0
Wednesday 17 Apr 2024 18:49

اسرائیل پر حملے سے ایران کو فائدہ ہوا یا نقصان؟

اسرائیل پر حملے سے ایران کو فائدہ ہوا یا نقصان؟
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

1973ء کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کسی غیر عرب ملک نے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کی ہے۔ یعنی ایران کا آپریشن وعدہ الصادق۔ اس کارروائی کے بعد عالمی سطح پر بننے والا منظر نامہ کچھ اس طرح کا ہے کہ کچھ عناصر جن کا طرزعمل ہمیشہ فلسطین پر خاموشی رہا ہے، وہ اس وقت شدت کے ساتھ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس حملے سے فائدہ کس کو ہوا؟ ایران کو یا اسرائیل کو؟ بہرحال عالمی ذرائع ابلاغ میں گفتگو کرنے والے امریکی، برطانوی، حتیٰ خود صیہونی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایران کی جوابی کارروائی میں ایران کی طاقت پوری دنیا کے سامنے آئی ہے۔

پاکستان کے سینیئر سیاستدان اور سینیٹر مشاہد حسین سید نے ایران کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کی جرات اور بہادری کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ 1973ء کے بعد ایران غیر عرب ملک ہے کہ جو اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کی ہمت کر گیا ہے۔ اس سے پہلے آخری مرتبہ 1973ء میں پاکستان واحد غیر عرب ملک تھا، جس کی پاک فضائیہ کے ہوا بازوں نے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ ایران کو فائدہ ہوا ہے یا نہیں، اس حوالے سے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ خود غاصب صیہونی حکومت کا ردعمل کیا ہے۔؟ جیسا کہ ایران نے اعلان کیا ہے کہ اس جوابی حملے میں دو اہم اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے، جن میں ایک انٹیلی جنس ہیڈ کوارٹر ہے جبکہ دوسرا فضائی اڈا ہے اور دونوں کو کامیابی سے نشانہ بنا کر نقصان پہنچایا گیا ہے۔

برطانیہ میں موجود ایران مخالف محقق نور علی زادہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایران کی کارروائی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ بات بالکل ایسی ہی ہے، جیسے دن کو رات کہا جائے۔ کیونکہ اب اگر یہ بات مان لی جائے کہ نقصان نہیں ہوا ہے تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس کیوں بلاتی رہی؟ اور ابھی تک غاصب صیہونی حکومت کی جنگی کابینہ کے پانچ سے زیادہ اجلاس صرف اس بات پر کیوں ہوچکے ہیں کہ ایران کے خلاف کارروائی کی جائے؟ یہ ساری صورتحال دیکھ کر واضح ہو جاتا ہے کہ اسرائیل کو ٹھیک ٹھاک نقصان بھی پہنچا ہے اور ساتھ ساتھ دنیا بھر میں رسوائی بھی ہوئی ہے۔

ان سب باتوں سے بڑھ کر جو فائدہ ایران نے حاصل کیا ہے، وہ اسرائیل کی طاقت، گھمنڈ اور دنیا کے سامنے اس کے ناقابل تسخیر ہونے یا کسی کے حملہ نہ کرنے کے تاریخ کو توڑ کر رکھا دیا ہے۔ دنیا کے لئے راستہ کھول دیا ہے کہ اگر اسرائیل یا کوئی بھی جارح ریاست آپ کی خود مختاری کے خلاف کارروائی کرے تو اسے سزا دینے کے لئے یہی طریقہ کار ہے۔ حقیقت میں یہی سب سے بڑا فائدہ ہے، جو ایران نے اس جوابی کارروائی کے بعد حاصل کیا ہے۔ برطانیہ میں مقیم ایران مخالف محقق نور علی زادہ کی رائے کے بعد خود تل ابیب یونیورسٹی سے منسلک محقق جو کہ غرب ایشیاء کے امور کے ماہر بھی مانے جاتے ہیں، ڈاکٹر ایرک روندسکی نے کہا ہے کہ ایران کی جوابی کارروائی کے بعد اسرائیل میں ایک ہنگامی صورتحال ہے، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسرائیل ناکام ہوچکا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں رہنے والوں کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا ہے کہ اب ایران کی طرف سے دوبارہ بھی ایسے حملے کئے جاسکتے ہیں۔ یعنی شہریوں میں بے یقینی کی کیفیت ہے اور حکومت کی بوکھلاہٹ بھی واضح ہے۔اسرائیل کے محقق ڈاکٹر ایرک کے مطابق اسرائیل کو نقصان ہی نقصان ہوا ہے۔ ڈاکٹر ایرک کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے اندر ایران کے حملوں کو روکنے میں بھی ناکام ہوا ہے، جس سے اسرائیل کی عسکری اور فوجی برتری بھی دنیا پر عیاں ہوچکی ہے۔ جو کچھ گذشتہ 75 سالوں میں اسرائیل نے بھرم قائم کیا تھا، وہ سب ایران نے صرف چند گھنٹوں میں ہی بھسم کرکے رکھ دیا ہے۔

دوسری جانب اسرائیل کے ایک اخبار روزنامہ یدیعوت احرنوت نے بھی اپنی رپورٹ میں ایسے ہی اشارے دیئے ہیں کہ جس میں ظاہر ہوتا ہے کہ خود اسرائیل کے اندر یہ بحث چل رہی ہے کہ اسرائیل نے بڑا نقصان اٹھا لیا ہے۔ اسی روزنامہ نے اپنی رپورٹ میں دمشق میں ایران کے سفارتخانہ پر اسرائیل کے حملہ اور صیہونی کابینہ کے اندازوں کو احمقانہ قرار دیا ہے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ ایران کی جانب سے اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی دراصل اسرائیل کی بہت بڑی شکست ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ نقصان کس کا ہوا اور فائدہ کس کا ہوا بلکہ سوال یہ ہونا چاہیئے کہ آخر ایران کے میزائل کس طرح اسرائیل کی حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ یہی اصل میں ایران کی فتح ہے۔

امریکی تجزیہ نگاروں نے بھی ایران کی اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اسرائیل کے لئے ایک بڑی مشکل اور شکست سے تشبیہ دیا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں تجزیہ نگاروں کی جانب سے ہونے والی گفتگو میں کہا گیا ہے کہ ایران نے اسرائیل کی نواتیم ایئر بیس کو کامیابی سے نشانہ بنا کر نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ کو بھی پیغام دیا ہے کہ اگر ایران کے ساتھ مہم جوئی کی جائے گی تو ایران تمام حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ کہ نواتیم ایئر بیس امریکی F-35 جنگی طیاروں کا بڑا مرکز تھا کہ جہاں سے روزانہ جہازوں کے ذریعے غزہ پر بھی بمباری کی جا رہی تھی اور دمشق میں ایران کے سفارتخانہ پر بھی اسرائیلی فضائیہ نے اسی مقام سے جہاز اڑا کر حملہ کیا تھا۔

صیہونی حکام اور دنیا میں ان کے نمک خواروں کی جانب سے یہ بحث کہ ایران کو کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا، غیر منطقی ہے۔ کیونکہ خود صیہونی ذرائع بھی اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ نواتیم ایئر بیس تباہ ہوچکی ہے۔ بہرحال صیہونی حکومت اور ان کے آلہ کاروں کی جانب سے متضاد بیانات اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ ایران کا جواب مکمل طور پر کامیاب رہا ہے۔ اس کارروائی نے صیہونی حکومت پر کاری ضرب لگائی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1129320
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش