0
Saturday 4 May 2024 10:21

ثقافتی یلغار کی آڑ میں جسد واحد کو بے حس بنانے کا پلان

ثقافتی یلغار کی آڑ میں جسد واحد کو بے حس بنانے کا پلان
تحریر: تصور حسین شہزاد

لاہور کی تاریخی درسگاہ، گورنمنٹ کالج لاہور، جو اب ’’گورنمنٹ کالج یونیورسٹی‘‘ بن چکا ہے، میں چار امریکی خواتین پر مشتمل موسیقار گروپ ’’ریننگ جین‘‘ کی پرفارمنس دکھانے کیلئے میوزیکل شو کا انعقاد کیا گیا۔ اس شو کا اہتمام خصوصی  طور پر امریکی قونصلیٹ کی جانب سے کیا گیا تھا۔ امریکی قونصلیٹ حکام کے مطابق اس میوزیکل بینڈ کا مقصد پاکستان کے نوجوانوں کو موسیقی کی جانب راغب کرنا ہے۔ لیکن شائد امریکی بھول گئے تھے کہ پاکستان میں غیور نوجوان بھی موجود ہیں۔ جی سی یونیورسٹی کے غیور نوجوانوں نے اس میوزیکل شو کا بائیکاٹ کیا، نہ صرف بائیکاٹ کیا بلکہ اس کو منسوخ بھی کروا دیا۔ طلبہ نے فلسطین کا پرچم تھامے اس امریکی اقدام کی مذمت کی۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پر جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے اور ہمیں ناچ گانے پر لگا کر بے حیائی کی طرف مصروف رکھا ہوا ہے۔

اس سے قبل بھی جب فلسطینیوں پر بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے، لاہور میں کرکٹ میچز کروائے جا رہے تھے اور جشن بہاراں منایا جا رہا تھا۔ جس کا مقصد صرف اور صرف قوم کو مصروف رکھنا تھا، تاکہ یہ فلسطینیوں کے حق میں نہ بول سکیں۔ اس کیلئے باقاعدہ ایک ایجنڈے کے تحت کارروائی کی گئی۔ امریکی قونصلیٹ ایسے اقدامات میں پیش پیش تھا۔ ابھی امریکی سفیر تین دن لاہور میں گزار کر گیا ہے۔ یکم سے تین مئی تک اس کا لاہور میں دورہ شیڈول تھا۔ امریکی سفیر نے یہاں قائم مقام گورنر پنجاب، وزیراعلیٰ پنجاب، پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سمیت اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ اس کے علاوہ پنجاب بھر میں پنجاب آرٹس کونسل کے زیراہتمام سکولوں میں ’’موسیقی کے مقابلے‘‘ کروائے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے تمام اضلاع کی ایجوکیشن اتھارٹیز کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپنے اپنے اضلاع میں ایسے پروگرامز تشکیل دیں۔

اس کیخلاف تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے دھمکی بھی موصول ہوچکی ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے کہا گیا کہ پنجاب حکومت فوری طور پر یہ بے ہودہ پروگرامز بند کروائے، بصورت دیگر ٹی ٹی پی خود اس کا ’’بندوبست‘‘ کرے گی۔ پنجاب آرٹس کونسل کے حکام کا کہنا ہے کہ ہمیں ان تحفظات کا علم تھا، اس لئے تمام اضلاع کی اتھارٹیز کے حکام کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ ایسی تقریبات کی سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کئے جائیں۔ جس کیلئے پولیس کی خصوصی سکیورٹی فراہم کی جا رہی ہے۔ کلچر اور ثقافت کے نام پر تعلیمی اداروں میں نسل نوء کو گمراہی کے جن اندھیروں میں دھکیلا جا رہا ہے، یہ ثقافت ہماری ہے، نہ اس کلچر کا ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق ہے، بلکہ صرف اور صرف منظم اور سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت ہماری نسل نوء کے بدن سے روحِ محمدی نکالی جا رہی ہے۔

ہماری آنیوالے نسل کو ایسی قوم بنایا جا رہا ہے، جس کے دل میں امت کا درد نہیں ہوگا، گانا بجانا اور میوزیکل شوز ان کی پسندیدہ تقریبات ہوں گی۔ انعامات کا لالچ دے کر نوجوانوں کو ناچنے گانے پر مائل کیا جا رہا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جس کلچر و ثقافت کا ہمارے معاشرے کی اقدار کیساتھ کوئی تال میل ہی نہیں، اسے ہمارے معاشرے میں رائج کیا جا رہا ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں ناچ گانے کی تو اجازت ہے، لیکن فلسطین کے مظلوم عوام کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے مظاہرہ کرنے یا ریلی نکالنے کی اجازت نہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا واقعہ ہمارے سامنے ہے۔ وہاں طلبہ سے فلسطینی پرچم چھین لئے گئے، مگر کہتے ہیں کہ
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تک ودو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

ان طلبہ نے بھی ہار نہیں مانی اور زبردستی اپنے مظلوم فلسطینیوں بھائیوں کیساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

اسی طرح کراچی یونیورسٹی اور لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں بھی مظاہرے ہوئے۔ طلبہ نے اپنے فلسطینی بھائیوں کیساتھ اظہار یکجہتی کیا اور اسرائیلی مظالم کی مذمت کی۔ حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو یہ احکامات دیئے گئے تھے کہ طلبہ کو فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے کی اجازت نہ دی جائے، مگر طلبہ نے اس پابندی کو جوتے کی نوک پر رکھا۔ حکومت نے ثقافت کی آڑ میں قوم کو الجھانے کی کوشش کی، مگر شہداء کے بے گناہ خون کی اپنی تاثیر ہے۔ خون سر چڑھ کر بولا اور آج نہ صرف مسلم دینا بلکہ خود امریکہ کی یونیورسٹیوں میں طلبہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، آئے روز مظاہرے ہو رہے ہیں اور نوجوان نسل صرف ایک مطالبہ کر رہی ہے کہ فلسیطینیوں کی نسل کشی بند کی جائے۔

فلسطین میں ہزاروں شہید ہونیوالے بچے کیا دہشتگرد تھے؟ خواتین کے بے گوروکفن پڑے لاشے پوری دنیا سے یہ سوال کرتے ہیں کہ انہیں کس جرم میں شہید کیا گیا؟ ’’ایک تو چوری، اوپر سے سینہ زوری‘‘ کے مصداق ایک ناجائز ریاست اس حد تک جا سکتی ہے، یہ کسی نے سوچا بھی نہ ہوگا۔ لیکن افسوس کہ غیر مسلم تو سراپا احتجاج ہیں، لیکن ہماری امت جس کو ’’جسد واحد‘‘ کی سند ملی ہوئی ہے، یہ جسد واحد مردہ ہوچکا ہے۔ اس کی سوچ پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے احساس کو مار دیا گیا ہے، ہزاروں لاکھوں بچے ہماری آنکھوں کے سامنے شہید کر دیئے گئے، غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا، لیکن ہم ان کیلئے جہاد پر نکلنا تو دور، ہم تو احتجاج کرنے کیلے بھی نہ نکل سکے۔ یہ حالت ہے ہماری۔ ایسی صورتحال میں کس سے شکوہ کریں؟ کس کو حالِ دل سنائیں۔؟
خبر کا کوڈ : 1132750
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش