1
0
Tuesday 20 Feb 2018 13:03
۳ جمادی الثانی روز شہادت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی وصیتیں

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی وصیتیں
تحریر: مریم نورانی

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی وصیتیں احادیث اور تاریخ کی مختلف کتب میں پھیلی ہوئی صورت میں موجود ہیں۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام، جن کا نام حضرت فاطمہ (س) کی وصیتوں میں کثرت سے ملتا ہے، کے علاوہ تین خواتین یعنی ام ایمن، اسماء اور ابو رافع کی زوجہ سلمی کا نام بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ام ایمن وہی باایمان اور جانثار خاتون ہیں جنہوں نے حضرت فاطمہ (س) کے دعوے کی تصدیق کی۔ ان کے بارے میں رسول اکرم (ص) نے فرمایا تھا: "وہ اہل بہشت کی خواتین میں سے ایک ہے۔" وہ رسول خدا (ص) اور حضرت خدیجہ (س) کے گھر میں مقیم تھیں اور اس کے بعد مدینہ کی جانب ہجرت کر گئیں اور اسامہ کے گھر چلی گئیں۔ اس کے بعد وہ اہلبیت اطہار علیہم السلام کی خدمت میں مصروف رہیں۔ جناب سلمی بھی رسول خدا (ص) کی خدمت میں مصروف رہیں۔ وہ حضرت عبدالمطلب کی بیٹی صفیہ کی کنیز تھیں۔ سلمی حضرت فاطمہ (س) کے گھر دایہ کے فرائض انجام دیتی رہیں اور ان کی وفات کے بعد امام علی علیہ السلام اور اسماء کی مدد سے حضرت فاطمہ (س) کو غسل دینے میں بھی شریک تھیں۔ (اسد الغابہ، جلد ۵، صفحہ ۴۷۸)

اسماء بنت عمیس سے روایت ہے: "فاطمہ (س) نے مجھے وصیت کی کہ میرے اور علی (ع) کے علاوہ کوئی اور انہیں غسل نہ دے، اور میں نے بھی انہیں غسل دیتے وقت ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے علی (ع) کی مدد کی اور ہم دونوں نے مل کر انہیں غسل دیا۔" (بحار الانوار، جلد ۴۳، صفحہ ۱۸۴ اور ۱۹۸) اسی طرح شیعہ اور سنی کتب میں اسماء بنت عمیس سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ جب حضرت فاطمہ (س) کی زندگی کے آخری دن قریب آئے تو انہوں نے مجھ سے فرمایا: "اماں جایا، جس طرح خواتین کے جنازے کو ایک لکڑی کے تختے پر رکھ کر اوپر چادر ڈال کر اٹھاتے ہیں مجھے اچھا نہیں لگتا کیونکہ بدن کے حصے نمایاں ہو جاتے ہیں"۔ جناب اسماء کہتی ہیں میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا: "میں نے حبشہ میں دیکھا ہے کہ وہ لکڑی کا تابوت بنا کر اس میں جنازہ ڈال دیتے ہیں۔ میں ابھی آپ کو اس جیسا بنا کر دکھاتی ہوں۔" جناب اسماء کہتی ہیں کہ میں نے چارپائی کے کناروں پر دو لکڑے کے تختے رکھے اور اوپر چادر ڈال دی۔ جب حضرت فاطمہ (س) نے دیکھا تو بہت خوش ہوئیں اور رسول خدا (ص) کی رحلت کے بعد پہلی بار مسکرائیں۔ (احقاق الحق، جلد ۱۰، صفحہ ۴۷۴)۔

امام علی علیہ السلام کو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی وصیتیں
حضرت فاطمہ (س) کی کرامات میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے پہلے سے ہی امام علی علیہ السلام کو اپنی وفات کی خبر دے دی تھی اور حتی وفات کا دن اور وقت بھی بتا چکی تھیں۔ یہ کرامت شیعہ اور سنی دونوں محدثین نے بیان کی ہے۔ اس بارے میں ایک حدیث میں یوں بیان ہوا ہے:
"حضرت فاطمہ (س) نے امام علی (ع) کو کہا: "میری موت کا وقت آن پہنچا ہے"۔ امام علی (ع) نے فرمایا: "اے دختر رسول خدا (ص)، اب جبکہ وحی کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے آپ کو اس کا علم کیسے ہوا؟" حضرت فاطمہ (س) نے جواب دیا: "مجھے ابھی ابھی نیند کا ایک جھونکا آیا تھا اور خواب میں رسول خدا (ص) کو دیکھا جو مجھ سے فرما رہے تھے: "آج رات تم ہمارے پاس آ جاو گی"۔ میں جانتی ہوں کہ انہوں نے سچ کہا ہے اور آج میری زندگی کا آخری دن ہے۔" (بحار الانوار، جلد ۳، صفحہ ۲۱۳)۔

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ اس کے بعد حضرت فاطمہ (س) نے امام علی علیہ السلام کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا: "میرے دل میں کچھ باتیں ہیں جو میں آپ کو وصیت کے طور پر کہنا چاہتی ہوں۔" امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "اے دختر رسول خدا (ص)، جو چاہتی ہیں بیان کریں۔" امام علی علیہ السلام نے کمرے میں موجود افراد کو باہر جانے کا کہا اور خود حضرت فاطمہ (س) کے سرہانے تشریف فرما ہو گئے۔ حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: "اے رسول خدا(ص) کے چچا زاد، آپ نے مجھے ہر گز جھوٹا یا بددیانت نہ پایا ہو گا اور جب سے میں آپ کے گھر آئی ہوں آپ کی نافرمانی نہیں کی۔" امام علی علیہ السلام نے جواب دیا: "خدا کی پناہ، آپ سب سے زیادہ دانا، نیک سیرت، پرہیزگار، عظیم اخلاق کی مالک اور خدا سے خوف کھانے والی ہیں پھر میں کیسے آپ کو اپنی مخالفت اور نافرمانی پر سرزنش کر سکتا ہوں؟ سچ تو یہ ہے کہ آپ کی جدائی میرے لئے انتہائی ناگوار ہے لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔"

حضرت علی علیہ السلام نے مزید کہا: "خدا کی قسم، رسول خدا (ص) کی وفات کی مصیبت میرے لئے تکرار ہو گئی ہے اور میرے لئے آپ کی وفات اور جدائی بہت بھاری ہے۔ پس انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آہ، یہ مصیبت کس قدر دردناک، جانکاہ اور غمناک ہے۔ خدا کی قسم اس مصیبت کا ازالہ ممکن نہیں۔" حدیث میں آیا ہے کہ اس کے بعد دونوں شدید گریہ کرنے لگے۔ کچھ لمحات کے بعد امام علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا سر اپنے سینہ مبارک سے لگایا اور فرمایا: "جو بھی وصیت ہے بیان کر دیں تاکہ میں اسے انجام دے دوں۔" حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: "خدا آپ کو نیک اجر عطا فرمائے اے رسول خدا (ص) کے چچازاد۔ میری پہلی وصیت یہ ہے کہ میرے بعد "امامہ" سے شادی کر لیجئے گا کیونکہ وہ میرے بچوں پر میری طرح مہربان ہے اور مردوں کو بھی شادی شدہ رہنے کی ضرورت ہے۔ میری دوسری وصیت یہ ہے کہ جن افراد نے مجھ پر ظلم کیا اور میرا حق مجھ سے چھینا ہے ان میں سے کوئی میرے جنازے میں شرکت نہ کرے کیونکہ یہ میرے اور رسول خدا (ص) کے دشمن ہیں۔ آپ انہیں یا ان کے پیروکاروں میں سے کسی کو میرے جنازے میں شریک نہ ہونے دیں۔ مجھے رات کے وقت اس وقت دفن کریں جب سب سو چکے ہوں۔" (بحار الانوار، جلد ۴۳، صفحہ ۱۹۲)۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اپنی وصیتیں کاغذ کے ایک ٹکڑے پر تحریر فرمائیں اور اپنے سرہانے کے نیچے رکھ دیں۔ آپ کی وفات کے بعد امام علی علیہ السلام کو وہ کاغذ ملا جس میں یہ لکھا تھا:
"بسم اللہ الرحمن الرحیم، یہ دختر رسول خدا (ص) کا وصیت نامہ ہے۔ میں نے ایسی حالت میں یہ وصیت نامہ لکھا ہے جب یہ گواہی دے رہی ہوں کہ خدائے یکتا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد (ص) خدا کے بندے اور رسول ہیں۔ اور گوہی دیتی ہوں کہ بہشت حق ہے اور جہنم حق ہے اور قیامت ضرور برپا ہو گی اور اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہہ نہیں۔ اور گواہی دیتی ہوں کہ خداوند متعال تمام قبروں والوں کو مبعوث فرمائے گا۔ اے علی (ع) میں فاطمہ رسول خدا (ص) کی بیٹی ہوں جسے خداوند متعال نے آپ کی زوجہ قرار دیا تاکہ دنیا اور آخرت میں آپ کی ہو جاوں۔ آپ کو دوسروں کی نسبت میرے کاموں کا زیادہ حق پہنچتا ہے۔ میرا حنوط، غسل اور کفن رات کو انجام دیں۔ رات کو میری نماز جنازہ پڑھیں اور رات کو ہی دفن کریں۔ کسی کو میری وفات کی اطلاع مت دیں۔ آپ کو خدا کے حوالے کرتی ہوں اور قیامت تک آنے والے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو سلام کہتی ہوں۔" (بحار الانوار، جلد ۴۳، صفحہ ۲۱۴)۔
خبر کا کوڈ : 706239
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نسرین مریم
India
فاطمہ زاہراء سلام اللہ علیھا کے بارے میں جانکاری ملی، شکریہ۔ ما شاء اللہ، آج گوگل کے ذریعے ہمیں ہر گھر میں دین و دنیا کی جانکاری مل سکتی ہے۔ مگر ابھی بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ما شاء اللہ، رب آپ سب کو ایمان پر سلامت رکھے۔
ہماری پیشکش