2
1
Friday 6 May 2011 16:15

خودکش بمبار اسلام کو بدنام کر رہے ہیں، شیخ الحدیث مولانا حسن جان

خودکش بمبار اسلام کو بدنام کر رہے ہیں، شیخ الحدیث مولانا حسن جان
شیخ الحدیث مولانا حسن جان خیبر پختنخواہ کے شہر چار سدہ سے تعلق رکھتے تھے، انہیں دہشت گردوں نے 15 ستمبر 2007ء کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں پشاور میں شہید کر دیا تھا۔ اپنی شہادت سے چند روز پہلے مولانا حسن جان نے پشتو کے ایک ریڈیو چینل کو انٹرویو دیا تھا، جو شیخ الحدیث مولانا حسن جان کا میڈیا سے آخری انٹرویو ثابت ہوا، کیونکہ حقائق سے بھرپور اس انٹرویو کے بعد مولانا کو شہید کر دیا گیا۔ اسلام ٹائمز کے قارئین کے استفادہ کیلئے حقائق سے بھرپور شیخ الحدیث مولانا حسن جان کے اس آخری و اہم انٹرویو کا پشتو سے اردو  میں من و عن ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ مولانا حسن جان مکتب دیوبند کے جید عالم دین اور شیخ الحدیث کے رتبے پر فائز تھے۔ مولانا حسن جان کی عوام میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1988ء کے انتخابات میں مولانا حسن جان نے چارسدہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان کو شکست دی تھی۔ جس کے بعد خان عبدالولی خان نے عملی سیاست کو خیر باد کہ دیا تھا۔ جے یو آئی سے وابستہ شیخ الحدیث مولانا حسن جان وفاق المدارس پاکستان کے مرکزی نائب صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے، جبکہ عمر کے آخری ایام تک پشاور صدر کی مشہور مسجد درویش میں امام جماعت و خطیب کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔

سوال:پاکستان میں اس وقت خودکش حملے عروج پر ہیں گزشتہ دنوں سوات کے علاقے شانگار میں پولیس کے اہلکاروں پر ایک خودکش حملہ ہوا ہے، جس میں ایک پولیس آفیسر سمیت چار سرکاری اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں، آپ ان خودکش حملوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
 
مولانا حسن جان: اسلام کے مطابق یہ حملے جائز نہیں ہیں اور ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے اور یہ سراسر ظلم ہے، پاکستانی پولیس ہو یا فوج وہ مسلمان ہیں اور ہمارے بھائي ہیں، اگر خودکش کارروائیاں کرنے والے جنرل پرویز مشرف کے مخالف ہیں تو جائیں مشرف سے جنگ کریں، اپنے مسلمان بھائیوں کو کیوں قتل کرتے ہیں۔ ہم ان خودکش حملوں کے مخالف ہیں، ان کی مذمت کرتے ہیں اور اس کو غیرشرعی فعل سمجھتے ہیں۔ 
سوال: آپ سمیت اکثر علماء ان حملوں کو غیرشرعی سمجھتے ہیں اور اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن یہ فرمائیں کہ ان حملوں پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے اور کونسے سے ایسے علماء ہیں جو ان کو جائز سمجھتے ہیں اور اس بارے میں فتوے صادر کرتے ہیں۔؟
 مولانا حسن جان: میرا یہ ایمان ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی عالم دین ان حملوں کی حمایت نہیں کرتا، البتہ کچھ انتہا پسند تنظیمیں جیسے جیش محمد اور سپاہ صحابہ، جن کے کارکن جو بےوقوف اور سادہ لوح ہیں اور انہیں کسی چیز کا شعور نہیں ہے وہ اس طرح کی کارروائیاں انجام دیتے ہیں یا تو یہ بےشعور ہیں یا اپنی زندگي سے تھک چکے ہیں یا خفیہ ایجنسیوں کے دھوکے میں آ کر یا پیسے کی لالچ میں خودکش کاروائیاں انجام دیتے ہیں۔ 
سوال:ان حملوں کو کس طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان حملوں میں نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ خودکش حملہ آور بھی جہنم میں جاتا ہے۔؟
 مولانا حسن جان: یہ تمام مسائل جہالت کی وجہ سے ہیں، بعض افراد سادہ لوح نوجوانوں کو جنت کی لالچ میں خودکش کارروائیوں پر تیار کرتے ہیں، یہ ایک طرح کی برین واشنگ ہے، اس سے نوجوانوں کو گمراہ کرکے خودکش حملوں کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔
 سوال: بعض علماء حتٰی بعض جہادی عناصر ان خودکش حملوں کی حمایت کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اس طریقے سے پاکستان میں اسلامی انقلاب لائیں گے۔؟
 مولانا حسن جان: انقلاب کا یہ راستہ نہیں ہے، یہ جاہلانہ طرز فکر ہے، اس کا ہدف فقط قتل و غارت اور ملک میں اختلافات اور تفرقہ پھیلانا ہے۔ اسلامی انقلاب کے دو راستے ہیں یا تو اتحادی حکومت مکمل طور پر ختم ہو جائے یا طاقت کے زور پر ملک میں انقلاب لایا جائے یا انتخابات اور عوامی رائے سے لائق اور اسلامی فکر رکھنے والے لوگوں کو اقتدار میں لایا جائے، اس سے ملک میں اسلامی تبدیلی آ سکتی ہے۔ اگر یہ روش اختیار نہ کی جائے اور ہم خودکش حملوں اور دھماکوں کا سلسلہ شروع کر دیں تو کہیں بھی نہیں پہنچ پائیں گے اور کوئی انقلاب و غیرہ برپا نہیں ہو گا۔
 سوال: آپ کو پاکستان کے قبائلی علاقوں کے بارے میں اطلاعات ہوں گی کہ بعض عناصر نہ صرف ان علاقوں میں خودکش کاروائیاں اور دھماکے کر رہے ہیں بلکہ پولیس یا پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے افراد حتٰی عام افراد کو حکومت کے لئے جاسوسی کرنے کے الزام میں پکڑتے ہیں ان کو قتل کر کے ان کا مثلہ کرتے ہیں۔ مثلا" چند دن پہلے ان عناصر نے وزیرستان میں ایف سی فورس ملیشیا کے سرکاری اہلکاروں کو گرفتار کیا، بعد میں دیگر کو چھوڑ دیا گیا، لیکن ان میں سے ایک ایف سی اہلکار لائق حسین کا سر ایک بچے کے ذریعے قلم کرایا اور اس کی ذبح شدہ ویڈیو فلم بھی بنائی اور اس فلم کو عام لوگوں میں تقسیم بھی کیا۔ آپ اس طرح کی کاروائیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔؟
 مولانا حسن جان: یہ بہت بڑا ظلم ہے، یہ سب دیوانگی اور پاگل پن کا نتیجہ ہے۔ اس طرح کی کاروائیاں کرنے والے پاگل ہیں۔ یہ لوگ منفی پروپیگنڈے اور جذباتی نعروں کے فریب میں آئے ہوئے ہیں، بعض خفیہ ادارے ان بے وقوفوں کی حرکات سے فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ پاکستان مخالف ہیں، ان کے ہندوستان اور اسرائیل سے رابطے ہیں، یہ لوگ پاکستان میں امن و امان کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔
 سوال: مولانا حسن جان، آپ درست فرما رہے ہیں آج جب ان خودکش حملوں، سر قلم کرنے والے مناظر کو مغربی اور صیہونی میڈیا اپنے ذرائع ابلاغ پر دکھاتا ہے تو ساتھ یہ بھی پروپیگنڈا کرتا ہے کہ یہ اسلام ہے۔ گویا اسلام کا چہرہ مسخ کر کے پیش کیا جا رہا ہے، آپ کیا فرماتے ہیں۔؟ 
مولانا حسن جان: جو لوگ یہ کام انجام دیتے ہیں اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ طاغوتی اور استعماری طاقتیں اس طرح کے اقدامات سے فائدہ اٹھاتی ہیں، اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرتی ہیں اور اپنے لوگوں کے اذہان میں اسلام کے خلاف نفرت کے بیج بوتی ہیں۔ 
سوال:اب جبکہ پاکستان میں خودکش کاروائیاں عروج پر ہیں، آپ ان کو روکنے کے لئے کیا تجاویز پیش کریں گے۔؟
 مولانا حسن جان:حقیقت میں انتہا پسندانہ کاروائیاں کرنے والے یہ عناصر جنرل مشرف کی پالیسیوں اور افغانستان پر امریکی حملے پر ناراض ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی پالیسیوں سے نہ صرف عوام کو اپنا مخالف بنا دیا ہے بلکہ لوگ بھی ایک دوسرے کی جانوں کے دشمن بن گئے ہیں، جبکہ دوسری طرف امریکہ بھی خوش نہیں ہے اور بارہا کہہ چکا ہے کہ پاکستان نے دوستی اور تعاون کا حق ادا نہیں کیا ہے اور اسامہ بن لادن اور ملاعمر کی پاکستان میں موجودگی کے بہانے پاکستان کو عالمی سطح پر بھی بدنام کر رہا ہے۔
 سوال:ممکن ہے صدر پرویز مشرف کی پالیسیاں غلط اور اسلام مخالف ہوں، کیا اس کو دلیل بنا کر اسلام اور جہاد کو بدنام کیا جاسکتا ہے اور ایسی کاروائیاں کی جاسکتی ہیں، جو مسلمان تو ایک طرف کفار بھی انجام دیتے ہوئے گبھراتے ہیں۔؟ 
مولانا حسن جان: جی ہاں ہم بھی امریکہ اور نیٹو فورسز کے مخالف ہیں، اسی طرح ہم ان تمام کاروائیوں کی بھی مخالفت کرتے ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انجام دی جا رہی ہیں، لیکن بعض عناصر کی طرف سے خودکش حملوں اور دھماکوں کے ذریعے ردعمل کا اظہار بھی درست اقدام نہیں ہے۔ 
سوال:کیا مستقبل میں اس بات کی امید ہے کہ یہ حملے کم یا ختم ہو جائیں۔؟
مولانا حسن جان: قومی انتخابات قریب ہیں اگر اچھے افراد اقتدار میں آ گئے تو ممکن ہے ان مسائل پر قابو پایا جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 70150
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Tawajah talab
Pakistan
Nice
ہماری پیشکش