1
Saturday 11 May 2024 21:56

جنرل اسمبلی میں خودمختار فلسطینی ریاست کی منظوری

جنرل اسمبلی میں خودمختار فلسطینی ریاست کی منظوری
تحریر: علی احمدی
 
حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت عطا کئے جانے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ جنرل اسمبلی میں پیش کردہ بل میں فلسطین کو خودمختار ریاست تسلیم کرنے پر زور دینے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی فلسطین سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ جنرل اسمبلی کی منظور شدہ قراردادوں پر عملدرآمد لازمی نہیں ہوتا لیکن اس کے اپنی جگہ اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ اس قرارداد کی منظوری کا پہلا اثر یہ نکلے گا کہ سلامتی کونسل ایک بار پھر فلسطین کو اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت عطا کئے جانے کا جائزہ لینے پر مجبور ہو جائے گی۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران مسلسل دو بار فلسطین کو اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت عطا کئے جانے کی درخواست اقوام متحدہ میں جانا بذات خود امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینی قوم کو ان کے مسلمہ حقوق سے محروم کرنے کی بہیمانہ کوششوں کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
 
اپریل 2024ء کے آخر میں 13 سال بعد ایک بار پھر سلامتی کونسل میں فلسطین کو اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت عطا کئے جانے پر مبنی درخواست کا جائزہ لیا گیا۔ اگرچہ سلامتی کونسل کے 15 اراکین نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور برطانیہ اور سوئٹزلینڈ نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا لیکن امریکہ کی جانب سے اسے ویٹو کر دیے جانے کے باعث یہ قرارداد منظور نہیں ہو سکی۔ لیکن اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس نئی قرارداد کی منظوری کے بعد قوی امکان ہے کہ سلامتی کونسل عنقریب ایک بار پھر اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کا جائزہ لے گی۔ امریکہ اب تک سلامتی کونسل میں پیش کی گئی غزہ میں جنگ بندی کی قراردادیں بھی چار بار ویٹو کر چکا ہے۔ دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں شروع ہونے والی احتجاجی تحریک نے امریکہ پر اسرائیل کی غیر مشروط امداد اور حمایت ختم کر دینے کیلئے اچھا خاصہ دباو ڈال رکھا ہے۔
 
اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں میں فلسطینی اداروں کی رکنیت کا آغاز اس وقت ہوا جب 1974ء میں یونیسکو میں تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کو رکنیت عطا کی گئی۔ 15 سال بعد 1989ء میں پی ایل او نے یونیسکو میں اپنی رکنیت کو ترقی دے کر رکن ملک کا درجہ دینے کی درخواست ددے دی لیکن اس درخواست کا جائزہ لینے کا کام 2011ء سے پہلے انجام نہ پا سکا۔ 2011ء میں فلسطین اتھارٹی نے اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت حاصل کرنے کی درخواست دے دی۔ جنرل اسمبلی میں اس درخواست کے حق میں کل 193 اراکین میں سے 138 رکن ممالک نے ووٹ دیا جبکہ 41 رکن ممالک غیر جانبدار رہے اور 9 رکن ممالک نے مخالفت میں ووٹ ڈالا۔ یوں فلسطین اتھارٹی "غیر رکن مبصر" کی حیثیت سے ترقی کر کے "مستقل مبصر" کی حیثیت تک پہنچ گئی۔
 
اب 13 برس گزر جانے کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بار پھر اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کے بارے میں ووٹنگ انجام پائی ہے جس میں 143 رکن ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دیا ہے جبکہ 25 ممالک غیر جانبدار رہے ہیں اور صرف 9 ممالک نے مخالفت میں ووٹ ڈالا ہے۔ درحقیقت اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کے حامی ممالک کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جبکہ غیر جانبدار ممالک کی تعداد بھی کم ہو گئی ہے۔ دوسری طرف اس قرارداد کے مخالف ممالک کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے علاوہ صرف 8 ممالک اس کے مخالف ہیں جو اسرائیل کے کٹر حامی ممالک تصور کئے جاتے ہیں اور ان میں امریکہ، ارجنٹائن، ہنگری اور چک سلواکیہ شامل ہیں۔ مزید برآں بہت ہی چھوٹے ممالک جیسے میکرنزی، نیورو، نیو گینہ اور پالاو بھی مخالفین میں شامل ہیں جن کی عالمی سطح پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔
 
لہذا یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسرائیل کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت میں امریکہ عالمی سطح پر گوشہ گیر ہوتا جا رہا ہے اور اسے اس کام کا بھاری تاوان ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت صرف فلسطین اور ویٹیکن اقوام متحدہ میں مستقل مبصر کی حیثیت کے حامل ہیں۔ اگرچہ مستقل مبصر ممالک کو اقوام متحدہ کی تمام دستاویزات تک رسائی حاصل ہوتی ہے لیکن وہ مختلف ووٹنگز میں ووٹ دینے کا حق نہیں رکھتے۔ دوسری طرف، جب تک اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل اور مستقل رکنیت انجام نہیں پا جاتی، اقوام متحدہ کے بہت سے ذیلی ادارے اسرائیل کو فلسطینیوں کا سرپرست سمجھتے رہیں گے۔ درحقیقت اسرائیل اب تک بارہا صرف اس بہانے فلسطینی قوم کے حقوق کی بحالی کیلئے انجام پانے والی عالمی کوششوں کو ناکام بنا چکا ہے کہ فلسطین اتھارٹی اسرائیلی ریاست کا ہی ایک حصہ ہے لہذا وہ علیحدہ سے عالمی امور میں مداخلت نہیں کر سکتے۔
 
2011ء میں فتح گروپ (فلسطین اتھارٹی میں شامل اکثریتی گروہ) جنرل اسمبلی میں فلسطین کے حق میں فیصلے کو اسرائیل سے سازباز کا نتیجہ قرار دے رہا تھا۔ لیکن گذشتہ 13 برس کے دوران اسرائیل سے سازباز اور مذاکرات کی حکمت عملی مکمل طور پر ناکام اور بے سود ثابت ہو چکی ہے۔ حتی 2023ء کے آغاز میں بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ نے مغربی کنارے کو سرکاری طور پر اسرائیل سے ملحق کر دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اقدام اوسلو اور دیگر معاہدوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔ لہذا اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی حالیہ تحریک، اسلامی مزاحمت اور اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد پر مبنی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی تحریک ایک طرف عالمی سطح پر امریکہ کی شدید گوشہ گیری کو ظاہر کرتی ہے جبکہ دوسری طرف عالمی رائے عامہ میں فلسطین کاز زندہ ہو جانے کی علامت ہے۔
خبر کا کوڈ : 1134402
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش