0
Wednesday 27 Mar 2024 22:15

افغانستان، طالبان، دہشتگردی کے مراکز

افغانستان، طالبان، دہشتگردی کے مراکز
تحریر: ارشاد حسین ناصر

کسے معلوم نہیں کہ دہشت گردی، فرقہ واریت، تشدد، تعصب اور عالمی سازشوں کی اصل آماجگاہ اس خطے میں افغانستان ہے۔ افغانستان جو گذشتہ چار دہائیوں سے مسلسل خود بھی بدامنی، شدت پسندی، دہشت گردی، جنگ و جدال، لڑائی، لوٹ مار، قتل و غارت گری، تعصبات، تنگ نظریوں کا شکار چلا آرہا ہے اور خطے کے دیگر ممالک بشمول ہمسایہ ممالک جن کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں، ان کو بھی اپنے اثرات کا شکار کر رکھا ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ افغانستان کے اس ماحول کے سب سے زیادہ منفی اثرات پاکستان پر پڑے۔ اقتصادی اثرات، ثقافتی اثرات، مذہبی اثرات، دینی حالات، امن و سلامتی کے اثرات، تعصبات کے اثرات، منشیات و کلاشنکوف کلچر کے اثرات، ان اثرات کو ہر حوالے سے پاکستان گذشتہ چار دہائیوں سے بھگت رہا ہے اور اس کا سلسلہ ابھی تک تھما نہیں۔ اس لیے کہ پاکستان میں اس وقت بھی لاکھوں افغان مہاجرین آباد ہیں، نہ فقط آباد ہیں بلکہ یہاں وسیع کاروبار، رشتہ داریاں اور سیاسی و سماجی قوت بنے ہوئے ہیں۔

اگر ہم حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو ہمیں ان چار دہائیوں میں دکھتا ہے کہ پاکستان کی حکومتوں اور اداروں نے انہیں اس قدر چھوٹ دی کہ جیسے یہی اس ملک کے مالک و مختار اور اصل باسی ہوں۔ اس مملکت خداد کو اس نہج تک پہنچانے کی ذمہ داری یقیناً ماضی کے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے، جن کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ یہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ حکمرانوں نے ذاتی پسند و ناپسند اور عالمی قوتوں کی خواہشات کی تکمیل کیلئے ایسا کیا، بلکہ ہمارے اداروں نے افغانستان میں اپنی من پسند اقوام کو طاقتور بنانے کیلئے بے دریغ وسائل استعمال کیے، جس سے مختلف اقوام پختون، ہزارہ، تاجک، ازبک، قندھاری، کابل، ہراتی میں منقسم معاشرہ مزید تقسیم ہوا اور ایسے حالات پیدا ہوئے کہ یہ تعصبات، لڑائیاں، جھگڑے اور جنگ و جدل آج تک ختم نہیں ہوئے اور بہ ظاہر طالبان کی حکومت آنے کے بعد امن و امان کے تمام تر دعووں کے باوجود جنگ و جدل، لڑائیاں، جھگڑے، قتل و غارت گری کے مظاہرے اور معاشرہ کی تقسیم اور تعصبات کے کئی ایک مظاہرے آئے روز سامنے آجاتے ہیں۔

افغان طالبان میں چونکہ پختون یعنی پشتو بولنے والوں کی اکثریت ہیں، لہذا اقتدار میں آتے ہی ان کی طرف سے فارسی زبان اقوام، ان کی ثقافت، ان کی زبان، ان کے مذہبی عقائد پر پابندی لگا دی گئی۔ اس حد تک تعصب برتا گیا کہ فارسی زبانوں کے اکثریتی علاقوں میں بھی فارسی زبان میں لکھے آویزاں بل بورڈز تک ہٹا دیئے گئے۔ سرکاری خط و کتابت بھی پشتو میں ہونے لگی اور فارسی زبان و دیگر زبان اقوام کو ایک اقلیت کا درجہ دے دیا گیا۔ ان پر خوف و ہراس کے پہرے بٹھا دیئے گئے، انہیں بہت سے علاقوں میں اپنے آبائی گھروں سے محروم کیا گیا ہے۔ الغرض ان پر پابندیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ آج بھی چل رہا ہے۔ اس وقت افغانستان میں فارسی زبان اقوام کو اپنی بقا کی جنگ لڑنا پر رہی ہے۔ ان پر کاروبار، روزگار، نوکریوں میں حد درجہ تعصب برتا جا رہا ہے۔

اسی طرح مذہبی حوالے سے اہل تشیع اقوام بالخصوص اہل تشیع کو سخت پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، ابھی حالیہ دنوں مین نوروز کے جشن پر سخت پابندی عائد تھی۔ نوروز پر تحائف دینے کے عنوان سے ایک ملا طالب کی ویڈیو نظر سے گزری، جو اس دن تحائف لینے دینے پر شرعی حکم لگا رہا تھا۔ اس کیساتھ ساتھ افغانستان میں اہلحدیث وہابی مکتب کے لوگوں کو بھی اس وقت شدید مشکلات کا شکار کیا جا رہا ہے۔ داعش جسے ہم طالبان کا ہی دوسرا رخ سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں عمومی خیال ہے کہ یہ لوگ عقائد کے لحاظ سے اہلحدیث ہوتے ہیں۔ اس لیے طالبان نے اہلحدیثوں کو سخت پابندیوں اور خوف و ہراس کا شکار بنائے ہوئے ہیں۔ حالیہ ماہ مبارک رمضان میں ایسی خبریں بھی نظر سے گزریں کہ طالبان نے آٹھ رکعت تراویح پڑھنے پر سخت پابندی لگا دی، جبکہ اہلحدیث آٹھ رکعت نماز تراویح پڑھتے ہیں۔

یاد رہے کہ داعش نے اس دور اور گذشتہ ادوار میں اہل تشیع کے بہت سے مراکز تعلیم و مساجد کو خودکش دھماکوں سے نشانہ بنایا ہے جبکہ حالیہ قندھار بم دھماکہ کے بارے بھی داعش نے ہی ذمہ داری قبول کی تھی۔ قندھار بنک حملہ کے بارے میں طالبان کے میڈیا نے ایک رپورٹ پبلش کی، جس میں بتایا گیا کہ قندھار حملے کے بارے میں*المرصاد کو سکیورٹی ذرائع سے تازہ معلومات وصول ہوئی ہیں کہ قندھار حملہ مادیاروف اسد بیک نامی ایک شخص نے کیا، جو وسطی ایشیاء کے ایک ملک کا شہری تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ایک اور ساتھی کے ساتھ دو ماہ قبل پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں داعش خراسان میں شامل ہوا تھا۔ یہ دونوں پچھلے دو ماہ سے بلوچستان میں عقیدے اور فکر کی تربیت حاصل کر رہے تھے۔ مادیاروف اسد بیک حملے سے چند روز قبل قندھار میں داخل ہوا اور پھر قندھار حملہ کیا۔

ذرائع کے مطابق صوبہ بلوچستان اب داعش خراسان کے ایک اہم مرکز کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اس صوبے میں داعشیوں کے خفیہ مراکز، تربیتی مراکز اور بارود بنانے کی ورکشاپس موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ داعش خراسان کا سربراہ شہاب المہاجر خود بھی اور اپنے قریبی ساتھیوں سمیت صوبہ بلوچستان میں رہ رہا ہے اور اس جگہ سے افغانستان اور دیگر دنیا میں حملے ترتیب دیتا ہے۔ ایران میں کرمان حملہ بھی پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے طارق اور عبد اللہ کے فرضی ناموں والے ایک تاجکستانی شہری نے ترتیب دیا تھا اور وہ اس حملے کے اہم منصوبہ سازوں میں سے تھا۔۔۔۔۔ یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان میں بھی داعشی فوج کے سیاسی مخالفین، مغرب مخالف دینی علمائے کرام اور پاکستانی بلوچ قوم پرستوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

ماسکو حملہ اور داعش کے نئے مراکز نعمان ھرویقوقاز کو 2015ء میں داعش نے اپنے تنظیمی ڈھانچے میں ولایت کا درجہ دیا تھا اور یہ داعش کے مکتب الفاروق کے ساتھ مربوط تھا۔ روس، جارجیا، آذربائیجان، چیچنیا اور داغستان کے علاقے داعش کے تنظیمی ڈھانچے میں مکتب الفاروق کے تحت قوقاز ولایت سے مربوط ہیں۔ یاد رہے کہ داعش کے بارے میں مختلف لوگ مختلف آراء رکھتے ہیں کہ ایک اصل داعش ہے، ایک مصنوعی داعش ہے۔ مصنوعی داعشی وہ داعشی ہیں، جنہیں بعض ممالک کے انٹیلی جنس اداروں نے بنایا ہے۔ یہ اصلی داعشیوں کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں اور اصلی داعشیوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ان کے حکم کے مطابق کام کرتے ہیں۔مصنوعی داعشیوں کو کھڑا کرنے کا مقصد انہیں اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کرنا ہے، جبکہ اس کی ذمہ داری اصلی داعشی اپنے سر لے لیتی ہے۔

ابھی ماسکو تھیٹر میں ہونے والے حملہ کو بھی داعش نے تسلیم کیا، مگر روس نے اسے یوکرائن سے مربوط کیا، جو ثابت کرتا ہے کہ مصنوعی داعش ایک الگ سلسلہ ہے، پاکستان میں ہونے والے کئی ایک حملوں میں بھی ایسا ہوچکا ہے، جسے طالبان نے بھی تسلیم کیا اور داعش نے بھی اپنے میڈیا اکاءونٹس سے تسلیم کیا۔ بعض اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ داعش اب داغستان اور تاجکتسان سے آپریٹ ہو رہی ہے، ان علاقوں میں یہ اپنے وسیع نیٹ ورک و مراکز قائم کرچکے ہیں۔ طالبان میڈیا ذرائع اور رپورٹ س سے ایسا لگتا ہے کہ طالبان قندھار دھماکے کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں، جبکہ ایک عرصہ سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں کی ذمہ دار تحریک طالبان کے بارے پاکستانی وزارت خارجہ و انٹیلی جنس اداروں نے طالبان قیادت تک اپنے تحفضات پہنچائے ہیں، اس بات افغان طالبان کبھی بھی انکاری نہیں ہوئے کہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت ان کی میزبانی کا لطف اٹھا رہے ہیں بلکہ ان کا موقف ہے کہ ہم پاکستان کے امن و امان کے ذمہ دار نہیں ہیں، یہ پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے، جسے انہیں خود ہی حل کرنا ہے۔

ہمارا موضوع طالبان اور اس کی جارحانہ و متشدد پالیسیاں ہیں، جو وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ بالاخص پاکستان کے ساتھ رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان نے افغانستان پر حملے کیے تو ان کی طرف سے پاکستان کا وجود ختم کرنے کی دھمکیاں دی گئیں اور کھلے الفاظ میں کہا گیا کہ طالبان ہر حد تک جائیں گے۔ پاکستان نے اگرچہ یہ اصنام اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے ہیں اور بلا شک و تردد انہیں خود تراشا، خراشا، پالا، پوسا ہے، وہ لوگ جو پاکستان میں ہمارے اداروں کی میزبانی سے سالہا سال لطف اندوز ہوتے رہے ہیں، اب انہی اداروں کا نام لیکر دھمکاتے ہیں تو کافی عجیب لگتا ہے، جبکہ وہ عام لوگوں سے زیادہ ان اداروں کی پہنچ اور اپروچ سے واقف ہیں۔ طالبان کے پاس سب سے اہم ہتھیار دہشت گردی ہے، جس کو وہ بڑے بے رحمی سے استعمال کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی وہ اسی کی دھکمیاں دے رہے ہین، مگر یہ بھول گئے ہیں کہ اب صرف وہی خودکش دھماکے نہیں کرسکتے، ان کے مخالف بھی کرسکتے ہیں اور قندھار دھماکہ اس کی تازہ مثال ہے۔ لہذا دھمکیاں دینے کے بجائے انہیں پاکستان پر حملہ آوار دہشت گردوں کو لگام دینا ہوگی، چاہے ان کا تعلق تحریک طالبان سے ہو یا بلوچ و انڈین نیٹ ورکس سے۔۔۔!
خبر کا کوڈ : 1125307
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش