1
Sunday 28 Apr 2024 17:37

امریکہ اسرائیل تعلقات کے مستقبل پر نئی امریکی نسل کی بیداری کے اثرات

امریکہ اسرائیل تعلقات کے مستقبل پر نئی امریکی نسل کی بیداری کے اثرات
تحریر: محمد المنشاوی (الجزیرہ نیوز چینل)
 
اس بات کا جائزہ لینے کیلئے سب سے پہلے اس نکتے کی جانب توجہ ضروری ہے کہ جب اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے غزہ پر فوجی جارحیت کا آغاز کیا تو امریکی عوام کی اکثریت اس کی حمایت میں مصروف تھی لیکن گذشتہ چھ ماہ کے دوران دیگر مغربی ممالک کی طرح امریکی رائے عامہ میں بھی غزہ جنگ کی نسبت بہت زیادہ تبدیلی رونما ہوئی ہے اور اب امریکی عوام کی اکثریت فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی رژیم کی اس تباہ کن جنگ کے خلاف ہیں۔ یہ حقیقت امریکہ میں انجام پانے والے سرویز اور امریکہ کے بڑے شہروں کی سڑکوں پر آئے دن فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں سے بآسانی قابل مشاہدہ ہے۔ دوسری طرف امریکی حکمران بھی، اگرچہ مجبور ہو کر سہی، بظاہر غزہ جنگ کے بارے میں اپنا لب و لہجہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
 
امریکی صدر جو بائیڈن، جو آئندہ صدارتی انتخابات میں اپنی پوزیشن شدید متزلزل ہوتے دیکھ رہے ہیں، نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر غزہ کی پٹی میں اپنی فوجی سرگرمیوں پر نظرثانی کرنے کیلئے کئی بار دباو ڈالا ہے۔ دوسری طرف گذشتہ چند ہفتوں سے امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حق میں اور غزہ جنگ کے خلاف طلبہ مظاہرے شروع ہو چکے ہیں جو اب تک امریکہ کی سینکڑوں یونیورسٹیوں تک پھیل چکے ہیں۔ امریکہ کی معروف اور معتبر یونیورسٹیاں جیسے کولمبیا، ہارورڈ، بیل اور میساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) ان مظاہروں کی سربراہی کر رہی ہیں۔ امریکی طلبہ کی یہ احتجاجی تحریک امریکی عوام کی جانب سے غزہ پر صیہونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت کے خلاف اعتراض میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ امریکی گھرانوں کی اکثریت اپنے بچوں کو ان معروف امریکی یونیورسٹیوں میں بھیجنے کی آرزو رکھتی ہے۔
 
امریکہ میں اکثر والدین اپنے بچوں کو بچپن سے ہی اس انداز میں تعلیم دلواتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر مذکورہ بالا امریکی یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان یونیورسٹیوں میں پڑھ لکھ کر تعلیم یافتہ ہونے والے افراد ہی امریکہ کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور اس ملک کے مستقبل کے لیڈران تصور کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان یونیورسٹیوں میں احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف پولیس کے کریک ڈاون اور بائیڈن حکومت کی جانب سے ان طلبہ کے خلاف آہنی ہاتھ سے نمٹنے کی پالیسی نے امریکی عوام کی اکثریت میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ ایک طرف امریکہ کے آئین میں آزادی اظہار اور پرامن مظاہروں کے انعقاد کی آزادی پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے جبکہ دوسری طرف امریکی حکومت بھی دنیا بھر میں آزادی اظہار کا حامی ہونے کی شدید دعویدار ہے لہذا جب ملک کی معروف یونیورسٹیوں کے اساتید اور طلبہ پر پولیس کے وحشیانہ حملوں کی تصاویر شائع ہوئیں تو امریکی عوام کیلئے یہ بات بالکل قابل قبول نہیں تھی۔
 
اسی طرح امریکی پولیس کی جانب سے سینکڑوں یونیورسٹی طلبہ کو فلسطین کی حمایت کے الزام میں گرفتار کر دینے نے بھی یونیورسٹی طبقے کو شدید حیران اور غضب ناک کر دیا ہے۔ وہ خاص طور پر امریکہ میں صیہونزم کی حامی لابیز سے شدید بیزار ہو چکے ہیں۔ امریکہ میں فلسطین کے حق میں یونیورسٹی طلبہ کی عظیم احتجاجی تحریک ایسے وقت شروع ہوئی ہے اور جاری ہے جب امریکی کانگریس کے اندر سے بھی امریکہ کی حمایت سے غزہ میں صیہونی جنگی جرائم کے خلاف آوازیں سامنے آ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر برنی سینڈرز نے ایکس پر اپنے پیغام میں بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے امریکی یونیورسٹی طلبہ پر یہود دشمنی کا الزام عائد کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا: "نہیں مسٹر نیتن یاہو، یہ یہود دشمنی نہیں ہے، گذشتہ چھ ماہ کے دوران تمہاری انتہاپسند کابینہ نے 34 ہزار فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے جبکہ 77 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو زخمی بھی کر دیا ہے جن کی 70 فیصد تعداد خواتین اور بچے ہیں۔"
 
چند سال پہلے امریکی تھنک ٹینک کاونسل آف فارن ریلیشنز کے ماہر اور وال اسٹریٹ جرنل کے کالم نگار والٹر رسل میڈ نے بوسٹن میں "الہی ادیان اور امریکی پالیسی" نامی سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: "یہودیوں کی جانب سے نئے تشکیل پانے والے ملک امریکہ میں قدم رکھنے اور حتی اسرائیل کی تشکیل سے پہلے سے ہی امریکی پروٹسٹننٹ افراد یہودیوں کے حامی تھے۔ لہذا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ 1948ء میں اسرائیل کو فوراً تسلیم کرنے والا پہلا ملک امریکہ ہی تھا۔" انہوں نے مزید کہا: "امریکہ کے پرانے پروٹسٹنٹ مذہبی افراد کا عقیدہ تھا کہ یہودی خدا کے برگزیدہ افراد ہیں اور کانگریس کی تحقیق کے مطابق امریکہ نے گذشتہ 75 برس سے اسرائیل کی حمایت کی ہے اور اس دوران تقریباً 260 ارب ڈالر کی فوجی اور مالی امداد بھی اسرائیل کو فراہم کی ہے۔" لیکن اب تمام شواہد سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی رائے عامہ میں اہم تبدیلیاں رونما ہونے کے باعث یہ تعلقات تزلزل کا شکار ہو چکے ہیں۔
 
اس سے پہلے "اسرائیل حق پر ہے" یا "یہود دشمنی ممنوع" جیسے نعرے امریکہ میں غالب تھے لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی جوان اسرائیل کو ایک ایپرٹائیڈ، نسل پرست اور وحشی رژیم قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں اسرائیل کے حامی اس ملک کی یونیورسٹیوں میں رونما ہونے والے حالات سے شدید خوفزدہ ہیں۔ خاص طور پر جب وہ دیکھتے ہیں کہ امریکہ کی نئی نسل میں عرب اور مسلمان شہریوں کی تعداد یہودیوں سے کہیں زیادہ ہوتی جا رہی ہے اور امریکی نژاد یہودی روز بروز کم ہوتے جا رہے ہیں۔ لہذا سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ ہمیں عنقریب امریکہ میں امریکی اور اسرائیلی حکومت کے خلاف شدید تنقید شروع ہونے کی توقع رکھنی چاہئے جس کی سربراہی امریکہ کی نئی نسل کرے گی اور وہ امریکہ اسرائیل تعلقات کے مستقبل پر شدت سے اثرانداز ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 1131753
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش