0
Monday 6 May 2024 20:30

امریکی بالادستی کا خاتمہ قریب

امریکی بالادستی کا خاتمہ قریب
تحریر: سید رضا میر طاہر

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنی تقریر میں ایک بے مثال بیان میں اعتراف کیا ہے کہ "امریکہ ایک غالب طاقت یا بالادست قوت کے طور پر اپنی حیثیت کھو چکا ہے اور یورپ کو اب اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر انحصار نہیں کرنا چاہیئے۔" جوزپ بوریل نے کہا: "میری رائے میں، سرد جنگ کے بعد ہم جس بین الاقوامی نظام کے عادی ہوگئے تھے، وہ اب موجود نہیں ہے۔ امریکہ نے اپنی اس بالادستی اور کثیرالجہتی نظام کو کھو دیا ہے، جو 1945ء کے بعد قائم کیا گیا تھا۔" بوریل نے یوکرین کے ساتھ جنگ ​​میں روس کی ممکنہ کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "ہم اب تک امریکی سکیورٹی چھتری پر بھروسہ کرتے رہے ہیں، لیکن یہ چھتری شاید ہمیشہ کھلی نہ رہے اور مجھے یقین ہے کہ ہم اپنی سلامتی کو امریکی انتخابات تک نہیں چھوڑ سکتے، جو ہر چار سال میں ایک بار منعقد ہوتا ہے، اس لیے ہمیں اپنی دفاعی اور سکیورٹی پالیسی کو نئے سرے سے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

یورپی یونین کے اس اعلیٰ عہدیدار کا اعتراف ایک بار پھر اس مسئلے کی توثیق کرتا ہے، جو بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین نے ایک عرصے سے اٹھایا ہے، یعنی امریکہ کا بتدریج اور مختلف جہتوں میں عالمی میدان میں اس کے کردار کا زوال۔ اس کے ساتھ ساتھ، بوریل کا امریکہ سے یورپی دفاعی آزادی کی ضرورت پر زور دینا، عالمی میدان میں امریکہ کی پوزیشن کے زوال کے ساتھ ساتھ  امریکہ کے بارے میں یورپ میں بڑھتے ہوئے اعتماد کے فقدان کے بارے میں سینیئر یورپی حکام کے یقین کی ایک اور علامت ہے۔ یہ امریکہ کی عالمی پوزیشن کا زوال اور واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کا زوال دراصل 1970ء کی دہائی میں شروع ہوا اور ویتنام جنگ میں امریکہ کی واضح شکست، اس کا آغاز تھی۔ اس کے بعد "جارج ڈبلیو بش" کی انتظامیہ اور اس کے یکطرفہ اور من مانے اقدامات سے ہوا۔ جس میں اقوام متحدہ کی مخالفت کے باوجود افغانستان اور عراق پر حملہ تھا۔

اس کے ساتھ ہی 20 جنوری 2017ء کو امریکہ کے نئے صدر کے طور پر "ڈونلڈ ٹرمپ" کی آمد نے یکطرفہ پالیسی میں نئی ​​جان ڈالی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ واشنگٹن کے اختلافات کو مزید تیز کر دیا۔ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دور کو امریکہ کے تیزی سے زوال کے دور کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، خاص طور پر خارجہ پالیسی کے میدان میں، ٹرانس اٹلانٹک تعلقات کے کمزور ہونے اور چین اور یورپ کے ساتھ تجارتی جنگوں کے آغاز کے ساتھ یہ معاملہ بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔ "جو بائیڈن" کے دورِ صدارت میں بحر اوقیانوس کے تعلقات کی بحالی اور مشترکہ پالیسیوں اور اقدامات کے میدان میں یورپ کو امریکہ کے ساتھ لانے کی کوششوں کے باوجود، روس اور چین کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے واشنگٹن کو عملی طور پر رکاوٹوں کا سامنا ہے اور یہ وہ چیز ہے، جس کی تصدیق مختلف امریکی مفکرین کرچکے ہیں۔

درحقیقت 1990ء کی دہائی کے اوائل میں امریکی صدر سینیئر بش کے اس دعوے کے برعکس، جس نے دعویٰ کیا تھا کہ آج امریکہ دنیا کی واحد غالب طاقت ہے، امریکہ اس وقت عملی طور پر خود کو زوال پذیر اور تنہاء کر رہا ہے۔ یہ نیا ورلڈ آرڈر دو بین الاقوامی طاقتوں کے نقطہ نظر اور اقدامات کی وجہ سے ہے، جو ایک کثیر قطبی نظام کے ادراک کے لیے امریکہ کے ساتھ مقابلہ کرتی ہیں، روس اور چین، نیز امریکہ کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور فوجی کمزوری اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی معاشرے میں داخلی اختلافات کی توسیع اور پولرائزیشن امریکی زوال کو ثابت کر رہی ہیں۔

عالمی نظام کی تبدیلی کے تناظر میں ایک اور مسئلہ جس کا ذکر کیا جا سکتا ہے، وہ ہے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور حتیٰ کہ سائنسی طاقت کی مغرب سے براعظم ایشیاء میں منتقلی۔ اس کی وجہ 21ویں صدی میں مختلف اقتصادی، تجارتی، تکنیکی، سیاسی اور ثقافتی شعبوں میں دنیا میں ایشیاء پیسیفک خطے کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی مسائل کے میدان میں چین کا بڑھتا ہوا کردار ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل کے مطابق گذشتہ 30 سالوں میں دنیا کی جی ڈی پی میں چین کا حصہ چھ فیصد سے بڑھ کر تقریباً 20 فیصد ہوگیا ہے، جبکہ یورپیوں کا حصہ 21 فیصد سے کم ہو کر 14 فیصد اور امریکہ کا حصہ 20 فیصد سے کم ہو کر 15 فیصد ہوگیا ہے۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بورل نے تسلیم کیا ہے کہ چین نہ صرف سستی اشیاء کی پیداوار میں بلکہ ایک فوجی طاقت، ٹیکنالوجی کی ترقی بلکہ ان ٹیکنالوجیز کی تعمیر میں بھی سب سے آگے ہے، جو ہمارے مستقبل کو تشکیل دیں گی۔ اس تبدیلی کی علامت علاقائی اقتصادی طاقتوں کے ساتھ ساتھ عالمی اقتصادی طاقتوں اور ابھرتی ہوئی معیشتوں پر مشتمل  گروپ 20 کی بتدریج ترقی ہے، جس کا مطلب مغرب کے معاشی تسلط کا خاتمہ اور عالمی اور علاقائی سطح پر نئی اقتصادی طاقتوں کا ظہور ہے۔ اس کے علاوہ مغرب کی حریف طاقتیں، یعنی چین، روس، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ جیسی ابھرتی ہوئی معیشتیں، جو کہ تمام BRICS گروپ کے رکن ہیں، خاص طور پر یک قطبی کے بجائے ایک کثیر قطبی نظام بنانا چاہتی ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ بین الاقوامی نظام میں لبرل ڈیموکریسی کا خاتمہ ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کی سب سے اہم تشویش چین کا امریکہ کے ساتھ بڑھتا ہوا مقابلہ ہے اور بیجنگ کی دنیا کی پہلی اقتصادی طاقت اور فیصلہ کن بین الاقوامی اداکار بننے کی کوشش ہے۔ اس سلسلے میں، امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی کی 2023ء کی رپورٹ میں کہا گیا ہے: "چین تمام شعبوں اور مختلف خطوں میں عالمی حکمرانی پر مبنی ترتیب کو تبدیل کرنے کے لیے براہ راست کوششیں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔" چین اور روس کا خیال ہے کہ بین الاقوامی ترقیات اور عالمی نظام کی حقیقتیں کثیر قطبی نظام کے حق میں ہیں جبکہ امریکہ اب بھی یک قطبی نظام کو برقرار رکھنے پر اصرار کرتا ہے اور اپنے مقاصد اور مطالبات کے حصول میں عالمی پولیس کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ سب کچھ من مانی اور یکطرفہ پن کا طریقہ ہے۔ تاہم اس وقت عالمی رجحانات  واشنگٹن کی ناکامی اور بین الاقوامی میدان میں اس کی حریف طاقتوں کے ابھرنے کا پتہ دے رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1133241
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش