0
Friday 19 Apr 2024 20:31

امریکہ کا ایک اور ظلم

امریکہ کا ایک اور ظلم
تحریر: اتوسا دیناریان

اسرائیل کے اصل حامی کے طور پر امریکہ نے ایک بار پھر ویٹو کا استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت کی منظوری روک دی ہے۔ اس اجلاس میں سلامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے 12 ارکان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے حصہ نہیں لیا۔ البتہ امریکہ  نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا اور اس طرح اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کو دوبارہ امریکہ کی مخالفت اور رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کا مسئلہ اور اس کا حصول تل ابیب کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے، اس لیے اسے ہمیشہ صیہونی حکومت اور اس کے اہم حامی امریکہ کی شدید مخالفت کا سامنا رہا ہے۔

درحقیقت اس پر عملدرآمد کو فلسطینی ریاست کے قیام کے حصول کے لیے ایک بڑا قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا مسئلہ جو صیہونی حکومت کی موجودہ انتہائی سخت کابینہ کے لیے سخت دھچکا ہے۔ اقوام متحدہ میں صیہونی حکومت کے نمائندے گیلاد اردان نے اس بات کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین کی اقوام متحدہ کا مستقل رکن بننے کی کوششیں ناکام ہوں گی اور اسرائیل اسے ناکام بنانے کے لیے ہر طریقہ استعمال کرے گا اور سلامتی کونسل کے دیگر ارکان کو بھی اس کے خلاف تیار کرے گا۔ فلسطین اس وقت اقوام متحدہ میں مستقل مبصر ہے اور 2011ء میں اس نے اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت کے لیے درخواست دی تھی۔

حالیہ اپریل میں فلسطین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو لکھے گئے ایک خط میں درخواست کی تھی کہ اقوام متحدہ کے مستقل رکن کے طور پر اس کے الحاق پر نظرثانی کی جائے۔ موجودہ قوانین کے مطابق، اگر اقوام متحدہ کے 15 میں سے 9 ارکان کسی ملک کی اقوام متحدہ میں شمولیت کی درخواست کے حق میں ووٹ دے دیتے ہیں، تو جنرل اسمبلی کو اس معاملے پر غور کرنے کی سفارش کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ سلامتی کے مستقل ارکان میں سے کوئی ایک مخالف نہ ہو۔ برطانیہ، چین، روس، امریکہ اور فرانس بھی اس درخواست کے خلاف ووٹ نہ دیں، یعنی ویٹو نہ کریں۔

غزہ کی جنگ اور صیہونی حکومت کے خلاف کیے جانے والے وسیع جرائم کے پیش نظر امریکہ کو اسے ویٹو نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ عالمی رائے عامہ کی جانب سے ان جرائم کی مذمت صیہونی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ اس لیے امریکہ ایک بار پھر اس حکومت کا سب سے بڑا حامی بن کر سامنے آیا ہے اور اس نے فلسطینیوں کی درخواست کو ویٹو کرکے اس مسئلے کو عملی جامہ پہنانے کا راستہ بند کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب سفیر "رابرٹ ووڈ" نے اس سلسلے میں کہا: امریکہ اب بھی دو ریاستی حل کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔

یہ ووٹ فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا فیصلہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات میں ممکن ہے۔ امریکہ ایسے عالم میں مذاکرات کی بات کر رہا ہے کہ اس کی طرف سے صیہونی حکومت کی حمایت، ہتھیاروں کی فراہمی اور فوجی بجٹ کی فراہمی زبان زدہ خاص و عام ہے۔ امریکہ اس وقت بین الاقوامی اداروں میں صیہونی مخالف قوانین کی منظوری کو روکنے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر اسرائیل کا ساتھی اور تل ابیب کے مفادات کا محافظ ہے۔

درحقیقت فلسطینیوں کے حقوق سے مطابقت رکھنے والی کسی بھی درخواست کو ویٹو کرکے امریکہ نے عملی طور پر غزہ پر حملوں، فلسطینیوں کے قتل عام اور اس کے بنیادی ڈھانچے کی مکمل تباہی میں صیہونی حکومت کا ساتھ دیا ہے۔ اب فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے حالیہ جرائم کی عالمی سطح پر مذمت کے باوجود امریکہ نے ایک بار پھر تمام بین الاقوامی درخواستوں اور انسانی حقوق کے دعووں کے باوجود فلسطینیوں پر اقوام متحدہ کے راستے بند کر دیئے ہیں اور بلاشبہ اس طرح وہ صیہونی حکومت کے جرائم میں برابر کا شریک ہوگیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1129823
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش