری، جبکہ اسرائیل کی تاریخ سے سب واقف ہیں کہ یہ کبھی بھی اپنا نقصان بالخصوص ہلاکتیں ظاہر نہیں کرتا، ہاں وقت کیساتھ ساتھ یہ نقصان سامنے آجاتا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہوا ہے کہ کچھ دن گزرنے کے بعد اپنا نقصان بتانے لگے ہیں۔ ایران نے جس مقام و جگہ کو اپنا ٹارگٹ قرار دیا تھا، اس پر کامیابی سے اپنے میزائل پہنچا کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ جو اسرائیل اپنے دفاعی نظام کا غلغلہ بجاتا تھا، اسے اس میں ناکامی کا سامنے کرنا پڑا ہے۔ اس کا دفاعی نظام ایرانی میزائلوں اور ڈرونز نے ناکارہ بنا دیا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس حملے کو ایرانی حکام نے قطعی طور پر محدود قرار دیا تھا، ان کا واضح پیغام تھا کہ یہ فقط دمشق حملہ کا جواب ہے، اسرائیل کی نابودی کا اہتمام نہیں ہے۔ اگر اسرائیل کی نابودی کا اعلان کرکے ایران حملہ کرے گا تو شاید حملے سے پہلے ہی اسرائیل کا وجود بکھر جائے گا۔ صیہونیوں کو بھاگنے کیلئے وقت نہیں ملے گا، اس وقت اسرائیل کے اندر نیتن یاہو کے خلاف عوام اٹھ کھڑی ہے، جبکہ فلسطینی مظلومین بالخصوص غزہ کے مظلومین کا لہو رنگ دکھا رہا ہے اور امریکہ کی یونیورسٹیز میں طلباء کی تحریک جنم لے چکی ہے، امریکہ جو آزادی اظہار و صحافت کا چیمپئن بنتا ہے، اپنے ملک میں ٹک ٹاک پر پابندی کا قانون پاس کرتا ہے۔

ایک عرصہ سے دنیا کو یہ سنائی دیتا تھا کہ اسرائیل ایران کے ایٹمی تنصیبات پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسرائیل نے عراق کے ایٹمی مرکز کو تباہ کیا تھا، اسرائیل نے اپنے ہمسائے عرب ممالک کی زمینوں کو قبضہ میں لیا، جن کو آج تک کوئی بھی واپس نہیں لے سکا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل مسلسل عربوں کو ڈراتا اور دھمکاتا آرہا ہے۔ ان ممالک میں کھلی و خفیہ کاروائیاں کرتا آرہا ہے۔ حماس کے کئی رہنماوں کو ترکی و امارات تک میں مختلف کارروائیوں میں شہید کرچکا ہے اور کسی نے اس کا بال بھی بیکا نہیں کیا۔

عرب اسرائیل جنگ کے بعد ایران نے یہ براہ راست حملہ کیا اور اس کی طاقت، اس کے دفاعی نظام، اس کی جوابی تاریخ و حکمت عملی و طاقت کا کھڑا کیا گیا ہوا، ہوا میں بکھیر دیا ہے۔ ایران کا یہ جوابی حملہ دراصل اسرائیل پر حملہ نہیں تھا، اسرائیل کے دفاع میں مدد دینے والے امریکہ، فرانس، برطانیہ، اردن، مصر و دیگر عرب ممالک پر بھی حملہ تھا۔ ان ممالک نے مشترکہ طور پر ایرانی حملے کو ناکام بنانے میں باقاعدہ حصہ لیا اور ایرانی ڈرونز و میزائرلز کو اسرائیل پہنچنے سے پہلے مار گرانے میں مدد کی۔ گویا جو میزائل اسرائیل میں جا کر گرے اور اہداف کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوئے، یہ امریکہ، اسرائیل فرانس، برطانیہ اور اردن کی دفاعی صلاحیتوں کو ناکام بنانے میں کامیابی سے ہمکنار ہو چکے ہیں۔

بہت تھوڑے اخراجات سے ایران نے جو اس حملے سے جنگی صلاحیتوں بارے معلومات حاصل کی ہیں، وہ بھی مستقبل میں ایران کیلئے نہایت ہی سود مند ہونگی۔ الغرض ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایران کو اس حملے سے سراسر فائدہ ملا ہے۔ اس کی طاقت، صلاحیت، اس کی جرات، استقامت اور شجاعت کی دھاک بیٹھی ہے، حملہ سے قبل دوست و علاقائی ممالک سے سفارت کاری سے بھی ایران کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ایران کا یہ حملہ اسرائیل کی عملی تباہی کا پیش خیمہ چابت ہوگا، جلد اسرائیل کا وجود دنیا کے نقشے سے محو ہو جائے گا، اس میں یقیناً سات اکتوبر اور چودہ اپریل کے حملوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 1131174
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش