0
Monday 4 Mar 2024 13:08

شکستہ ارمانوں کا دکھ

شکستہ ارمانوں کا دکھ
تحریر: سید تنویر حیدر

گیارہ فروری 1979ء کو امام خمینی کی قیادت میں ایک ایسا انقلاب آیا، جس نے عالمی استکباری نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ انقلاب کسی خاص مسلک کے خلاف نہیں تھا بلکہ اس کا اصل ہدف امریکہ، اسراٸیل اور ان کے وہ حواری تھے، جو مسلمانوں میں تفرقہ ڈال کر اپنے مزموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں۔ اس انقلاب کا نعرہ ”لا شرقی لا غربی جمہوری اسلامیہ“ تھا۔ یہ انقلاب ایک ایسا نظریاتی انقلاب تھا، جس کی فکر کربلا سے کشید کی گئی تھی اور اس کی رہنماٸی سیرت آٸمہء معصومین سے لی گئی تھی۔ امام انقلاب، خمینیء بت شکن نے اپنے وصیت نامے میں واضع طور پر فرما دیا تھا کہ اس انقلاب کی کامیابی کی وجہ ہمارا حدیث ثقلین پر عمل کرنا ہے۔

یعنی رسول خدا کی اس حدیث پر جس میں آپ نے امت کو وصیت فرماٸی تھی کہ میں اپنے بعد دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ اگر ان کو تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ لہذا دامن اہل بیت سے تمسک ہی اس انقلاب کی سلامتی کا ضامن ہے۔ یہ تمسک اس انقلاب کی فرقہ وارانہ اساس نہیں ہے بلکہ اس کا فطری تقاضا ہے، جو اس کی شہ رگ سے جڑا ہوا ہے۔ مسلمانوں کو وحدت کی لڑی میں پرو کر انہیں دنیا کی مستکبر طاقتوں کے خلاف کھڑا کرنا اس انقلاب کا منشور ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لیے اسلامی جمہوری ایران نے انقلاب کے فوراً بعد جو پہلا کام کیا، وہ یہ کہ ایران کی سرزمین سے اسراٸیل کے ناپاک سفارت خانے کا خاتمہ کر دیا۔ اس کا یہ عمل غاصب اور ناجاٸز اسراٸیلی حکومت کے شکنجے سے فلسطین اور بیت المقدس کو آزاد کرانے کا ابتدایہ ہے۔

ایران کی اسراٸیل کے خلاف یہ جدوجہد اب اس مقام تک پہنچ گئی ہے، جہاں اب  صیہونی حکومت کے خاتمے کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ نظریات جغرافیاٸی سرحدوں کے پابند نہیں ہوتے بلکہ یہ ہوا کے دوش پر سفر کرتے ہیں۔چنانچہ ہم آج مشاہدہ کر رہے ہیں کہ کس طرح دنیا کے مظلوم اس انقلاب کے جھونکوں میں ایک ایسا محور مقاومت تشکیل دے چکے ہیں، جو دنیا کی تسلط پسند قوتوں خصوصاً اسراٸیل کر اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے۔ یقیناً اس فروغ پاتی ہوٸی مقاومت کا شدید ردعمل بھی ہے۔ اس ردعمل کے طور پر ہم آج یہ دیکھ رہے ہیں کہ کس پیمانے پر ایران کے خلاف مختلف قسم کے محاذ کھول دیئے گئے ہیں۔ ان تمام محاذوں میں سب سے وسیع تر محاذ ایران کے خلاف نظریاتی محاذ ہے، جس کا داٸرہ مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا ہے۔

عالم اسلام میں ایک خاص طبقے کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ ایران آج جو اسراٸیل کے خلاف مقاومتی گروہوں کی مدد کر رہا ہے، اس کا مقصد دراصل اسراٸیل کو شکست دے کر عالم اسلام میں اپنی ایسی بالا دستی قاٸم کرنا ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان اہل تسنن کو ہوگا، جو اسلامی دنیا میں اکثریت میں ہیں۔ اس نظریئے کے مفکرین اب اسلامی جمہوری ایران کے خلاف سیاسی اور مسلکی بنیادوں پر صف آراء ہیں۔ ایران کے خلاف اس قسم کے تأثر کا سب سے زیادہ نقصان یقیناً حماس جیسی اہل سنت مجاہدین کی تحریک کو پہنچے گا اور اس کا فاٸدہ بدیہی طور پر اسراٸیل کو ہی پہنچے گا۔ ایران کے خلاف پاکستان میں اس طرح کی فکر کو آج کل ایک مفکر احمد جاوید ہوا دے رہے ہیں۔

وہ سوشل میڈیا پر شیعہ مسلمہ عقاٸد اور اہل تشیع کی تاریخ کو توڑ موڑ کر بیان کرکے اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ جہاں اہل تشیع کے نظریہ امامت پر تنقید کرتے ہیں، وہ وہاں بنی امیہ کی وکالت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ شیعہ اکابرین کی اتحاد بین المسلمین کی کوششوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حال ہی میں ان کا ایک کلپ آغا جواد نقوی صاحب کے حوالے سے بھی آیا ہے، جس میں ان پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ وہ ولایت فقیہ پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ ان کے بہت سے نظریات ایسے ہیں، جن کا جواب علماء دے چکے ہیں۔ ان کو زیادہ موضوع بحث بنانا بھی ان کو زیادہ اہمیت دینے کے مترادف ہے۔ لیکن کیونکہ ان کے نظریات عالمی اسلامی تحریک کو ضرب لگانے کی ایک عالمی سازش کا حصہ ہیں، لہذا ان جیسے مفکرین سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ کل تک یہی لوگ کہتے تھے کہ ایران اور حزب اللہ درون خانہ اسراٸیل سے ملے ہوئے ہیں۔

ایران عراق جنگ کے دوران ایک بار جب یہ پروپیگنڈہ بڑے شدومد کے ساتھ جاری تھا کہ ایران اسراٸیل سے اسلحہ لے رہا ہے تو اس وقت امام خمینی نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ اگر ہم نے اسراٸیل کے اسلحے سے ہی یہ جنگ لڑنی ہے تو ہم یہ جنگ لڑیں ہی کیوں؟ آج جبکہ ان کے اس بیانیے میں جان باقی نہیں رہی تو اب انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ایران کی اسراٸیل کے مقابلے میں کامیابی اہل سنت کی شکست ہے۔ یہ لوگ کیونکہ شکست خوردہ اور ہارے ہوئے لوگ ہیں اور اپنی اس شکست کا یہ خود بھی برملا اعتراف کرتے ہیں، نیز اب ان میں اپنی اس شکست کو فتح میں بدلنے کا یارا بھی نہیں ہے، لہذا اب ان کے سامنے اپنی ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ وہ راستہ جو فتح مکہ کے بعد ابوسفیان اور اس کی اولاد نے کلمہ پڑھ کر اختیار کیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 1120184
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش