0
Monday 4 Mar 2024 14:10

لکھنؤ میں ’مکتب فقہی و کلامی حضرت غفران مآب‘ پر سیمینار کا انعقاد

لکھنؤ میں ’مکتب فقہی و کلامی حضرت غفران مآب‘ پر سیمینار کا انعقاد
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

بھارتی شہر لکھنؤ میں نور ہدایت فاؤنڈیشن کی جانب سے ’’مکتب فقہی و کلامی حضرت غفران مآب‘‘ پر دو روزہ سیمینار کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ اس سیمینار میں مختلف مقررین اور مقالہ نگاروں نے مجدد الشریعۃ آیت اللہ العظمٰی سید دلدار علی غفران مآب، ان کے مجتہد فرزندوں اور شاگردوں کے علمی آثار اور فکری جہات پر روشنی ڈالی۔ سیمینار میں خاندان اجتہاد، خاندان عبقات، خاندان جزائری اور خاندان باقرالعلوم کے علمی کارناموں پر بھی گفتگو ہوئی اور ان کے علمی آثار کو بھی نمائش میں پیش کیا گیا۔ 3 مارچ کو افتتاحی جلسے کا آغاز مولانا حیدر مہدی کریمی نے تلاوت قرآن مجید سے کیا۔ اس کے بعد مولانا سید کلب جواد نقوی نے افتتاحی تقریر کی اور تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ حضرت غفران مآب نے برصغیر میں مکتب امامیہ کی تقویت اور ترویج کے لئے نمایاں کردار ادا کیا اور آج برصغیر میں جتنے بھی علمی خانوادے ہیں وہ واسطہ یا بالواسطہ طور پر حضرت غفران مآب کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔

مولانا تقی حیدر نقوی نے بھارت میں ولی فقیہ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ مدظلہ العالی کے نمائندے حجۃ الاسلام آقای شیخ مہدی مہدوی پور کا پیغام پڑھا جو ایران میں ہونے کی وجہ سے پروگرام میں شریک نہیں ہوسکے۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ ہندوستان کے علماء نے ہمیشہ مکتب تشیع کے تحفظ اور امامیہ عقائد کی ترویج و تبلیغ اور شبہات کے ازالہ کے لئے بڑی قربانیاں پیش کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج مکتب فقہی و کلامی لکھنؤ کے احیاء کی ضرورت ہے تاکہ ان کے علمی آثار کو زندہ کیا جاسکے جو مکتب حضرت غفران مآب کا عظیم کارنامہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مکتب لکھنؤ کے تمام خانوادے خواہ وہ خاندان اجتہاد ہو، خاندان عبقات ہو، خاندان جزائری ہو یا پھر خاندان باقرالعلوم ہو، آسمان علم و فقاہت کے درخشندہ ستارے ہیں، جن کے کارناموں کو ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ تمام اختلافات کو بھلاکر ہمیں ان کے علمی اور فکری آثار کے احیاء کے لئے کوشش کرنا چاہیئے۔ صدر جلسہ اور المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی ایران کے ہندوستان میں نمائندے حجۃ الاسلام آقای رضا شاکری نے اپنی تقریر میں فقہ و فقاہت کی اجمالی تاریخ پیش کی۔

انہوں نے کہا کہ حضرت غفران مآب نے اپنے زمانے کے تقاضوں اور ضرورت کو محسوس کیا اور اس کے مطابق کارہائے نمایاں انجام دئیے۔ انہوں نے کہا کہ معاصر عہد میں فقہاء کو چاہیئے کہ وہ حضرت غفران مآب کی روش پر عمل کرتے ہوئے نوجوان نسل کے تقاضوں اور نئے زمانے کی ترجیحات کو پیش نظر رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی مکتب امامیہ پر فکری یلغار ہوئی، اس وقت فقہاء نے اس مکتب کا دفاع کیا اور قربانیاں پیش کیں۔ جس زمانے فقہ امامیہ اور فقہائے کرام کو دبانے کی کوشش کی گئی، اس عہد میں بھی بعض فقہاء نے قربانیاں پیش کیں اور فقہ امامیہ کا تحفظ کیا، جس طرح اپنے عہد میں حضرت غفران مآب نے اخباریت اور دیگر نظریات کے خلاف محاذ آرائی کی۔ انہوں نے کہا کہ حضرت غفران مآب ہندوستان کے پہلے مسلّم اور مستند فقیہ اور مجتہد تھے۔ انہوں نے فقہ امامیہ کے تمام 9 ادوار پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ فارسی تقریر کا اردو ترجمہ مولانا اطہر کشمیری نے پیش کیا۔ افتتاحی اجلاس میں ’’مکتب حضرت غفران مآب: ایک تحقیقی جائزہ‘‘ کتاب کی رسم رونمائی علماء کے ذریعہ انجام پائی جسے محقق عالیقدر سفیر مکتب فقہی و کلامی حضرت غفران مآب مولانا اسیف جائسی نے ترتیب دیا ہے۔

مولانا صابر علی عمرانی نے نعت شریف پیش کی اور محمد اعدل نے حضرت غفران مآب کی شان میں اشعار پڑھے۔ نظامت کے فرائض محقق و مصنف عادل فراز نے انجام دئیے۔ افتتاحی جلسے کے اختتام پر مولانا سید کلب جواد نقوی نے تمام معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ دفتر مکتب فقہی و کلامی حضرت غفران مآب کی نئی عمارت میں تمام علماء کے علمی اور فقہی آثار کو زندہ کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ایک عظیم الشان کتب خانہ بھی قائم کیا جائے گا جس سے محققین استفادہ کرسکیں گے۔ انشاء اللہ بہت جلد یہ عمارت مکمل ہوگی اور یہاں مکتب حضرت غفران مآب پر تحقیقی کام شروع ہوگا۔ اس سے پہلے 2 مارچ کو ’مکتب فقہی و کلامی حضرت غفران مآب‘ پر مکالماتی نشست کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں ہندوستان اور ایران کے مختلف علماء نے شرکت کی۔ اس نشست کا آغاز مولوی صائم رضا نے تلاوت قرآن مجید سے کیا جس کے بعد مولانا کلب جواد نقوی نے افتتاحی خطبہ دیتے ہوئے تمام علماء اور دانشوروں کو مکالمے اور مباحثے کی دعوت دی۔ اس نشست میں مشہور عالم اور خطیب مولانا علی عباس خان مدیر مدرسۂ شہید ثالث ایران نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہر مکتب کو دوسرے مکتب کی تقویت کے لئے کام کرنا چاہیئے تاکہ ہم سب مذہب اسلام کی تقویت کا سبب بن سکیں ناکہ تضعیف کا۔ انہوں نے کہا کہ علم کسی کی جاگیر نہیں ہے، پروردگار عالم اسی کو علم سے نوازتا ہے جو اس کی راہ میں کام کرتا ہے۔

انہوں نے مکتب حضرت غفران مآب کی عظمت اور ان کی کتاب ’اساس الاصول‘ کا اجمالی جائزہ بھی پیش کیا۔ معروف اسلامی اسکالر مولانا تقی رضا برقعی نے کہا کہ ولی فقیہ کی حکومت کا پہلا تصور حضرت غفران مآب نے دیا تھا جبکہ بعض اس سلسلے میں علامہ شہید باقر الصدر کا نام بھی لیتے ہیں، جن کے سیاسی نظریے کی عظمت اور آفاقیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے آیت اللہ غفران مآب کی کتاب ’شہاب ثاقب‘ کا اجمالی تعارف بھی پیش کیا اور اس کو ایک تاریخی کارنامہ قرار دیا۔ مولانا ڈاکٹر کمال الدین اکبر نے کہا کہ حضرت غفران مآب کے علمی کارناموں کی افہام و تفہیم کے لئے ان کے علمی آثار کا غائرانہ مطالعہ کیا جائے تاکہ شکوک و شبہات کا ازالہ ہوسکے۔ ایران سے تشریف لائے مہمان حجۃ الاسلام سید اکبر حسینی پروفیسر موسسہ امام خمینی (رہ) نے کہا کہ مکتب حضرت غفران مآب کے عظیم فقہی اور کلامی کارنامے ہیں جن پر تحقیقی کی اشد ضرورت ہے۔ آقای ڈاکٹر حسن یوسفیان پروفیسر موسسہ امام خمینی (رہ) نے اپنی تقریر میں کہا کہ علماءِ ہند پوری دنیا کے مسلمانوں پر ایک خاص حق رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب تحفۂ اثنا عشریہ جیسی کتاب لکھی گئی تو اسکا دائرۂ اثر ہندوستان تک محدود نہیں تھا بلکہ جہاں بھی فارسی زبان بولی اور سمجھی جاتی تھی، وہاں تک اس کتاب کا اثر پہونچا تھا۔ حضرت غفران مآب اور اس مکتب کے شاگردوں نے اس کتاب کی رد لکھی اور مذہب امامیہ کا عالم گیر دفاع کیا جن میں حضرت غفران مآب، ان کے بیٹے، ان کے شاگرد اور خاص طور پر علامہ میر حامد حسین قابل ذکر ہیں۔ پروگرام کے آخر میں مولانا کلب جواد نقوی، مولانا اسیف جائسی اور احمد عباس نقوی نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ نماز ظہرین کے بعد مقالہ خوانی کی نشست شروع ہوئی جس میں مولانا علی ہاشم عابدی، فیضان جعفر، حیدر رضا، مولانا نوید عباس علیگڑھ، مولانا علی عباس خان، مولانا سرتاج حیدر زیدی، مولانا تقی رضا برقعی، مولانا حیدر مہدی کریمی اور دیگر مقالہ نگاروں نے اپنے وقیع مقالے پیش کئے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر رضا عباس نے انجام دئیے۔ آخر میں مولانا رضا حیدر زیدی مدیر حوزہ علمیہ حضرت دلدار علی غفران مآبؒ نے تمام مقالہ نگاروں اور شرکاءِ جلسہ کا شکریہ ادا کیا۔ یہ سیمینار ’دفتر فقی و کلامیٔ حضرت غفران مآب‘ کی نئی عمارت میں منعقد ہوا جو پکچر گیلری گھنٹہ گھر لکھنؤ کے قریب واقع ہے۔
خبر کا کوڈ : 1120026
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش