0
Tuesday 5 Mar 2024 19:50

تجارتی راہداریاں اور خطے کی سیاست(2)

تجارتی راہداریاں اور خطے کی سیاست(2)
تحریر: امیر رضا مقومی
محقق بین الاقوامی امور

"ترقی کے راستے کے اقدام" یا فاو بندگاہ کی تعمیر میں عراق کے اہداف
اس منصوبے کو لاگو کرنے اور اسے فروغ دینے کے لیے عراقی حکومت کے اہم ترین محرکات کا خلاصہ اقتصادی، سیاسی اور جیو سوشل پولیٹیکیل مسائل میں کیا گیا ہے۔ اقتصادی نقطہ نظر سے اس منصوبے کا مقصد ملکی معیشت کو متنوع بنانا، تیل پر انحصار کم کرنا اور خاص طور پر نوجوانوں میں بے روزگاری کو کم کرکے نئے مواقع پیدا کرنا ہے۔ عراقی حکومت اس منصوبے کی آمدنی کا تخمینہ چار بلین ڈالر لگاتی ہے، اگر یہ منصوبہ عملی شکل اختیار کر لیتا ہے تو سالانہ تیل کی آمدنی کے علاوہ آمدنی کے دیگر اہم مواقع بھی فراہم ہو جائیں گے۔ اس منصوبے کے بارے میں عراقی حکومت کا نظریہ براہ راست اقتصادی فوائد سے بالاتر ہے، کیونکہ اس سے ان صوبوں اور خطوں میں ہمہ جہت اقتصادی ترقی وجود میں آئے گی۔

جہاں سے یہ سڑکیں گزریں گی، اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے، یعنی شہروں سے باہر نقل مکانی کم ہوگی۔ نئے شہروں کی تعمیر ہوگی، نجی شعبے کی تشکیل ہوگی، جس سے سرکاری ملازمتوں کی طلب کم ہوگی۔ اقتصادی جہت میں اس منصوبے کا حتمی ہدف مذکورہ ٹارگٹس حاصل کرنا ہیں۔سیاسی طور پر سوڈانی حکومت اس منصوبے کو اپنے لئے ایک شناخت بنانے کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ وہ ثابت کرسکے کہ ان کی حکومت ایک پرجوش ترقیاتی پروگرام کو اپنانے اور ملک کی اقتصادی صورت حال سے نمٹنے کی کوشش کرنے میں سنجیدہ ہے۔ چونکہ یہ منصوبہ طویل المدتی ہے، اس لیے یہ حکومت عوام کو ایک طویل مشن کے لیۓ تیار اور اپنے منصوبے کے نتائج کا انتظار کرنے کا کہہ سکتی ہے اور اسے مستقبل کی انتخابی مہم کے لیے بھی استعمال کرسکتی ہے۔

جب سوڈانی اپنے منصوبے کو نافذ کرنے اور اسے فروغ دینے کا فیصلہ کریں گے تو یہ منصوبہ حکومت کو یہ امکان بھی فراہم کرتا ہے کہ وہ عوامی رائے عامہ بالخصوص نوجوانوں کی توجہ سرکاری ملازمت کے متبادل کی طرف مبذول کرائے۔ اس منصوبے سے سوڈانی حکومت یہ بھی ثابت کرسکتی ہے کہ وہ خود کو ایک "خدمت" والی حکومت کے طور پر متعارف کرائے، جو دوسری حکومتوں کی طرح صرف سیاسی سرگرمیوں میں وقت گزارنے کے بجائے، اقتصادی اور عوامی سروسز کی صورت حال کو بہتر بنانے اور ترقی اور بالخصوص ملازمتوں کے مواقع فراہم کرنے پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ علاقائی جغرافیائی سیاسی نقطہ نظر سے شیاع السوڈانی کی حکومت خطے میں امن کی فضا کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے، خاص طور پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدے کے بعد خطے میں اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اسی مناسبت سے بغداد کی میزبانی میں ہونے والی کانفرنس مختلف علاقائی ممالک بالخصوص ایران اور خلیج فارس کے عرب ممالک کو اکٹھا کرنے کے حوالے سے ایک اہم واقعہ تھا۔

دوسری طرف شام کی موجودگی نے کانفرنس کو عرب یکجہتی کے فریم ورک میں بدل دیا۔ اس کے علاوہ فاؤ منصوبے کی تکمیل اور ترقی کے راستے کے اقدام کو حتمی شکل دینے سے مغربی ایشیاء میں عراق کے جغرافیائی سیاسی وزن میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ بحیرہ احمر اور بحیرہ روم کی بندرگاہوں کے ساتھ عراق کے نسبتاً کم فاصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ بندرگاہ عراق کو عالمی تجارت اور نقل و حمل کی منزل میں تبدیل کرسکتی ہے اور خطے میں عالمی تجارت کا ایک بڑا حصہ اس ملک کو منتقل کرسکتی ہے۔ یہ پوزیشن عراق کی معیشت میں انقلاب لا سکتی ہے اور بحیرہ روم اور شمالی عراق کے ذریعے مشرق بعید، جنوب مشرقی ایشیاء، یورپ اور ترکی کو خلیج فارس، ہندوستان، چین، جنوبی کوریا اور جاپان سے جوڑ سکتی ہے۔

بحیرہ احمر میں ترکی اور اردن کی بندرگاہوں کا عراق کی درآمد و برآمد کے لیے جو کردار متعین کیا گیا ہے، اس سے اس اسٹریٹجک بندرگاہ کی پوزیشن واضح ہوتی ہے۔ دوسری جانب چین، جو کئی سالوں سے "بیلٹ روڈ" کے میگا پروجیکٹ پر عمل درآمد کر رہا ہے، عراق کی اسٹریٹجک اہمیت کو سمجھتے ہوئے سمندری اور زمینی راہداریوں کے ساتھ ساتھ عرب اور غیر عرب ممالک کو آپس میں جوڑنے والا اہم لنک ہوسکتا ہے۔ چین، مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ ترکی اور یورپ کے ساتھ  اس لنک کے ذریعے اسے امریکہ کے خلاف دباؤ کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔ اسی لئے وہ عراق میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی، توانائی اور تعمیر نو کے شعبوں میں بڑے سرمایہ کاری کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کی سنجیدگی سے کوشش کر رہا ہے۔

ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں
اس منصوبے کو متعدد چیلنجوں کا بھی سامنا ہے، جو اس کی فزیبلٹی یا عملی جامہ پہننے کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتے ہیں۔ فزیبلٹی کے تناظر میں، اس کے بین الاقوامی تجارتی روٹ بالخصوص نہر سوئز میں موجودہ روایتی راستوں کو بدلنے یا ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ عراق کے وزیراعظم کے مشیر اور اس منصوبے کے ذمہ دار اور سب سے زیادہ پرجوش افراد میں سے ایک ناصر الاسدی نے اعتراف کیا ہے کہ یہ منصوبہ نہر سویز کا متبادل نہیں بلکہ اس کا تکمیلی فیز ہوسکتا ہے۔ فزیبلٹی اسٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ فاؤ بندرگاہ نہر سویز کے لیے تکمیلی ہے، کیونکہ اس میں خاص طور پر ایشیا اور یورپ کے درمیان بین الاقوامی تجارت میں 10-15٪ ممکنہ اضافہ ہوسکتا ہے، لیکن بین الاقوامی نقل و حمل کے اقتصادی ماہرین اس مفروضے کی صداقت پر شک کرتے ہیں، کیونکہ اس شعبے میں کی گئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ خلیج فارس تک عراق کی محدود رسائی نیز عراق کا ایشیاء اور یورپ کے درمیان اہم جہاز رانی کے راستوں سے بہت دور ہونا ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ بڑی شپنگ کمپنیوں نے اپنے راستوں کو موجودہ روٹس کے مطابق ڈھال لیا ہے اور بندرگاہوں کا ایک گروپ ان کی خدمت کے لیے علاقائی مرکز بن گیا ہے۔

ترقی کے راستے کے اقدام پر مغربی ایشیائی خطے کے ممالک کا نقطہ نظر
ترقی کے راستے اور فاؤ کی بڑی بندرگاہ کے منصوبے پر خطے کے ممالک کی مختلف آراء ہیں، جن میں سے تین ممالک ترکی، کویت اور ایران عراق کے پڑوسی ہونے کی وجہ سے اس اقدام سے زیادہ اثرات قبول کریں گے۔ یہ منصوبہ بنیادی طور پر ترکی کے تعاون پر منحصر ہے، کیونکہ اس منصوبے میں ترکی یورپ کے ساتھ کنکشن پوائنٹ ہوگا، جس کے لیے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح پر رابطہ کاری کی ضرورت ہے، جس میں ریلوے لائنوں کا رابطہ بھی شامل ہے۔ گذشتہ مارچ میں، اپنے ترکی کے دورے کے دوران، السوڈانی نے یہ خیال ترک صدر کے ساتھ شیئر کیا تھا اور ترکی کی جانب سے اس کی حمایت اور منظوری دی گئی تھی۔ عراقی حکام کے مطابق ترکی اس منصوبے کی حمایت کرتا ہے اور عراقی فریق کے ساتھ گہرا تعاون کر رہا ہے۔ 2019ء میں ترکی نے عراق میں پانچ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا، جو بنیادی طور پر اس منصوبے سے متعلق ہے۔

خطے کا اقتصادی اور توانائی کا مرکز بننے کی ترکی کی حکمت عملی پر غور کرتے ہوئے یہ ایک معقول وعدہ لگتا ہے۔ اس حوالے سے ترکی کے صدر اردگان نے کہا کہ "ہم ترقیاتی سڑک کے منصوبے کو خطے کی نئی شاہراہ ریشم میں تبدیل کریں گے۔" تاہم اس منصوبے میں ترکی کی فعالیت میں کچھ اگر مگر بھی موجود ہیں۔ عراق کے شمال میں انقرہ کی موجودگی اور دہشت گردی اور PKK کے خلاف جنگ میں اس کی حکمت عملی کے بارے میں عراق اور ترکی کے درمیان اختلاف (اس جغرافیہ سے گزرنے والے ترقیاتی راستے کے اقدام کی وجہ سے) چیلنجز پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ عراقی حکومت کے حق میں جاری ہونے والے بین الاقوامی تجارتی عدالت کے فیصلے کے بعد کردستان کے علاقے سے ترکی کی بندرگاہ سیہان تک تیل کی برآمدات کی مسلسل معطلی کو بھی ان اختلافی مسائل میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے۔ بہرخال اس پروجیکٹ کو موثر بنانے میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی ضرورت ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران بھی دنیا کے تمام ممالک کی طرح عراق کے راستے اپنی تجارت کو وسعت دینے اور تجارتی راہداری، مسافروں اور سامان کی نقل و حمل کے مرکز کے طور پر اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران شلمچہ-بصرہ کے درمیان ریلوے کے راستے کو جلد مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف ایران اپنی بندرگاہوں کو ترجیح دیتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ایران فاؤ بندرگاہ کے منصوبے کی کامیابی میں دلچسپی نہیں رکھتا اور اسے اپنی بندرگاہوں کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ شام کا بھی اس اقدام کے بارے میں مختلف نقطہ نظر ہے۔ ایک ملاقات میں شام کے وزیر ٹرانسپورٹ نے اس سڑک کو ترکی کے بجائے شام سے جوڑنے کی درخواست کی، کیونکہ یہ سڑک جغرافیائی لحاظ سے قریب ہے اور بحیرہ روم کے لیے متبادل راستہ بناسکتی ہے۔

سعودی عرب نے عراق اور سعودی عرب کے درمیان ریل رابطہ قائم کرنے کی تجویز بھی پیش کی اور اس کے نتیجے میں سعودی عرب اس راہداری کی ترقی میں عراق کی مدد کرکے عراق کو بحیرہ احمر میں اپنی بندرگاہوں سے جوڑنے کا خواہاں ہے۔ فاو پورٹ کے نفاذ کا سب سے اہم شکار کویت ہے۔ کویت کا خیال ہے کہ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف بندر مبارک غیر موثر ہو جائے گی بلکہ جیو اکنامک طور پر کویت کا راستہ تنگ کر دیا جائے گا۔ اسی وجہ سے کویت نے اس کی تکمیل کو روکنے کے لیے بہت کوششیں کی ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کیلئے ترقی کے راستے اور فاو کی بڑی بندرگاہ کے اقدام کے مواقع اور چیلنجز
عام طور پر خلیج فارس اور ایران کے پڑوس میں ایک اہم بندرگاہ کے طور پر فاو پورٹ کا قیام، نیز "ترقی کی راہ" کے اقدام کی تکمیل کے امکانات، اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے موثر نتائج کا باعث ہوں گے۔ جیسا کہ متن میں ذکر کیا گیا ہے، ایران کئی سالوں سے شلمچہ-بصرہ ریلوے لائن کو مکمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ "مزاحمتی راہداری" کو فعال کیا جاسکے، جو ایران کو مشرقی بحیرہ روم سے ملاتا ہے۔ تاہم، "ترقی کے راستے" کے اقدام کی تجویز پیش کرتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ عراق نے خود کو شمال-جنوب راہداری کے طور پر بیان کیا ہے، جو ایران کی راہداری اور جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کے خلاف ہے۔ عراق ایران کے ساتھ بڑے تجارتی راستے اور اس کے ذریعے فاو چینل کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جو اس ملک کو خلیج فارس اور یورپ کے درمیان خطے میں تجارت کے مرکز میں بدل دیتا ہے۔ فاؤ کی طرف جانے والے تجارتی راستوں کی طرف مغربی، شمالی اور جنوبی راہداریوں کا رخ موڑنے سے ایران کی حیثیت کمزور ہوسکتی ہے۔

اس طرح کی بات نہ صرف ایران کی جیو پولیٹیکل پوزیشن کو کمزور کرتی ہے بلکہ ایران کے علاقائی حریفوں بالخصوص ترکی کو بھی مضبوط کرتی ہے، جس کے آثار بہت سی علاقائی راہداریوں میں ایران کے خلاف دیکھے جاسکتے ہیں۔ اگر ایران اس منصوبے سے فائدہ اٹھانے کے لیے پہل نہیں کرتا ہے تو یہ راستہ جنوب مشرقی ایشیاء کو یورپ سے ملانے کے لیے شمال-جنوب کوریڈور کے مدمقابل کا کام کرسکتا ہے۔ دوسری طرف توانائی کی تجارت میں اس راستے کا کردار یورپ کو ایران کی توانائی کی پیداواری صلاحیت کو نظر انداز کرنے کی بنیاد فراہم کرسکتا ہے اور دوسرے لفظوں میں خلیج فارس سے عراق کے راستے یورپ تک توانائی کی ترسیل کے راستے کو مستحکم کرکے ایران عملی طور پر توانائی کی تجارت میں پیچھے رہ سکتا ہے اور اسے یورپ کو توانائی کی فراہمی کے طویل مدتی پروگرام سے ہٹا دیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ مغربی ایشیاء کی سب سے بڑی بندرگاہ کے طور پر فاؤ کا ابھرنا ایران کی جنوبی بندرگاہوں کی فعالیت میں کمی کا باعث بنے گا۔

اس کے علاوہ خلیج فارس کے شمال میں فاو بندرگاہ کے متعارف ہونے اور تجارتی (بعض اوقات جاسوسی) بحری جہازوں کی کثیر آمد و رفت سے اس خطے میں بدامنی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں اور ایران کے علاقائی دشمن بشمول امریکہ اور صیہونی حکومت ایران کے لئے خطرات پیدا کرکے ایران کو الگ تھلگ کرنے اور اس کے خلاف بحری اتحاد بنانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس سے ایران کے ارد گرد کے ماحول کو عدم تحفظ اور عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ معاملہ سپاہ پاسداران کی بحریہ کے لیے اس خطے کی نگرانی کو مزید مشکل بنا سکتا ہے۔ بلاشبہ دوسری طرف سے یہ خلیج فارس کے علاقے اور یقیناً آبنائے ہرمز کی جغرافیائی سیاسی اہمیت کو بڑھا کر ایران کے دباؤ کو مضبوط بنا سکتا ہے، جسے ایک موقع کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

ان معاملات کے علاوہ، فاؤ بندرگاہ کے منصوبے کے مکمل ہونے کے بعد خلیج فارس میں ہندوستان، چین، یورپی یونین اور دیگر مشرقی ایشیائی اقتصادی طاقتوں کی موجودگی، اس خطے میں ان ممالک کی جغرافیائی سیاست میں فعالیت میں اضافے کا باعث بنے گی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے مضافاتی ماحول میں ان طاقتوں کی موجودگی میں اضافہ، جو مواقع کے ساتھ ساتھ ایران کے لئے بہت سے خطرات بھی لا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ فاو گرینڈ پورٹ کی تعمیر کے ماحولیاتی نتائج کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیئے۔ نئی فاؤ بندرگاہ کی تعمیر اور ڈریجنگ کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں بہت سے تجارتی جہازوں کے گزرنے سے ماحولیاتی خطرات بڑھ سکتے ہیں اور اس علاقے کے مقامی لوگوں کی معیشت متاثر ہوسکتی ہے، جو ماہی گیری سے روزی کماتے ہیں۔

بہرحال فاؤ پورٹ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس ترقیاتی روٹ اقدام سے پیدا ہونے والے مواقع کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ عراق کے بارے میں ایرانی حکومت کا نقطہ نظر خطے کے دیگر ممالک سے مختلف ہے اور عراق کے اندر  کئی گروہ اسلامی جمہوریہ ایران کے قریب ہیں اور تہران کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات رکھتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور عراق کے درمیان گہرے تعلقات اور بغداد میں ایران کے قریب سمجھی جانے فورسز کی موجودگی خطے میں مزاحمتی محاذ کو مضبوط بنا سکتی ہے اور عراق کے جیو پولیٹیکل فوائد اور اہداف کے حصول کے لیے ایک پل کا کردار بھی ادا کرسکتی ہیں۔ اس دوران شام سے فاو بندرگاہ کا رابطہ فعال ہونا، ان مقاصد میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے، جو ایران کے ارادوں کو ایک مختلف انداز میں پورا کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ فاو بندرگاہ ایران کے لیے راہداری کے شعبے میں اہم کامیابیاں حاصل کرسکتی ہے اور ایران کو سامان کی برآمد یا ایران سے سامان کی برآمد میں سہولت فراہم کرسکتی ہے۔

مثال کے طور پر اگر چابہار تا زاہدان ریلوے لائن مکمل ہو جاتی ہے تو یہ ایران کی مشرقی مغربی ریلوے لائن کو بھی مکمل کرسکتی ہے، جسے شلمچہ-بصرہ ریلوے لائن سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیاد پر ریلوے کا ایک وسیع نیٹ ورک بنایا جاسکتا ہے، جو مشرقی اور مشرقی بعید کو ایران کے راستے عراق اور وہاں سے یورپ تک جوڑ سکتا ہے۔ یہ منصوبہ ایران کے جنوب-شمالی راہداری منصوبے کی تکمیل کرسکتا ہے، جو چابہار بندرگاہ اور بندر عباس کو ایران کے شمال مغرب میں استارا اور ایران کے شمال مشرق میں اشک آباد سے جوڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی، جیسا کہ کہا گیا، ایران توقع کرتا ہے کہ عراق بصرہ ریلوے روڈ کوریڈور کو شام کی سرحدوں تک قبول کرے گا، تاکہ اس طرح ایران کی ریلوے لائن شام، لبنان سمیت بحیرہ روم کی بندرگاہوں سے منسلک ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 1120576
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش