5
0
Sunday 15 Apr 2012 23:11

سانحہ چلاس۔۔۔انسانیت سوز واقعہ

سانحہ چلاس۔۔۔انسانیت سوز واقعہ
تحریر: ذیشان مہدی

مارچ کا آخری ہفتہ اہالیان گلگت بلتستان خصوصاً سکردو کے لوگوں کے لئے پرکیف ہوتا ہے، کیونکہ طویل سردی کے بعد انہی دنوں میں علاقے کے لوگوں کو بہار کی آمد کا احساس ہونے لگتا ہے۔ یوں تو لوگ 21 مارچ کو ہی آمد بہار کا جشن ’’جشن نوروز‘‘ مناتے ہیں مگر موسم خراب رہنے کی صورت میں یکم اپریل سے پہلے موسم میں نمایاں تبدیلی نہیں آتی۔ اپریل کے ابتدائی دن خوبانی کے پھولوں کے باعث یادگار ہوتے ہیں، جب خوبانی کے درختوں پر سفید پھول کھل جاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے پورا علاقہ کسی کی آمد کیلئے سجا دیا گیا ہو۔ یہ موسم خوشیوں کا موسم ہے، اس موسم میں نہ صرف لوگوں کے دل خوشیوں سے مسرور ہوتے ہیں بلکہ سردیوں کی چبھتی دھوپ سے جلے ہوئے چہرے بھی کھل جاتے ہیں جبکہ کثیر تعداد میں غیر ملکی خصوصاً جاپانی شہری اس موسم سے لطف اٹھانے کیلئے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
 
حسب روایت اپریل 2012ء کا مہینہ بھی خوبانی کے سفید پھولوں کے حسین نظاروں سے شروع ہوا، مگر ابھی دو دن ہی گزرے تھے اور لوگ اس موسم سے صحیح طرح لطف اندوز بھی نہ ہو پائے تھے کہ ایک قیامت خیز خبر نے ان کی ساری خوشیاں نگل لیں۔ یہ خبر گلگت بلتستان کے ہی ایک ضلع چلاس سے آئی تھی، جہاں راولپنڈی سے گلگت بلتستان آنے والے مسافروں پر گونر فارم چلاس کے مقام پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ یہاں کیا ہوا تھا اور کیسے مناظر تھے یہ ہم ایک عینی شاہد کی زبانی سنتے ہیں۔

عاشق حسین نامی یہ طالب علم راولپنڈی سے سکردو کی طرف سفر کر رہا تھا اور 3 اپریل کو دن 11 بجے کے قریب کانوائے میں شامل ایک گاڑی میں چلاس پہنچا۔ عاشق حسین نے بتایا میں نجی کمپنی کی ایک بس میں تھا، جس میں میرے علاوہ خواتین اور بچوں سمیت تقریباً 40 مسافر تھے۔ دن کے تقریباً 11 بجے تھے جب ہم گونر فارم کے مقام پر پہنچے۔ ہماری گاڑی کانوائے کے آخر میں تھی، جس کے آگے اور پیچھے پولیس کی دو گاڑیاں تھیں، جن میں تقریباً دو درجن پولیس اہلکار سوار تھے۔ پولیس نے ہمیں ایک ایسی جگہ روکا جہاں ایک طرف پہاڑی تھی اور دوسری طرف دریا سندھ بہہ رہا تھا۔ گاڑیاں رکی ہی تھی کہ ساتھ والی پہاڑی سے شدید پتھراو شروع ہو گیا۔ ہم گھبرا گئے اور افراتفری کے عالم میں گاڑیوں سے نکلنے لگے۔

میں جیسے ہی باہر نکلا میرے سامنے کربلا کا منظر تھا۔ کچھ شرپسند آگے کی گاڑیوں سے مسافروں کو نکال نکال کر پتھروں، ڈنڈوں، چھریوں سے مار رہے تھے جبکہ بعض لوگ گولیاں برسا رہے تھے۔ یہ منظر میری برداشت سے باہر تھا، مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب میں ہوش کے عالم میں دیکھ رہا ہوں۔ پھر کچھ انسان نما درندے ہماری طرف بڑھے اور یہاں بھی لوٹ مار شروع کر دی۔ مجھ سے میرا شناختی کارڈ دکھانے کا کہا گیا، میں نے بتایا کہ شناختی کارڈ چھت پر رکھے سامان میں ہے، نام پوچھا تو میں نے عاشق اللہ بتایا، پھر مجھ سے کلمہ اور نماز کے بارے میں پوچھا گیا، ڈر اور خوف کے باوجود میں نے جواب دینے کی کوشش کی۔ اللہ جانے کیسے ان کو یہ یقین ہو گیا کہ میں ان کے مسلک سے تعلق رکھتا ہوں۔ ایک شخص نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ اپنا بندہ ہے، اسے چلاس شہر پہنچا دو۔ انہوں نے مجھے ایک موٹر سائیکل پر بٹھایا، جس پر پہلے ہی دو افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ مجھے لے کر چلاس کی طرف چل پڑے، کانوائے کے آخر تک کا سفر میرے لئے انتہائی کرب ناک تھا اور میں اس منظر کو ساری زندگی نہیں بھول سکوں گا۔

میرے دونوں اطراف لوگ تڑپ رہے تھے، دہشتگرد نہتے لوگوں پر ظلم کی انتہا کر رہے تھے، پتھروں سے لوگوں کے سر کچلے جا رہے تھے۔ پھر ایسا ہوا کہ میری آنکھیں کھلی تھیں مگر مجھے کچھ نظر آنا بند ہوگیا۔ کانوائے کے آگے ٹرک کھڑا کر کے روڈ بلاک کیا گیا تھا، جہاں پولیس کی ایک گاڑی بھی کھڑی تھی، پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں مگر حیرت انگیز طور پر وہ تماشائی بنے بیٹھے تھے اور بندوقوں کی نالیاں زمین کی طرف جھکی ہوئی تھیں۔ میں نے پولیس کی گاڑی میں بیٹھنے کی کوشش کی مگر پولیس والوں نے مجھے روکا اور کہا کہ گاڑی میں جگہ نہیں ہے۔
 
میں نے اپنا بیگ پولیس کی گاڑی میں پھینک دیا کیونکہ بیگ کے اندر میرے کاغذات تھے، جن کے ذریعے دہشتگردوں کو میرے اصل نام اور مسلک کے بارے میں پتہ چل سکتا تھا۔ مجھے اپنے ساتھ لانے والوں نے آگے کھڑی ایک سبز نمبر پلیٹ والی گاڑی میں مجھے بٹھایا، جس میں پہلے سے ان کے بعض ساتھی بیٹھے تھے۔ میرے بیٹھنے کے بعد گاڑی چل پڑی، گاڑی کے اندر موجود دہشتگردوں کا دیگر دہشتگردوں سے موبائل فون کے ذریعے رابطہ تھا، کسی مسافر کو قتل کرنے کے بعد ان کو اطلاع مل جاتی اور وہ خوشی سے تالیاں بجانے لگتے۔

میں سن رہا تھا کہ اور وہ تعداد بتا رہے تھے ،15،20،22 اور جب مجھے چلاس شہر میں پاکستان ہوٹل کے سامنے اتارا جا رہا تھا تب آخری بار میں نے سنا کہ پیچھے 24 افراد کو قتل کر دیا گیا ہے۔ یہاں ایک اور گاڑی سے کچھ لوگ اتر گئے تھے، جن میں میرا ایک رشتہ دار بھی تھا جو مسلک کے اعتبار سے اہل سنت برادری سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے مجھے پہچان لیا اور اپنے ساتھ کرلیا، پھر ہمیں چلاس میں ایک شخص کے گھر لے جایا گیا، بعد میں چلاس میں ہی موجود ایک رشتہ دار کے ہاں پہنچایا گیا۔ دو دن تک مجھے چلاس میں رکھا گیا، جس کے بعد میرے رشتہ داروں کی کوششوں سے مجھ سی ون تھرٹی طیارہ کے ذریعے گلگت اور گلگت سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے سکردو پہنچایا گیا۔ جائے حادثہ اور چلاس شہر میں مجھے کہیں حکومتی عملداری نظر نہیں آئی، جس پر حیرت زدہ ہوں۔

عینی شاہد عاشق حسین کے بیان کردہ واقعات کو پرکھنے کے لئے ہم کچھ اور عینی شاہدین سے گفتگو کرتے ہیں۔ سکردو سے تعلق رکھنے والا لیاقت علی اپنے دوست سید روح اللہ کے ہمراہ راولپنڈی سے سکردو کی طرف سفر کر رہا تھا۔ چلاس گونر فارم میں ان کے ساتھ کیا ہوا، ان ہی کی زبانی سنتے ہیں۔
 
ہماری گاڑی کانوائے کے درمیان میں تھی، گونر فارم سے ذرا پہلے موٹر سائیکل سواروں کا ایک قافلہ ہماری گاڑیوں کے ساتھ ساتھ چلنے لگا، پھر ایک کھلے میدان میں گاڑیوں کو روک دیا، جہاں پہلے سے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی، ہمیں یہ تاثر دیا گیا کہ یہ لوگ اپنے کسی مطالبہ کی منظوری کیلئے احتجاج کر رہے ہیں، مگر تھوڑی دیر بعد لوگوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے تقریباً ڈھائی سے تین ہزار تک پہنچ گئی، اس اجتماع میں 14 سے 15 سالہ بچوں سے لے کر بڑے عمر کے افراد شامل تھے، جو جدید اسلحہ سے لیس تھے۔ پھر انہوں نے گاڑیوں میں گھس کر شیعہ مسلک کے افراد کو الگ کرنا شروع کر دیا، اس مقصد کیلئے شناختی کارڈ چیک کئے جانے لگے جبکہ بعض افراد کی پیٹھ پر زنجیر زنی کے نشانات دیکھے گئے۔
 
دیکھتے ہی دیکھتے قتل و غارت شروع ہو گئی، مسافروں کو بے دردی سے مارا جا رہا تھا، کوئی ڈنڈے سے، کوئی چھری سے، کوئی بندوق سے اور جس کے پاس کچھ نہ تھا وہ پتھر سے حملہ کر رہا تھا۔ کچھ لوگ آئے اور میرے دوست روح اللہ کو بھی پکڑ لیا، اُس کے ساتھ جو بیہمانہ سلوک ہوا وہ مجھ سے دیکھا نہ گیا اس جملہ کے بعد لیاقت علی کی طاقت گفتار جواب دے گئی اور وہ آگے کی کہانی سنا نہ سکے۔

ایک گاڑی کے معاون ڈرائیور شبیر حسین نے بتایا کہ جیسے ہی مجھے حالات کا اندازہ ہوا، جان بچا کر بھاگنے لگا، مجھ پر پتھر برسائے جا رہے تھے مگر مجھے صرف یہ یاد تھا کہ کسی طرح اپنی جان بچانی اور پھنسے ہوئے لوگوں کو بچانے کیلئے سیکورٹی اہلکاروں تک اطلاع پہنچانی ہے۔ پھر فائرنگ شروع ہوگئی، مگر اللہ کا کرنا مجھے کسی گولی نے نہ چھوا۔ دریا کنارے پہنچ کر میں نے پیچھے دیکھا، اب کوئی میرا پیچھا نہیں کر رہا تھا، تب مجھے احساس ہوا کہ دو اور لوگ بھی میرے ساتھ تھے، ہم تینوں دریا کنارے پتھریلے راستوں پر بھاگتے رہے، کچھ آگے پہنچ کر ایک گاؤں میں داخل ہو گیا، یہاں کچھ لوگ جمع تھے، انہوں نے گونر فارم کے حالات پوچھے، ہم نے کہا وہاں گاڑیوں کو روکا گیا تھا ہم بھاگ کر یہاں پہنچے ہیں، وہاں کے حالات کا ہمیں علم نہیں۔ 

یہاں کے لوگوں نے ہمیں ایک گاڑی میں بٹھایا اور جگلوٹ کی طرف روانہ کر دیا۔ گاڑی والے نے ہمیں جگلوٹ بازار میں چھوڑ دیا، یہاں بھی سڑک پر لوگ جمع تھے۔ ہم ان کی طرف بڑھنے ہی لگے تھے کہ ہم پر شدید پتھراو شروع ہو گیا۔ اب مجھے یقین ہو گیا کہ یہاں سے زندہ بچ کر نہیں نکلا جا سکتا، اتنے میں ایک گاڑی تیز رفتاری سے ہماری طرف آئی، ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص نے تیز آواز میں گاڑی میں بیٹھنے کو کہا اور ہم بیٹھ گئے۔

ہمارا ایک ساتھی زخمی ہو گیا تھا مگر اسے اپنی جان بچنے کی خوش تھی، جس کے باعث درد کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ گاڑی والا ہمیں لوگوں کے بیچ سے تیز رفتار سے نکال لایا۔ لوگوں نے گاڑی پر پتھراؤ کرنا شروع کر دیا، پھر فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں، مگر گاڑی نہ رکی، اسی تیز رفتاری میں ہمیں عالم برج کراس کرایا گیا، ایک سنسان جگہ پر ہمیں اتارتے ہوئے ڈرائیور بولا کہ تم لوگ یہاں سے اپنے گھروں تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ تلاش کرو، میں واپس جاتا ہوں، پتہ نہیں میرے ساتھ کیا ہو گا، بس تم لوگ میرے حق میں دعا کرنا۔

عینی شاہد عابد حسین کا کہنا ہے چلاس میں جو واقعہ ہوا اس نے انسانوں کے بارے میں میرا نظریہ یکسر بدل دیا ہے، میں نے کبھی سوچا نہ تھا کہ انسان انسانیت کے درجہ سے اس قدر گر سکتا ہے، میرے سامنے چھ افراد کو تڑپا تڑپا کر مار دیا، اس قدر ظلم و بربریت کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے اپنے آپ پر بھی حیرت ہے کہ میں کھلی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہا تھا اور اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ دہشتگرد ایک ایک کرکے لوگوں کو کرب ناک موت دے رہے تھے، اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے بلند آواز سے کہا کہ سکردو، استور اور نگر والوں کو مت مارو، صرف گلگت شہر والوں کو مارو۔
 
وہ شخص یہی جملہ دہراتا ہوا ہر شخص کے پاس جانے لگا، تب قتل و غارت گری میں مصروف دہشتگردوں نے ہم سے علاقے کا پوچھنا شروع کر دیا اور گلگت کے علاوہ دیگر علاقوں کے لوگوں کو الگ کر دیا، تاہم اس دوران قتل و غاری گری کو کم از کم آدھ گھنٹہ گزر چکا تھا اور سکردو سے تعلق رکھنے والے کئی افراد دہشتگردوں کے ہتھے چڑھ چکے تھے، کیونکہ اس وقت قتل ہونے کے لئے شیعہ ہونا کافی تھا۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ میں زندہ بچ گیا ہوں، جن لوگوں نے ہمیں بچایا وہ ہمیں اپنے گھر لے گئے، کھانا کھلایا اور بہت اچھا برتاؤ کیا، پھر ہماری واپسی کا بھی بندوبست کیا۔ ہم ایک طرف اسی علاقے کے لوگوں کا وحشت ناک چہرہ دیکھ کر دہشت زدہ ہیں تو دوسری طرف کچھ لوگوں کے نیک رویے کے باعث ممنون احسان بھی، مگر یقین سے کہہ سکتا ہوں گونر فارم میں جو کچھ میں نے دیکھا ہے، اسے دیکھنے کی تاب کسی انسان میں نہیں ہو سکتی۔

عینی شاہد شبیر کھرکوہ نے بتایا جب لوٹ مار شروع ہوئی تو میں پولیس والوں کے قریب تھا۔ میرے سامنے ایک شخص کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا، پھر ایک شخص نے بڑا سا پتھر اٹھایا اور مظلوم شخص کے سر کا نشانہ لینا چاہا، اسی اثنا میں قریب کھڑا ایس پی درمیان میں آگیا اور اس کو بچانے کی کوشش کرنے لگا، ظالم نے پتھر کا وار کیا جو ایس پی کو لگا اور وہ خود زخمی ہو گیا۔ کچھ دہشتگرد بسوں کی چھتوں سے مسافروں کا سامان اتار کر لوٹ رہے تھے، جس کے بعد غیر ضروری سامان کو اکھٹا کر کے بسوں سمیت آگ لگا دی گئی۔ کچھ لوگ جانیں بچا کر دریا میں کود پڑے جبکہ کچھ لوگوں کو دہشتگرد قتل کر کے دریا میں پھینک رہے تھے۔ میرے آگے پیچھے خواتین اور بچوں کی آہ و بکا کی آوازیں آ رہی تھیں۔

نہتے مسافروں کو بے دردی سے قتل کرنے والے اتنے سفاک تھے کہ قتل کے بعد نعرہ تکبیر بلند کرتے اور تالیاں بجاتے تھے، مگر انہی کے درمیان کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو قتل و غاری گری کی مخالفت کر رہے تھے، مجھے ایسے ہی ایک نیک بندے نے بچا لیا۔ اپنے ساتھ گھر لے گیا، کھانا کھلایا، تسلی دی، دل آزاری پر معافی مانگی اور واپس بھی بھیج دیا۔ میں اس شخص کے احسان کو کبھی نہیں بھول پاوں گا۔ شبیر کھرکوہ نے بتایا کہ جائے سانحہ پر بسوں اور چھوٹی مسافر گاڑیوں کی تعداد 34 تھی۔

گونر فارم کے مقام پر دہشتگردوں سے لڑتے ہوئے زخمی ہونے والے ایس پی جمشید احمد نے اپنے بیان میں کہا ہے گونر فارم کے مقام پر تقریباً 3 ہزار افراد نے مسافر بسوں کو گیرے میں لے لیا اور ان پر پتھراو اور فائرنگ شروع کر دی۔ میں نے بعض مسافروں کو بچانے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں بعض دہشتگردوں نے مجھ پر پتھروں سے وار کیا، پھر بعض نے فائرنگ کر کے مجھے زخمی کر دیا۔ مجھے چلاس ہسپتال میں ہوش آیا۔ میں کچھ حملہ آوروں کو جانتا ہوں جن کے نام میں نے اعلٰی حکام کو دے دیا ہے جبکہ مزید نام اور تفصیلات بتانے کیلئے بھی تیار ہوں۔ میرے ساتھ پولیس کے 23 اہلکار تھے، مگر فائرنگ کی اجازت نہ تھی جس کی وجہ سے ہوائی فائرنگ کی جاتی رہی۔ اگر ہمیں دہشتگردوں کے حملہ کی پیشگی اطلاع ہوتی تو مسافر بسوں کو بسری چیک پوسٹ سے واپس بھیج دیتے۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ ایک مہینہ قبل اسی واقعہ سے ملتا جلتا ایک واقعہ کوہستان میں پیش آیا تھا جس میں 16 شیعہ افراد کو گاڑیوں سے اتار کر قتل کر دیا تھا۔ واقعہ کے بعد طویل احتجاجی سلسلہ جاری رہا اور حکومت نے شاہراہ کو مسافروں کیلئے محفوظ بنانے کے دعوے کئے۔ سانحہ کوہستان کے ایک ماہ بعد پیش آنے والے سانحہ چلاس نے جہاں ایک طرف انسانیت کو شرمسار کر دیا ہے وہاں حکمرانوں کی بے حسی اور عوامی مسائل سے عدم دلچسپی عیاں کر دی ہے۔ اسی روز گلگت میں انجمن اہل سنت کی طرف سے ہڑتال کی جا رہی تھی اور کوہستان واقعہ کے الزام میں گرفتار ایک مولانا عطاءاللہ ثاقب کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، انجمن کے ذمہ داران نے مطالبہ کی منظوری کیلئے ایک ریلی نکالی جو جامع مسجد سے ذرا آگے بڑھی تھی کہ ہینڈ گرینڈ کا ایک خوفناک دھماکہ ہوا، جس نے 4 افراد کی جان لے لی۔

حکومتی ادارے تاحال اس واقعہ کے حقائق عوام کے سامنے لانے میں ناکام ہیں، جبکہ بروقت کسی قسم کی کارروائی بھی نہ کی گئی، یہ واقعہ چلاس واقعہ کا پیش خیمہ تھا، واقعہ کے بعد شہر میں طرح طرح کی افواہیں گردش کرنے لگیں، مختلف علاقوں میں یہ افواہیں پھیل گئیں کہ گلگت میں درجنوں افراد قتل ہو گئے ہیں، چلاس کے واقعہ کو گلگت کے واقعہ کا ردعمل بھی ظاہر کیا جار ہا ہے مگر اس کا کوئی جواز نظر نہیں آتا کہ کسی کے گناہ کی سزا کسی اور کو دی جائے۔ حکومتی ادارے بھی کسی دیگر جگہ پر ہونے والے ممکنہ ردعمل سے بے خبر رہے، جس کے باعث چلاس میں دہشتگرد کئی گھنٹوں تک آزادانہ طور پر اپنی کارروائی کرتے رہے۔

عین ممکن تھا کہ مسافر بسوں میں سوار سینکڑوں مسافروں میں سے کوئی ایک بھی وہاں سے بچ کر نہ نکل پاتا، مگر وہاں موجود بعض خدا ترس مسلمانوں نے انسانیت کی لاج رکھ لی۔ انہی میں سے ایک لیور خان ہے، چلاس کے رہائشی اس شخص کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے لائن میں کھڑے کئے ہوئے 80 افراد کے آگے کھڑے ہو کر دہشتگردوں سے کہا کہ پہلی گولی مجھے مارو پھر ان بے گناہوں کو قتل کرو، لیور خان کسی طور پر دہشتگردوں کے آگے ہار ماننے کیلئے تیار نہ تھا اور پھر دہشتگرد اس کے آگے ہار گئے۔ چلاس ہی کے بعض اور افراد نے بھی دہشتگردوں کے ہاتھوں سے کئی افراد کو بچا لیا اور ان کو اپنے گھروں میں پناہ دی۔

چلاس واقعہ کے بعد پورے گلگت بلتستان میں حالات تیزی سے بگڑنے لگے، حکومت نے گلگت میں کرفیو نافذ کر دیا اور افواہوں کی روک تھام کیلئے موبائل نیٹ ورکس جام کر دئیے۔ ادھر چلاس سے ہزاروں افراد نے گلگت کی طرف مارچ شروع کر دیا تو نگر اور سکردو کی طرف سے بھی ہزاروں افراد نے جلوس کی شکل میں گلگت کا سفر شروع کر دیا۔ تینوں مقامات پر علماء کرام کی مداخلت کے بعد لوگ واپس ہو گئے۔ تاہم احتجاجی سلسلے شروع ہو گئے، جو نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے ملک میں پھیل گیا۔
 
اگلے روز تک حکومت نے گلگت بلتستان کے باقی اضلاع میں بھی موبائل فون نیٹ ورکس بند کرا دئیے، جس کے ساتھ ہی علاقے کے لوگوں کا پوری دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ افواہوں کا سلسلہ رک گیا مگر احتجاج میں تیزی آگئی۔ سکردو میں 50 ہزار کے قریب لوگوں نے 110 گھنٹوں کا طویل دھرنا دیا، جو گورنر گلگت بلتستان پیر کرم علی شاہ کی طرف سے مطالبات کی منظوری کی یقین دہانی کے بعد ختم ہوا۔ گورنر نے میڈیا کو بتایا کہ علماء کی طرف سے کئے گئے تمام مطالبات منظوری کر لئے گئے ہیں۔ انہوں نے سکردو کے علماء کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ شیخ حسن جعفری اور دیگر علماء نے چلاس اور دیگر علاقوں کے افراد کو بحفاظت حکومت کے حوالے کر کے امن پسندی کی مثالی قائم کر دی ہے۔

اگلے روز وزیراعلٰی گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے سکردو میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چلاس واقعہ ایک غلط ایس ایم ایس کے باعث پیش آیا، جس میں گلگت میں قتل عام کی غلط اطلاع دی گئی تھی، حکومتی ادارے مذکورہ ایس ایم ایس کے حوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چلاس میں قتل عام میں ملوث بعض افراد حکومت کو سانحہ کوہستان میں ملوث ہونے کے الزام میں مطلوب تھے جن کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو چکے تھے۔ چلاس میں قتل عام کرنے والے 20 افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہو چکی ہے، جن کی اور واقعہ میں ملوث دیگر سینکڑوں لوگوں کی گرفتاری عمل میں آئے گی۔ گلگت میں کرفیو کے باعث پھنسے ہوئے غیر ملکیوں کو سی ون تھرٹی کے ذریعے اسلام آباد پہنچا دیا ہے۔

صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ علاقے کیلئے اب کوئی نئی ترقیاتی سکیم نہیں بنے گی، سب سے پہلے امن قائم کریں گے، پھر ترقی کی بات کریں گے۔ شاہراہ قراقرم کو محفوظ بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں گے، ایف سی اور نادرن سکاوٹس تعینات کئے جا رہے ہیں۔ وزیراعلٰی نے کہا کہ گلگت میں کرفیو کے حق میں نہیں تھا مگر وسائل کی کمی کے باعث فوج کی مدد لینی پڑی۔ اگر مجھے پورے وسائل فراہم کریں تو ایک ماہ کے اندر علاقے میں امن قائم کرونگا ورنہ بے شک مجھے گھر بھیج دیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 153587
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
good reporting
Pakistan
ap loog buhut aacha kaam kar rhe hai
ap he ki badault mai humy sara kuch pata chal jata hai
likin jis trah ka aini shaheeden ne batay hai k 3 hazar tak k loog maujood thy humy rokne k lie ...buhut afsoos hai hamare khilaf buhut zada nafrat hjai chilas mai
is k lie kuch zada karne ki zaroort hai
w salam
Pakistan
afsos
sanehaye chilas and kohestan eaik C.I.A game thi، gis my bewogoof chilas ky drendy bik gayai، oor yeai gair insani hadesat ronoma howay eiasy my wahan k zemmadar hazarat ko kerdar ada karna chayai
Pakistan
حوصلہ افزائی کا شکریہ
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش