1
Thursday 29 Feb 2024 20:03

اسیری ہی آزادی کا زینہ

اسیری ہی آزادی کا زینہ
تحریر: حسین پارس نقوی

فطرت انسانی میں آزادی کی تمنا پائی جاتی ہے، ہر شخص اپنی فطرت کے مطابق آزادی کا خواہاں ہے مگر ایک عجیب بات ہے کہ ہماری آزادی دراصل ہمارے قید ہونے سے ہی مشروط ہے۔ ہم تب تک آزادی کی مٹھاس اور حلاوت سے بہرہ ور نہیں ہو سکیں گے جب تک ہم اسیری کی تلخیوں کا تجربہ نہ کریں، ظاہر آزادی اور قید آپس میں نہایت متضاد ہیں مگر انسان مقید رہے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتا ہے۔ آج ہر طرف سے جیو اور جینے دو اور آزادی کے نعرے بلند ہو رہے ہیں ۔ مگر جیو اور جینے کی اجتماعی خواہش تبھی پایہ تکمیل کو پہنچ سکتی ہے جب انسان بغیر کسی بیرونی دباؤ کے اپنے آپ کو چند اصولوں اور حدود میں مقید کرلے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی اسیری میں کیسی آزادی مضمر ہے؟۔  انسان تو ہر طرح سے خود مختاری اور "میرا جسم میری مرضی" چاہتا ہے مگر اس کا جواب اس انداز میں واضح ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی انسان مہنگی گاڑی خریدتا ہے تو وہ خواہش کرتا ہے کہ گاڑی کے تمام تر فیچرز کو اپنی مرضی کے مطابق بغیر کسی روک نوک کے استعمال میں لائے، مگر وہ تب اپنی مہنگی گاڑی اور اپنی قیمتی جان کو غیر محفوظ سمجھتا ہے کہ جب کوئی دوسرا بغیر کسی حد اور رکاوٹ کے اپنی گاڑی کو استعمال کرے اور روڈ پر موجود دیگر گاڑیوں کو ضرر  پہنچائے۔ ایسی صورت میں اس کی خواہش ہوگی کہ ہر چھوٹی اور بڑی گاڑی کے لیے خاص حدود و قیود کو ترتیب دینا چاہیئے تاکہ ہر شخص بحفاظت اپنے سفر کو جاری رکھ سکے۔

اسی طرح انسانی معاشرے میں بھی بلاتفریق اصول و ضوابط اور حدود و قیود کا تعین ہونا چاہیئے۔ جس طرح انسان کھانے پینے میں اشیاء کے انتخاب پر توجہ دیتا ہے اور ہر قسم کی شے کو ہی اپنی خوراک نہیں بنا لیتا۔ اسی طرح اسے ہر سوچ کو بھی اپنے ذہن میں پروان نہیں چڑھنے دینا چاہیئے۔ چونکہ اگر یہ کسی کے متعلق کسی بھی قسم کی سوچ قائم کر سکتا ہے تو کسی کو اپنے متعلق ایسی کسی سوچ سے منع کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ دوسروں کے متعلق ویسا سوچو جیسا ان سے اپنے متعلق سوچنے کی توقع رکھتے ہو۔

جس طرح انسان اپنی رہائش کے متعلق چند اصول و ضوابط کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے اور جنگلات میں وحشی درندوں کے ساتھ رہنے کی بجائے پر امن ماحول میں رہنا پسند کرتا ہے، اسی طرح اسے اپنے دل میں بھی وحشی اور خونخوار خواہشات کے پنپنے پر بھی پہرہ لگانا چاہیئے اور دل کا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہیئے نہ کہ خواہشات کے بہاؤ میں بہہ جائے بلکہ اک اک دھڑکن اصولوں کے تابع دھڑکنی چاہئیں۔ چونکہ اگر ہر شخص اپنی ہر قسم کی خواہشات کی اتباع کرنے میں سرگرم عمل ہوگیا تو معاشرتی ترتیب اور انسانی حدود دونوں متاثر ہوں گے اور اگر ہر شخص اپنے مفادات کے حصول کے لیے کوشاں رہا تو معاشرتی و اجتماعی اقدار کم رنگ ہو جائیں گے۔

اس طرح سے ہر شخص اپنی آزادی کے نام پر دوسروں کی تکلیف کا باعث بنے گا اور معاشرہ امن و سکون اور راحت و عافیت کی بجائے ظلم و ستم اور بدنظمی اور افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔ اس لیے معاشرے کی خوشحالی اور اجتماعی ترقی کے لئے اپنی ذاتی خواہشات کی قربانی دینا اپنی آزادی سلب کرنا نہیں بلکہ آزادی سے دوسروں کو جینے کا حق دینا ہے اور اسی میں اس کی بقاء بھی پنہاں ہے چونکہ عارضی سکون کے لیے دائمی اذیت کو اپنانا دانشمندی نہیں۔ ہر شخص اپنی پست سوچ کو ہتھ کڑی، گھٹیا خواہش کو پابند سلاسل اور ضمیر کو فطرت کی عدالت کے روبرو رکھے۔
خبر کا کوڈ : 1119402
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش