0
Saturday 27 Aug 2016 08:00

حکومت، اسکے تقاضے اور موجودہ حکمران

حکومت، اسکے تقاضے اور موجودہ حکمران
تحریر: محمد حسن جمالی

نظام حکومت بشریت کی ضروریات اولیہ میں سے ہے۔ ہر ملک، شہر اور علاقہ اجتماعی قوانین کی جانب محتاج ہے۔ کوئی بھی انسان خواہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی یہ دعوٰی نہیں کرسکتا کہ بشر نظام حکومت، اجتماعی قوانین سے بے نیاز ہے۔ اجتماعی قوانین سے منہ موڑنے یا انکار کرنے کا روشن نتیجہ معاشرتی زندگی میں خلل اور حرج ومرج پیدا ہو جانا ہے، جس کی بنیادی وجوہات تضاد منافع، حب ذات، منافع شخصی کو اجتماعی پر مقدم کرنا اور مفادات کا ٹکراو ہے۔ روزمرہ زندگی میں یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ معاشرتی زندگی میں بشر اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر حرکت کرتا ہے، فعالیت اور امور کو سرانجام دیتا ہے۔ یہ بهی ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف شعبوں میں انسان کے کاموں کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، اسی طرح انسان کے مفادات بھی یکساں نہیں ہوتی اور ان کاموں میں انسان زیادہ دلچسپی سے حصہ لیتا ہے کہ جن میں انسان کا اپنا فائدہ زیادہ ہو۔ چنانچہ اگر کسی معاشرہ میں کوئی نظام حکومت نہ ہو، اجتماعی قانون ناپید ہو، ہر کسی کو اپنی مرضی سے کام چلانے کی کھلی آزادی ہو تو واضح سی بات ہے کہ اس معاشرہ میں امیر، امیرتر ہوگا اور غریب، غریب تر ہوگا۔ ناانصافی اور ظلم کا بول بالا ہوگا، کمزور اور ناتواں افراد کو دو وقت کی روٹی بہ مشکل ملے گی۔ معمولی باتوں میں لوگ جھگڑ پڑہینگے، قتل وغارت، ڈاکہ زنی، ناامنی اور دوسرے جرائم عام ہوں گے۔ بنابراین بشریت کے لئے نظام حکومت کا ہونا ضروری ہے، اس سے کوئی بھی انکار نہ کرسکتا۔

مثالی نظام حکومت کے تقاضے: یہ بات کہ نظام حکومت کیسا ہونا چاہئے۔؟ نظام حکومت کے تقاضے کیا ہیں۔؟ نظام حکومت ایسا ہو جوعوامی ضروریات کی تکمیل میں کردار ادا کرے، عوام کو اس نظام کے زیر سایہ پرسکون زندگی میسر آجائے۔ اچھے نظام حکومت کے بنیادی تقاضے یہ ہیں:
اول: ایک قابل، لائق، عوام دوست، شجاع، صادق اور امین شخص کے ہاتھ میں نظام حکومت کی زمام ہو، جو عوامی رائے سے منتخب ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک چھوٹے گھرانے سے لیکر ایک بڑی جماعت تک کے لئے ایک لیڈر اور قائد کی ضرورت ہوتی ہے، جو اسے ہر طرح کی سستی اور بے انضباطی سے بچاتے ہوئے، اس کے اندر نظم و انضباط پیدا کرسکے- امام علی (ع) کی نظر میں ہر معاشرے کے لئے ایک حاکم اور قائد کی ضرورت ناگزیر ہے۔ جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کہ لوگوں کے لئے ایک حاکم اور قائد کا ہونا ضروری ہے، چاہے وہ نیک ہو یا برا۔ دوسری جگہ آپؑ فرماتے ہیں کہ ملک میں ایک رہبر کی جگہ اس محکم دھاگے کی مانند ہے، جو مہروں کو متحد کر کے آپس میں ملاتا ہے اور وہ اگر ٹوٹ جائے گا، تو سارا سلسلہ بکھر جائے گا اور پھر ہرگز دوبارہ جمع نہیں ہوسکتا۔
دوم: نظام حکومت کے اندر عوام کی سہولت، فلاح و بہبودی کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹھوس قانون وضع کر دیا جائے اور اس نظام حکومت کے اندر بنائے ہوئے قوانین اور دستورات پر عمل کرنے کا سبهی لوگوں کو پابند بنایا جائے، جہاں قانون اور ضوابط کی حاکمیت ہے، کسی کو حق نہیں بنتا کہ اپنے نفع کی خاطر یا نقصان سے بچنے کے لئے قانون کو پاؤں تلے روندے۔ حضرت علیؑ معاشرے میں اٹھائے گئے کسی بھی سیاسی، اجتماعی یا فوجی اقدامات کی وجہ نفاذ قانون اور شریعت بتلاتے ہیں۔ آپؑ خالق کائنات کے ساتھ مناجات کرتے ہوئے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ بار الٰہا! تو خوب جانتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہم سے ظاہر ہوا اس لیے نہیں تھا کہ ہمیں تسلط و اقتدار کی خواہش تھی یا مال دنیا کی طلب تھی بلکہ یہ اس لیے تھا کہ ہم دین کے نشانات کو پھر ان کی جگہ پر پلٹائیں اور تیرے شہروں میں امن و بہبودی کی صورت پیدا کریں، تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکا نہ رہے اور تیرے وہ احکام پھر سے جاری ہو جائیں، جنہیں بیکار بنا دیا گیا ہے۔ قانون ہی ایک ایسی چیز ہے جو معاشرے میں برابری اور مساوات قائم کر دیتی ہے اور ہر طرح کی تبعیض ختم کر کے ایک صالح معاشرہ وجود میں لاتی ہے۔ امام علیؑ اپنے سیاسی پیغام میں مالک اشتر سے یہی چاہتے ہیں کہ قانون میں مساوات سے کام لے کیونکہ قانون کے آگے سب برابر ہیں۔
سوم: نظام حکومت کی بنیاد عدل اور انصاف کو قرار دیا جائے۔
چہارم: نظام حکومت کے قوانین و دستورات کو بلاتفریق سبھی لوگوں پر نافذ کیا جائے۔
پنجم: جمہوریت کا استحکام، اداروں کی مضبوطی، آئین کی بالادستی اور قانون پر عملداری نظام حکومت کی ترجیحات ہوں۔
ششم: نظام حکومت کی بدولت معاشرہ امن، انصاف، علم، صداقت، وفائے عہد، اخلاق کی دولت سے مالا مال ہوجائے۔
ہفتم: نظام حکومت فسادات، منکرات اور معاشرے کی تباہی کے اسباب ذرائع اور وسائل سے بھر پور مقابلہ کرنے کی طاقت کا حامل ہو۔
ہشتم: اس نظام حکومت کے زیر سایہ چلنے والے اداروں میں افراد کی تعیناتی کا معیار صرف اور صرف قابلیت صلاحیت اور علم ہو۔
نہم: نظام حکومت تعلیمی، اقتصادی، سیاسی حقوق محدود چاپلوس گهرانوں اور افراد میں منحصر کرنے کے بجائے مساوات کی بنیاد پر سب کو اس میں شامل کرے۔
دہم: نظام حکومت ملت اور ملک دشمن عناصر کی بیخ کنی کرنے کی جرات رکهتا ہو۔

معیارات کی روشنی میں موجودہ نظام حکومت کا جائزہ: پاکستان کی موجودہ حکومت عوامی مسائل کے حل اور نظام حکومت کے تقاضے پورے کرنے میں سنجیدہ نہیں اور منفی رویہ اپنائے ہوئے ہے، کرپشن، ڈاکہ زنی اور لوٹ مار کے باعث حکمران عوام میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ نااہلی، غلط وعدے وعید اور بےعملی کے باعث ملکی وقار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ شیعہ ہونے کے جرم میں بے دردی سے قتل ہونے والے شہدا کے قاتلوں کو سزا دلوانے اور ان کے وارثین کے زخموں پر مرہم رکھنے میں حکومت یکسر ناکام رہی ہے۔ مقامات مقدسہ کی زیارات کے لئیے آنے والے زائرین کی مشکلات اور مسائل کو حل کرنے کی جانب توجہ ہی نہیں کر رہی ہے۔ ملک کو دہشتگردی سے پاک کرنا تو کجا دہشتگردی کو کم کرنے میں بھی ہماری حکومت ناکام رہی ہے۔ قوم کے بنیادی مسائل حل کرنے کے بجائے قوم کو نت نئے مسائل میں الجھا دیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے قومی مفادات پر ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دی ہے۔ موجودہ حکومت پاکستانی عوام کی امیدوں کو پورا کرنے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کررہی ہے۔ پاکستانی عوام کو ہر دور میں مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ غربت کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کا بجٹ خسارے میں جا رہا ہے۔

ملک کا زیادہ انحصار بیرونی قرضوں پر ہے۔ بدعنوانی بھی ہمارے ملک میں بہت زیادہ ہے۔ ہماری آبادی کا ایک تہائی حصہ غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ پاکستان میں عوامی حقوق پر ڈاکہ مارنا، غریبوں اور اقلیتی گروہ کو نظر انداز کرنا، سود اور رشوت جیسی لعنت میں ملوث ہونا، امریکہ کے اشارے سے ملکی نظام چلانا، جھوٹ اور غلط وعدوں کے ذریعے سیاست چمکانا، سبز باغ دکها کر عوام سے ووٹ حاصل کرنا، عوام کو فریب دے کر خود علاقے اور ضلع کی بجٹ کے رقوم کو نیا عنوان اور نام دے کر عوام میں تقسیم کر کے عوام کو خوش کرنا، ہمارے حکمرانوں کی پہچان بن گیا ہے۔ جس کی واضح مثال ہمارے وزیراعظم جناب نواز شریف صاحب کے تازہ دورہ سکردو میں دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ اس سے پہلے بهی گلگت بلتستان میں دورے کر چکے ہیں۔ ان دوروں میں ہمارے شریف وزیراعظم صاحب نے گلگت بلتستان کے عوام کی نفسیات خوب پہچان لی ہے، انہیں معلوم ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ بڑے شریف ہیں، دوسروں پر جلد اعتماد کرنے والے ہیں، ان لوگوں کو جھوٹی باتوں اور غلط وعدوں کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، ان کو خریدنے کے لئے سبز باغ دکھانا ہی کافی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ان خام خیالات کو نہ صرف اپنے ذہن کے دریچوں میں بند رکھا، بلکہ ان غلط تصورات کو عملی جامہ پہنا کر تصدیق کے مرحلے میں لے آئے، گلگت بلتستان کے عوام سے بڑے بڑے وعدے کئے۔ ان کے سامنے جھوٹی باتوں کے انبار لگائے۔ دهوکها اور عوام فریبی کے بازار کھولے۔ مختلف شعبوں میں ترقی کرانے کے خواب دکهائے، یوں گلگت بلتستان کے عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ عوام کو بے وقوف بنا کر اپنا مقصد پورا کیا۔

انہوں نے لوگوں سے ووٹ حاصل کر کے اپنا اقتدار مضبوط کیا، پھر نہ صرف گلگت بلتستان کے عوام کے مسائل اور مشکلات حل کرنے پر توجہ نہیں دی، بلکہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ قرار دینے سے بھی انکاری ہیں۔ شنید ہے کہ وزیراعظم صاحب نے شنگریلا کی سیر کے موقع پر کچھ اپنے جیالوں میں لیپ ٹاپ تقسیم کر کے ایک بار پھر عوام فریبی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ گلگت بلتستان کے لوگ اب بیدار ہوچکے ہیں، برائے مہربانی انہیں بازیچہ اطفال نہ بنائیے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ لیپ ٹاپ خود انہی کے بجٹ کی رقوم سے خرید کر خود انہی میں تحفے کے طور پر تقسیم کیے گئے ہیں، اس طرح سے ممکن ہے آپ کچھ کم عقل، مفاد پرست افراد کو اپنا محب اور اپنی پارٹی کا محافظ بنا سکیں، لیکن عوام کو جب تک قومی دھارے میں شامل کرکے ان کو ان کے پورے حقوق نہیں دیں گے، عوام کے دلوں میں تمہاری کوئی جگہ نہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام حکومت پاکستان سے اپنے جائز حقوق چاہتے ہیں، لیپ ٹاپ نہیں۔ بے شک انسان کو نظام حکومت کی ضرورت ہے وہ نظام حکومت سودمند ہے، جہاں اس کے تقاضے بھی پورے ہوں۔
خبر کا کوڈ : 563418
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش