0
Thursday 22 Mar 2018 00:30

امن کا نشان۔۔۔۔ ہمارا پاکستان۔۔۔۔ مگر کیسے؟؟

(یومِ پاکستان کے حوالے سے خصوصی تحریر)
امن کا نشان۔۔۔۔ ہمارا پاکستان۔۔۔۔ مگر کیسے؟؟
تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com

اسلامی تعلیمات میں امن و سلامتی کا مفہوم بہت وسیع اور جامع ہے، چنانچہ توحید، وحی، رسالت اور عقیدہ آخرت جیسے بنیادی اسلامی عقائد کو امن و سلامتی کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ رب العالمین کے اسماء حسنی میں "الرحمن‘‘ (نہایت مہربان)، ’’المومن‘‘ (امن یا امان عطا کرنے والا)، ’’المھیمن‘‘ (نگہبان)، ’’الحفیظ‘‘ (حفاظت کرنے والا ) اور ’’السّلام‘‘ (سلامتی عنایت کرنے والا) شامل ہیں۔ عربی زبان میں امن کے لئے ’’سلام‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسلام میں امن کی اہمیت کا اندازہ مسلمانوں کے سلام سے ہوتا ہے۔ جب وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں ’’السلام علیکم‘‘ کہہ کر ایک دوسرے کو امن اور سلامتی کی دعا دیتے ہیں۔ اس کا ایک بڑا مطلب یہ بھی کہ دنیا کی سب سے بڑی ضرورت امن ہے، تبھی اسلام نے اپنے پیروکاروں کو پہلا اور ابتدائی سبق ہی یہی دیا ہے، سب سے پہلے ایک دوسرے کے لئے امن و سلامتی چاہو۔ امن و سلامتی ہوگی تو تم زندہ رہو گے۔ زندہ رہو گے تو دین یا دنیا نبھا پاو گے۔ دین و دنیا اچھا نبھاو گے تو آخرت کا سامان مہیا و میسر کر سکو گے۔ لہذا انسانی زندگی کے اس تمام سفر کا پہلا اور ابتدائی مرحلہ امن و سلامتی ہے۔  اسی طرح اسلامی تعلیمات میں لوگوں کے ساتھ باہمی تعلقات کی بنیاد رحم و کرم، الفت و محبت، عزت و احترام، امن و سلامتی، عفو و درگذر اور عدل و انصاف پر استوار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اسلامی تعلیمات میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالٰے اور نبی اکرم ﷺ کے نزدیک مسلمان کی پہچان ہی یہ ہے کہ اس سے دوسروں کو تکلیف اور ایذا نہیں پہنچتی اور وہ بنی نوع انسان کے لئے سکون، رحمت اور اطمینان کا باعث بنتا ہے اور دوسروں کو نفع پہنچاتا ہے۔ امن اس وقت حاصل ہوتا ہے، جب انسان خود کو ہر قسم کے خوف اور خطرات سے محفوظ محسوس کرتا ہو، اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کو بھی خوف اور خطرات سے محفوظ رکھے۔ دوسرے لفظوں میں امن اس صورت برقرار رہے گا، جب کوئی بھی انسان کسی قسم کا خوف یا خطرہ محسوس نہ کرے۔ وہ پرسکون زندگی بسر کرسکے اور اسے اپنی صلاحیتوں کے مطابق ترقی کرنے کے مکمل مواقع حاصل ہوں۔

کسی انسان یا معاشرے کے لئے امن طبعی، ذہنی، روحانی اور سماجی لحاظ سے بندوں کے خوف سے آزاد ہونے کا نام ہے۔ اسلام اہل ایمان کو پابند بناتا ہے کہ وہ اپنی اور معاشرتی زندگی کو امن کا گہوارہ بنائیں۔ خود بھی امن و آشتی سے رہیں اور دوسروں کے لئے بھی امن کے علم بردار بنیں۔ امن کی منافی سرگرمیوں سے دور رہیں۔ ظلم و فساد کی حوصلہ شکنی کریں، مگر اس گوہرِ مقصود کو حاصل کرنے کے لئے معاشرے میں عدل اجتماعی کا ہونا ضروری ہے، تاکہ ہر ایک کو بلاتمیز مذہب و مسلک اس کے جائز حقوق کے تحفظ کی ضمانت مل سکے۔ اللہ تعالٰے کے سامنے سرِتسلیم خم کرتے ہوئے زندگی گذارنا اور دوسرے انسانوں کے ساتھ صلح سے رہنا اور زمین پر شر و فساد نہ پھیلانا دراصل امن ہے۔  وطنِ عزیز پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا، اسلام ہی اس کے غالب اکثریت شہریوں کا مذہب اور دین ہے اور اسلامی تعلیمات ہی اس کے دستور اور آئین کی بنیادوں اور اساس میں شامل نہیں بلکہ خود اساس ہیں۔ لہذا جہاں پاکستان کی ذمہ داری اسلام کی آبیاری کرنا ہے، جہاں اسلامی تعلیمات کو نافذ کرنا ہے، وہاں اسلام کا روشن اور پرامن چہرہ بھی دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ مذہبی و علاقائی و نسلی اختلافات نے دنیا کا امن تباہ کیا ہوا تھا، اس پر ستم یہ ہوا کہ سیاسی اور علاقائی اختلافات نے بھی اس انداز سے سر اٹھایا کہ بات جنگوں تک جا پہنچی۔ دنیا میں اس وقت امن کی تباہی میں جس چیز نے بنیادی حیثیت حاصل کر رکھی ہے، وہ ہے طاقت کا عدم توازن، کمزوروں پر غلبے کی دوڑ اور رول اینڈ ڈیوائڈ کی پالیسی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تین چار دہائیوں سے اس پالیسی کی زد میں بالواسطہ یا بلا واسطہ ضرور موجود ہے۔

23 مارچ 1940ء کو پاکستان کی بنیاد رکھنے کے پس پردہ بنیادی فکر ہی امن پر مشتمل تھی۔ قائد اعظم حضرت محمد علی جناح ؒ نے برصغیر کو بدامنی اور انتشار سے بچانے کے لئے الگ ملک کا مطالبہ کیا انگریز تو چاہتا تھا کہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی اختلافات میں اتنی شدت رکھی جائے کہ دونوں آپس میں مستقل دشمنی اختیار کرلیں اور امن کا تصور ہی نہ ہو۔ تاکہ دونوں قوموں کی باہمی دشمنی ہمیں حکومت کا جواز فراہم کرتی رہے اور ہم صدیوں تک برصغیر پر قابض رہیں، لیکن قائد اعظم نے ہر زاویے سے اپنی سیاسی بالغ نظری سے کام لیا اور بیک وقت انگریز اور ہندوں کے عزائم کو ناکام بنایا۔ اپنی جدوجہد کو شدت پسندی اور قتل و غارت کی طرف نہیں جانے دیا بلکہ سیاسی، شعوری اور علمی انداز میں سیاست کو آگے بڑھایا، یعنی پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے اتنی بڑی اسلامی ریاست کا وجود یقینی بنایا۔ قائداعظم اور ان کے رفقاء نے پاکستان کی تحریک کو پرامن رکھ کر امن کو پاکستان کی اساس اور بنیاد میں شامل کر دیا اور آنے والی نسلوں کو بتا دیا کہ جس طرح ہم نے پاکستان کے حصول میں امن کو رہنماء بنایا ہے، اسی طرح پاکستان کو چلانے میں بھی تم نے امن کو رہنماء بنانا ہے۔ امن اگر اسلام میں واجب ہے تو پاکستانی آئین میں بھی امن لازم ہے قانون تو ہوتے ہی امن کو برقرار کرنے کے لئے ہیں۔ جب بھی امن خراب کرنے یا امن تباہ کرنے یا بدامنی پھیلانے کے لئے کسی بھی فرد اور گروہ کی طرف سے قدم اٹھایا جائے گا، تب آئین اور قانون سب سے پہلے اس کے مقابل آئیں گے اور آئین و قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولین ذمہ داری ہوگی کہ امن کے قیام اور بدامنی کے خاتمے کے لئے میدانِ عمل میں آئیں۔

پاکستان میں گذشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے امن پامال ہے۔ اس پامالی میں جہاں بعض فرقہ پرست مذہبی جنونی گروپوں کا عمل دخل ہے، وہاں بعض لسانی وطن دشمن گروہ بھی شامل ہیں۔ جہاں بعض قوم پرست جنونی گروہ امن پامال کرنے میں لگے ہوئے ہیں، وہاں دشمن ممالک کے لئے کام کرنے والے عناصر بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں جہاں عالمی طاقتوں کی مخصوص پالیسیوں کے سبب امن پامال ہو رہا ہے، وہاں بعض مسلم ممالک بھی اپنے مفادات کے حصول میں پاکستان کا امن پامال کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بدامنی کی ذمہ داری جہاں بعض ہمسایہ دشمن ممالک کی سازشوں پر عائد ہوتی ہے، وہاں خود پاکستان کے اتحادی ممالک کی جانبدارانہ پالیسیوں کا عمل دخل بھی شامل ہے۔ حقیقت پسندی سے کہا جائے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کا امن جہاں خود پاکستان کی اپنی ناقص خارجہ پالیسی کی وجہ سے تباہ ہو رہا ہے، وہاں بدترین داخلہ پالیسی بھی امن تباہ کرنے میں دخیل ہے، جس میں شدت پسند گروہوں کی ریاستی سرپرستی ہوتی ہے۔ شدت پسندوں کو سیاسی مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ شدت پسندوں کے خوف سے قانون پر عمل نہیں کیا جاتا۔ شدت پسندوں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ عالمی دنیا سے امداد اور فوائد حاصل کرنے کے لئے شدت پسندوں کو باقی رکھا جاتا ہے۔ دیگر اسلامی یا غیر اسلامی ممالک کو ان کی داخلی سلامتی بحال رکھنے کے لئے پاکستان سے شدت پسندوں کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی ریاست اور حکومت امن پسندوں اور شدت پسندوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتی ہے۔ یہاں ذاتی قتل مقدمات، زنا کے مقدمات، زینب اور اس جیسے دیگر مقدمات، ڈکیتی کے دوران قتل کے مقدمات، پولیس اور فوج پر حملوں اور قتل کے مقدمات پر تو بہت سرعت کے ساتھ سماعت بھی کی جاتی ہے اور فیصلے بھی سنائے جاتے ہیں اور عمل درآمد میں بھی تاخیر نہیں کی جاتی، لیکن فرقہ وارانہ قتل و غارت کے مقدمات، خودکش حملوں کے مقدمات، سو سو لاشیں گرانے کے مقدمات، انفرادی اور اجتماعی دہشت گردی کے مقدمات، ایک دوسرے کو کافر قرار دینے اور اس کے نتیجے میں قتل کرنے کے مقدمات، شدت پسندوں کے کھلے عام اعترافات کے مقدمات اور عدالتوں سے شدت پسندوں کو پھانسی دینے کے احکامات کے مقدمات پر ہزاروں حیلے اور بہانے کیے جاتے ہیں۔ ہزاروں پالیسیاں سامنے آجاتی ہیں۔ ہزاروں اندرونی اور بیرونی مشکلات کا راگ الاپا جاتا ہے۔ دیگر مقدمات میں جب لوگ پھانسی کی سزا پا کر پاکستانی جیلوں میں تختہ دار پر لٹکا دیئے جاتے ہیں، تب یورپ اور عالمی اداروں کا واویلا خاطر میں نہیں لایا جاتا، لیکن جونہی مذہبی قتل و غارت گری یا گستاخی کا کوئی مجرم سزا سے دوچار ہونے کے قریب آتا ہے تو پھانسی کے عالمی قوانین یاد آجاتے ہیں؟؟ معاملہ کوئی اور۔

ان دنوں ہمارے ریاستی ادارے پاکستان میں امن کے قیام کے لئے عملی جدوجہد کرنے میں مشغول ہیں۔ حکومتوں کے معاملات میں اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں۔ اس میں تب کوئی حرج نہیں جب آپ واقعی امن کے قیام میں ان کمزوریوں اور کمیوں کو رفع کریں، جو حکومتوں سے واقع ہوتی رہی ہیں۔ امن کے قیام اور دھرنوں کے خاتمے کے معاہدے بھی کرائے جا رہے ہیں۔ طالبان جیسے کھلے پاکستان دشمن اور ہزاروں پاکستانیوں کے خون میں ہاتھ رنگنے والے طالبان لیڈروں کو کھلے عام معافیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ اگر ریاستی ادارے یہ خدمت پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے انجام دے رہے ہیں تو اس کے اثرات زمین پر سامنے آنے چاہیں۔ تب انہیں سراہا جانا چاہیے اور اگر محض شہریوں کی جذباتی حمایت حاصل کرنے اور سیاسی جماعتوں و جمہوری حکومتوں کو خراب کرنے کے لئے یہ سب کچھ امن کے نام پر کیا جارہا ہو تو اس پر نظرثانی تو بنتی ہے۔ پاکستان میں امن کے قیام کے لئے ان تمام مجرموں کو تختہ دار پر لٹکانا ضروری ہے، جو پاکستان میں کسی بھی لحاظ سے بدامنی پھیلانے میں ملوث رہے ہیں اور ان کا ملوث رہنا عدالتوں اور عوام میں ثابت شدہ ہے۔

ان مجرموں میں سرفہرست وہ مذہبی اور فرقہ پرست جنونی مجرم ہیں، جو مسلح افواج سے لے کر ہر سرکاری ملازم کے قتل تک، مسیحی و ہندو مذہب سے لے کر قادیانی مذہب کے پیروکار کے قتل تک، شیعہ، بریلوی دیوبندی ٹارگٹ کلنگ سے لے کر مساجد و مزارات پر خوب بہانے تک، ہسپتالوں، پارکوں، بس اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں، بازاروں، عوامی مقامات اور شاہراہوں پر عام پاکستانی شہریوں کے قتل میں شامل ہیں۔ ان مجرموں کو روزانہ کی بنیاد پر تختہ دار پر لٹکانا حکومتوں کے بس کا روگ نظر نہیں آتا بلکہ یہ خدمت بھی ریاستی اداروے ہی انجام دے سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس سارے کے سارے اختیارات بھی ہیں اور ساری کی ساری طاقتیں بھی۔ آیئے یوم پاکستان پر روایتی قسم کے عہد کی بجائے، دشمن کی توپیں بند کرنے کے عہد کی بجائے، اسلام کا قلعہ بنانے کے عہد کی بجائے، اداروں کی بالادستی کے عہد کی بجائے اور جمہوریت کو بچانے کے عہد کی بجائے قاتلوں اور مجرموں کو ہر حالت میں تختہ دار پر لٹکانے کا عہد کیا جائے۔ عدلِ حقیقی و اجتماعی نافذ کرنے کا عہد کیا جائے اور ہر حال میں امن و سلامتی قائم کرنے کا عہد کیا جائے۔ یہ ہی پاکستان کی اصل ضرورت ہے اور یوم پاکستان کا اصل تقاضا۔
خبر کا کوڈ : 713094
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش