3
3
Sunday 24 Mar 2024 13:24

مولانا مودودی ؒ اور ایک معمّہ

مولانا مودودی ؒ اور ایک معمّہ
تحریر: نذر حافی

گذشتہ روز محترم رائے یوسف رضا دھنیالہ صاحب کا ملوکیت اور بادشاہت کی مذمّت پر مبنی ایک جامع صوتی کالم سُننے کی توفیق ہوئی۔ اُنہوں نے راجہ داہر جو کہ ایک ہندو بادشاہ تھا، اس کی اعلیٰ انسانی اقدار کو سراہتے ہوئے بنو امیّہ اور بنو عباس کے بادشاہوں کی خوب درگت بنائی۔ اُن کے تجزیئے میں محمد بن قاسم کے راجہ داہر سے اقتدار ہتھیانے کی بھی خوب مذمّت کی گئی۔ اس سے ایک بات تو یہ پتہ چلی کہ بادشاہت خود کوئی بُری شئے نہیں ہے بلکہ اقتدار کو منفی طریقے سے ہتھیانا، یہ ایک قبیح عمل ہے، چاہے بادشاہت کے نام پر ہو یا کسی بھی دوسرے نام پر۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں منصف مزاجی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے۔ بادشاہت اپنے زمانے کا ایک بہترین نظامِ حکومت رہا ہے۔ ابنِ آدم کے عروج اور ارتقا میں بادشاہت کا بڑا کردار ہے۔ اللہ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے خود بھی بادشاہ متعیّن کئے ہیں۔

ملاحظہ فرمائیں: وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ۔" (بقرہ ۲۴۷) "اللہ تعالیٰ نے حضرت طالوت ؑ کو بادشاہ بنایا، اسی طرح اللہ نے حضرت داود علیہ اسلام کو بادشاہت عطا کی۔سورہ ص کی آیت ۱۹ سے چھبیس کا مطالعہ کریں۔ حضرت داود علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت سلیمان علیہ اسلام کو اپنا جانشین بنایا، سورہ نمل میں حضرت سلیمان علیہ اسلام کی بادشاہت اور دربار کی شان و شوکت کا ذکر موجود ہے۔ صرف بادشاہوں کی بات ہی نہیں بلکہ اسی سورہ میں ملکه سبا کا ذکر بھی ہے۔ اسی طرح نجّاشی بھی تو ایک بادشاہ ہی تھا، جس نے مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی۔

کوئی بھی شخص خواہ کافر ہی کیوں نہ ہو، اگر منصف مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تفکر، تعقل اور تدبّر کے ساتھ صرف سورہ نمل کا مطالعہ ہی کر لے تو اُس پر واضح ہو جائے گا کہ "نہ ہی تو بادشاہ یا ملکہ ہونا کوئی بُری بات ہے اور نہ ہی کسی بادشاہ کا اپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنانا۔" تاریخ بشریت اور قرآن کا قطعی فیصلہ ہے کہ کسی کے بادشاہ ہونے یا اُس کے اپنے بیٹے کو جانشین بنانے میں کوئی برائی نہیں، بلکہ اقدار کو پامال کرکے اقتدار کو ہتھیانے میں قباحت ہے۔ اقدار کو پامال کرکے آپ جمہوریّت بھی قائم کریں تو اس میں برائی ہی برائی ہے۔ بے شک اپنے ہاں کی جمہوریّت کو ہی دیکھ لیجئے۔ پس قباحت اور بُرائی بادشاہت یا جمہوریّت میں نہیں بلکہ اقدار، اصولوں، معیارات اور حقائق کی پامالی میں ہے۔

مسلمانوں کے ہاں سب سے اہم دینی اقدار ہیں۔ اسی لئے یہ سوال مسلمانوں کے ہاں چودہ سو سال سے گرم ہے کہ حکومت اور دینی اقدار کو ایک ہونا چاہیئے یا مختلف؟ دوسرے الفاظ میں حکومت ایک دنیاوی کام ہے یا دینی؟ اس سوال کے جواب میں مسلمانوں کے درمیان چودہ سو سال سے اختلاف ہے۔ کئی مسلمان دانشمندوں نے اپنے اپنے طریقے سے اس اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے ایک بڑا نام مولانا مودودی کا ہے۔ دین اور حکومت کے ایک یا الگ الگ ہونے سے ایک ہی خدا، ایک ہی نبیؐ، ایک ہی کتاب اور ایک ہی قبلے کے پیروکار دو مختلف نتیجوں پر پہنچتے ہیں۔ اختلاف یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کی حکومت اُن کی عین نبوّت تھی یا یہ ایک دینی کام نہیں بلکہ ایک دنیاوی کام تھا۔؟

یعنی پیغمبرﷺ کے پاس دو منصب تھے، ایک بادشاہت کا اور دوسرا نبی ہونے کا؟ آپ کچھ دیر کیلئے بطورِ نبی کام کرتے تھے اور کچھ دیر کیلئے بطورِ بادشاہ؟ یا نہیں پیغمبرﷺ کی بادشاہت اور حکومت عین نبوّت اور کارِ رسالت تھی؟ اگر پیغمبر کی نبوّت، رسالت اور حکومت ایک ہی شئے تھی تو ختمِ نبوّت کے ساتھ نبوّت تو ختم ہوگئی کیا نبی ؐ کی حکومت بھی ختم ہوگئی تھی؟ اگر نبیؐ کے وصال کے بعد نبیؐ کی حکومت باقی تھی تو کیا نعوذ باللہ خدا اور اُس کے رسول کو اس حکومت کو بچانے اور جاری رکھنے کی کوئی فکر نہیں تھی۔؟ پیغمبرِ اسلامؐ ایک ایسے ایک عظیم مدبِّر، دوراندیش مفکر، بہترین قائد، بابصیرت رہنماء اور ایک بے مثال انقلابی رہنماء تھے کہ آپ نے صرف تئیس سال میں مکے و مدینے کے عقائد، عبادات، تہذیب و تمدن، جغرافئے، جنگی اصلوں، صلح کی اقدار اور ۔۔۔ کو زیر و زبر کر دیا۔ کیا اتنا عظیم رہنماء یہ بتا کر نہیں گیا کہ میرے بعد میری حکومت کون چلائے گا۔؟

آج ہم دیکھتے ہیں کہ عام اور چھوٹے چھوٹے رہبر و رہنماء بھی اگلے پچاس سو سال کے بعد پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کر رہے ہوتے ہیں۔ جب ہمارے یہ عام سے لیڈر اتنی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں تو کیا نبی اکرم ؐ جیسا عظیم رہبر و رہنماء ان خطرات کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتا تھا کہ میرے بعد میری حکومت کو بادشاہت میں تبدیل کر دیا جائے گا؟ میری قائم کردہ حکومت کے بیت المال سے رنگ رلیاں منائی جائیں گی؟ میری قائم کردہ اسلامی ریاست کی بساط لپیٹ دی جائے گی؟ اور میرے سچے پیروکاروں حتی کہ میری آل و اہل بیت کو دیوار سے لگا کر قتل کر دیا جائے گا۔؟ کسی چھوٹے سے سکول یا مدرسے کا مدیر بھی اگر کسی سفر پر جائے تو یہ خلاف عقل ہے کہ وہ اپنا کوئی جانشین اور نائب بنائے بغیر چلا جائے۔ جب عام آدمی کی عقل اتنا کام کرتی ہے تو وہ کُلِّ عقل اور مجسمہ عقل و خِرد ہے، کیا وہ اتنی بڑی سلطنت کو اپنا نائب اور جانشین بتائے بغیر چلا گیا۔؟

جب ہزاروں سال پہلے حضرت داود ؑ جیسا نبی اپنے بیٹے کو اپنی حکومت کا جانشین بنا کر گیا، تو کیا جو آج کے جدید ترین عہد کا نبی ہے اور جس پر نبوّت ہی ختم ہوگئی اور جو سارے انبیاء کا سردار ہے اور جس کا دین سارے عالمین کیلئے ہے، کیا نعوذ باللہ وہ اپنی حکومت کے جانشین بنانے کی اہمیّت کو نہیں سمجھتا تھا۔؟ ایک ایسا اسوہ کامل ؐ، ایک ایسا جامع نمونہ حیاتؐ جس نے ہمارے لئے گھر سے نکلنے کی دُعا،  غُسلِ جنابت کا طریقہ، بیت الخلاء کے احکام، کھانے کے آداب اور مسواک کے فوائد تک بتائے تو کیا وہ یہ نہیں بتا کر گیا کہ میرے بعد میری حکومت کا کیا بنے گا۔؟ خصوصاً جب اُس کی حکومت اس کے فرائضِ رسالت و نبوّت میں سے ہے۔ کیا اتنے دوراندیش رہبر و رہنماء کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ میرے بعد میری جانشینی کے مسئلے پر میری ہی اُمّت میں ایسا شدید اختلاف پیدا ہوگا کہ قیامت تک انتشار اور فرقہ واریّت کا باعث بنے گا۔؟

قطعیّات تاریخ، سیرت النّبی اور احادیثِ رسول ؐ کے مطابق اللہ کے آخری نبی کو اپنے بعد پیش آنے والے حوادث کا علم تھا اور آپ اس حوالے سے ہمیشہ محتاط رہتے تھے۔ آپ کی دور اندیشی کا یہ عالم ہے کہ آپ نے اسلام کی پہلی دعوت "دعوتِ ذوالعشیر" میں ہی یہ اعلان کیا کہ آج جو بھی میری رسالت کی تصدیق کرے گا، وہ میرا جانشین، وزیر، وصی اور میرا خلیفہ ہوگا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ابھی کوئی سلطنت نہیں ہے، حکومت نہیں ہے، غزوات نہیں ہوئے، فتوحات نہیں ہوئیں، تو اُس وقت پیغمبر کے نزدیک اپنے جانشین کا اعلان اتنا اہم تھا کہ آپ نے وہیں دعوتِ ذوالعشیر میں ہی اپنے جانشین کا اعلان کر دیا۔۔۔ تو کیا جب ریاست و حکومت تشکیل پا گئی تو پھر رسولؐ نے اپنا جانشین معیّن نہیں کیا؟ وہ رسول جو نماز کیلئے بھی اپنا نائب مقرر کرتا ہے، کیا وہ اپنی حکومت کیلئے اپنا جانشین معیّن کرنا بھول سکتا ہے۔؟

آپ قرآن مجید کی نصوص پر پرکھیں، احادیثِ نبوی پر تولیں، تاریخ کو پیمانہ بنائیں، عقل کو میزان قرار دیں یا اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہو جائیں! آپ پر یہ ثابت ہو جائے گا کہ ایک بات تو یقینی ہے کہ اتنا بڑا رہبر و رہنماء اپنے جانشین کے تعیّن سے غافل نہیں ہوسکتا۔ ہم جو صابن خریدنے دکان پر جاتے ہیں تو وہاں بھی سائنسی سوچ استعمال کرنے کی بات کرتے ہیں تو یہاں بھی سائنسی سوچ کا مظاہر کیا جانا چاہیئے۔ پس یہ ایک یقینی امر ہے کہ کوئی اعتراف کرے یا نہ کرے، رسولؐ خدا نے اپنا جانشین ضرور معیّن کیا ہے۔ اب رسولؐ کے بعد جھگڑا اس پر ہے کہ رسولِ خدا کا وہ معیّن شُدہ جانشین کون ہے۔؟ یہ جھگڑا ابھی رسولِ خدا دفن نہیں ہوئے تھے، اُسی وقت مدینے میں ہی سقیفہ بنی ساعدہ میں مسلمانوں کے درمیان ہوا۔

مسلمانوں کو چاہیئے تھا کہ اس جھگڑے کا حل قرآن مجید اور رسولِ خدا ؐکی نصوص میں تلاش کرتے۔ جانشینی پیغمبر اگر نصوص قرآن و احادیث کے مطابق طے پاتی، وہاں آیات سُنائی جاتیں، روایات بیان کی جاتیں تو اختلاف ختم ہو جاتا۔ وہاں جانشینی پیغمبر کیلئے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا گیا۔ یہ دوسرا راستہ مکّی، مہاجر، قریشی یا عمر میں بڑا ہونے کی شرائط پر مبنی تھا۔ پیغمبر اسلام نے تو مکی و مدنی، مہاجر و انصار، قریشی و حبشی کی تفریق ختم کر دی تھی۔ ان منسوخ شدہ اقدار پر جانشینِ پیغمبر کا تعیّن قطعاً قرآنی تعلیمات اور سیرت النبیؐ سے مختلف  ایک دوسرا راستہ تھا۔ نقد و نظر کیجئے کہ اگر ایک چیز جو میری نہ ہو اور وہ میں کسی بھی دوسرے طریقے سے اپنے ہاتھ لے لوں تو کیا وہ میری ہو جائے گی؟ اچھا اب وہ چیز جو میری نہیں ہے، اگر وہ میں استعمال کرنے کے بعد اپنے کسی دوست کو دے دوں تو یہ تو اچھی بات ہے، لیکن اگر وہی چیز اپنے بیٹے کو دوں تو یہ بُری بات ہے۔؟

جب ایک چیز میری ہے ہی نہیں، میں نے کسی اور طریقے سے حاصل کی ہے، اب میں چاہے اسے اپنے کسی دوست کو دوں یا اپنے بیٹے کو اس کا وارث بناوں، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ حاکم شام نے فقط اتنا کیا تھا کہ قرآنی و حدیثی معیارات کے بغیر حاصل کی جانے والی حکومت اپنے کسی دوست کے بجائے  اپنے بیٹے کو دے دی تھی۔ ایسی حکومت کا انتقال اقتدار دوستوں کو ہو یا بیٹوں کو، وہ عمل کے اعتبار سے مساوی ہے۔ اس مساوی عمل کو ہمارے ہاں  مولانا مودودی نے اچھی طرح سمجھا ہے۔ مولانا مودودی کا وژن ایک عالمی وژن تھا اور وہ مسائل کا حل جھگڑوں کے بجائے تدابیر میں تلاش کرنے والے انسان تھے۔ انہوں نے اُمّت میں اتحاد کیلئے آخری حد تک جانے کیلئے خلافت و ملوکیّت لکھ ڈالی۔

اس کتاب نے انتقالِ اقتدار کے مساوی ہونے کی بحث کو ملوکیّت کی طرف Divert کر دیا۔ اس کے بعد لوگوں نے ملوکیّت کو اتنا برا بھلا کہنا شروع کیا کہ گویا یہ لفظ گالی بن گیا۔ طرفین سُنّی و شیعہ دونوں کی تاریخی تسکین کا سارا سامان چونکہ بادشاہوں کو بُرا بھلا کہنے میں موجود ہے، لہذا دونوں کو یہ موضوع راس آیا۔ ڈائورٹ کرنے کی اصطلاح کو یوں سمجھئے کہ جیسے ٹریفک کو کسی گلی سے بڑی شاہراہ پر ڈال دیا جاتا ہے، یا پانی کو دریا سے کاٹ کر سمندر کے بجائے کھیتوں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح لوگوں کے افکار کو ڈائیورٹ کرکے لوگوں کی قوت تحلیل کو بھی کسی ایک نکتے سے کسی دوسرے نکتے پر متمرکز کر دیا جاتا ہے۔

مولانا مودودی ؒ کی باقیات الصالحات میں سے ان کی اتحاد اُمّت کیلئے کی جانے والی ایسی کاوشیں بھی ہیں۔ اگرچہ مخصوص حلقوں نے خلافت و ملوکیت لکھنے کی وجہ سے اُن پر تنقید بھی کی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب نے وقتی طور پر مسلمانوں کے اختلافات کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ یوں مولانا مودودی کے باعث مسلمانوں کو بالآخر اپنی تاریخ پر نظرِثانی اور نقد و نظر کی سوچ ملی۔ اس کے بعد پڑھے لکھے سُنی و شیعہ حلقے نے بادشاہوں کو ہی اپنے سارے مسائل کا سبب گردانا اور جانا۔ یہ بھی بڑی بات ہے کہ طرفین نے  بادشاہوں کی صورت میں اپنے مشترکہ دشمن کو پا لیا اور اُنکے خلاف دل و جان سے ایک ہوگئے۔

اب ہمیں ملوکیّت کی طرف ڈائیورٹ ہوئے کافی سال گزر چکے ہیں۔ ڈائیورٹ ہونے کے باوجود یہ سوال تاریخِ اسلام کے طالب علموں کے دماغوں میں اپنی جگہ بنائے بیٹھا ہے کہ بادشاہت بُری شئے ہے یا اقتدار کو مسلمہ اقدار کے بجائے کسی دوسرے راستے سے ہتھیانا؟ اور اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی شخص ہتھیائی ہوئی چیز اپنے کسی دوست کو دے یا اپنے بیٹے کو؟  قانون دانوں کیلئے بھی یہ ایک اہم پہلو ہے کہ اگر حصول اقتدار ہی قانونی نہیں تو انتقالِ اقتدار پر جھگڑا کیسا؟ پتہ نہیں اہلِ اسلام میں سے سوچنے اور سمجھنے والے لوگ اس مسئلے کو کیسے حل کرتے ہونگے کہ اگر حصولِ اقتدار میں قرآن اور نبوّت کا کوئی عمل دخل نہیں تو پھر وہ اقتدار کسی دوست کو دینا تو جائز ہے اور بیٹے کو دنیا ناجائز کیسے ہے۔؟ میں نے بہت کوشش کی البتہ مجھ سے یہ معمّہ حل نہیں ہوا۔
خبر کا کوڈ : 1124567
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Japan
تو پھر آپ عقیدہ امامت پر باقی ہیں یا درمیان میں معلق ہیں؟ اور کیا سورہ نمل کی مثال سے جو مقدمہ قائم کیا ہے، یہ کس ملک پر لاگو کرنا چاہتے ہیں؟ پاکستان؟ ایران؟ کیا یہ دو ملک یا ان میں سے ایک ملک؟ مودودی صاحب تو خود سعودی عرب کے نظام سے دوستانہ تعلقات قائم کرچکے تھے، سعودی عرب کے عدالتی نظام پر تو جماعت نے اردو کتاب تک شایع کی ہے۔ امت اسلامی کی اکثریتی آبادی پر جو مسلکی تشریح دین نافذ ہے، اس میں دین اسلام کا آبائی وطن تو آج ملوکیت ہی ہے۔ جی سی سی ممالک سارے کے سارے. ملوکیت. او آئی سی عرب ممالک پر حاکم و غالب ملوکیت۔ اردن خادم حرم اول ملوکیت، مراکش ملوکیت، وہ کونسی امت ہے، جو ڈائیورٹ ہوئی خلافت و ملوکیت پڑھ کر؟ حتی کہ قطر میں ملوکیت ہے۔ طبعیت ٹھیک ہے حضرت!!!؟؟؟
Iran, Islamic Republic of
اعلیٰ حضرت آپ بات ہی نہیں سمجھے۔ اس میں بات یہ ہو رہی ہے کہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ منصب خلافت کے حقداروں سے حق کو بذریعہ سقیفہ ہتھیا لیا گیا۔ یہاں سے لوگوں کو ڈائیورٹ کر دیا گیا بادشاہت کی طرف کہ ملوکیت بری چیز ہے، بادشاہ ایسے ہیں اور ویسے ہیں اور پھر زیادہ سے زیادہ بنو امیہ اور بنو عباس۔۔۔
اصل جہاں سے خلافت ہتھیائی گئی اور بادشاہت کو وجود میں لایا گیا، اس پر بات بند کرکے بادشاہت کی طرف پھیر دی گئی۔
Japan
آسان الفاظ میں سقیفائی نظام لکھتے تو بہتر نہ ہوتا۔ اب حو اندرونی سقیفہ وجود میں خواص خود لاچکے ہیں، اب اسکی فکر کریں اور یہ کہ آپ اس کا اٹوٹ انگ ہیں، یعنی عمران خانی تجربہ نیٹ ورک کے حق میں موقف خارجی نہیں داخلی سقیفائی نیٹ ورک ہے۔ اب وضاحت کے ساتھ سیریز میں لکھنا پڑے گا۔
ہماری پیشکش